(ناصر عباس نیر)
مابعد گیارہ ستمبر (۲۰۰۱ء) دنیا کیا ہے اور منٹو کی افسانوی دنیا سے یہ کس قدر متعلق ہے؟
اس سوال کا ایک سادہ اور فوری جواب تو یہ ہے کہ جودنیا آج ہمیں درپیش ہے،مگر یہ جواب کافی مبہم اور تشنہ ہے۔ ہمیں (بہ طور پاکستانی شہری کے) بہت کچھ درپیش ہے:سیاسی،معاشی، مذہبی،ثقافتی اور نظریاتی سطحوں پر۔اس سب کچھ کو مابعد گیارہ ستمبرکا نتیجہ قرار دینا،بہت سے مقامی عناصر کے سر سے ذمہ داری کا بوجھ ہٹا کر اس عالمی قوت کے سر تھوپ دینا ہے جس کے خلاف ہم چیخ سکتے ،اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنی املاک کو نقصان پہنچا سکتے ،مگر اس سے باز پرس نہیں کر سکتے ،نہ اسے عالمی عدالت میں کھینچ لے جانے کی جرأت رکھتے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ جب ہم اپنی ناگفتہ بہ قومی صورتِ حال کی ساری ذمہ داری ایک عالمی قوت اور اس کے گماشتوں(جن کی شناخت ہمیشہ غیر واضح اور متنازع رہتی ہے) پر ڈالتے ہیں تو اس کا سارا فائدہ ہمارے حکم ران طبقوں کو ہوتا ہے۔ہمارے غصے اور احتجاج کا رخ ہمارے حکم رانوں کی بد اعمالیوں کی بجائے اس عالمی قوت کے ایک نفرت انگیز غیر مرئی تصور کی طرف ہوتا ہے۔ تاہم آج ہمیں جو صورتِ حال درپیش ہے،اس کا بڑا حصہ مابعدگیارہ ستمبر کا نتیجہ ضرور ہے۔اس صورتِ حال کا آغاز دراصل گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کی صبح ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پنٹا گون پر حملوں کے بعد امریکا کے ایک خاص انتخاب سے ہوا۔ امریکا نے اسے دہشت گردی قرار دیا اور اس سے نپٹنے کے لیے کروسیڈ یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا راستہ اختیار کیا۔امریکی حکومت کے پاس اپنے غصے اور رنج کے اظہار کے ایک سے زیادہ راستے تھے۔ مثلاً اسامہ بن لادن نیٹ ورک (جس کے بارے میں بغیر کسی تحقیق کے یقین کر لیا گیا کہ اس نے ہی حملے کیے)کے خلاف شفاف عدالتی تحقیقات اورانھیں انصاف کے کٹہرے میں لانا۔ انسانی حقوق کے علم بردار ہونے کے ناطے امریکا کے لیے یہ قرینِ انصاف بھی تھا،مگر امریکا نے اس راستے پر چلنا پسند کیا جسے اس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اختیار کیا تھا۔ویت نام،نکارا گوا،مشرقِ وسطیٰ میں۔یعنی عسکری طاقت کا بے دریغ استعمال ۔قانون،منطق،مکالمے کے بجائے گولی اور ڈرون کا استعمال۔امریکا اور ناٹو کے کل کے حلیفوں (مجاہدین) نے طالبان کے نام سے نئی شناخت حاصل کی اور یہ شناخت ہی انھیں امریکی نظروں میں اس انسانی دائرے سے باہر لے گئی جس میں ان سے انسانی سلوک یعنی مکالمہ کیا جا سکتا ہے۔انھیں چند ظاہری علامتوں (جیسے داڑھی ،شلوار قمیض ، عربی ،پشتو،اردو )اور کچھ خفیہ معلومات کی بناپر پہچان کے گولی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
اگرہم غور کریں تو مابعد گیار ستمبر دنیا کا امکانی نقشہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی اصطلاح ہی میں مضمر تھا۔دہشت گردی کی ا صطلاح کسی باقاعدہ ڈسپلن ؍شعبہ علم کی اصطلاح نہیں جس کے حدود کسی مفکر نے مقرر کر دیے ہوں،یہ زیادہ سے زیادہ ایک سیاسی اصطلاح ہے جسے بہ یک وقت کئی شعبوں میں اور کئی مواقع پر استعمال میں لایا جاتا ہے ۔اسی بنا پریہ کئی سگنی فائیڈز کی حامل ہے جو حددرجہ سیال،غیرمتعین اور لچک دار ہیں۔چناں چہ اپنی لسانی خصوصیت کے اعتبار سے یہ اس شعری علامت کی طرح مبہم ہے جو ہمیشہ وضا حت طلب رہتی ہے۔ اسے مذہبی،نظریاتی، سیاسی،ثقافتی،عسکری،نفسیاتی غرض کئی تناظرات میں برتا جا تا ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد امریکا نے ناٹو کے ساتھ مل کر عراق، افغانستان ،یمن ،لیبیا میں اور پاکستانی حکومت کی مدد سے خود پاکستان میں جو کچھ کیا ہے، اس کا جواز دہشت گردی کے مذکورہ معنوی ابہام میں تلاش کیا ہے۔
مابعد گیارہ ستمبر دنیا ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی کوکھ سے پیدا ہونے والی دنیا ہے۔چناں چہ یہ دنیا انھی ملکوں کو درپیش ہے جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جارہی ہے۔ گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے فوراً بعد دیے گئے ایک انٹر ویو (جو ان کی کتاب نائن الیون میں شمال ہے )میں نوم چومسکی نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی صورت میں ’’ امریکا بن لا دن اور ا س جیسے لوگوں کو موقع فراہم کرے گاکہ وہ مایوس اور غصے کے مارے ہوئے لوگوں کو اپنے مقصد کی خاطر متحرک کریں اور ا س کے نتائج پہلے سے بھی زیادہ ہول ناک ہو سکتے ہیں۔‘‘ (ص ۹۵)بڑی حد تک ایسا ہی ہوا۔طبقاتی ،معاشی اور حکومتی ناانصافی کے شکار لوگ اس جنگ میں باقاعدہ فریق بن گئے۔توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ امریکا میں دوسرا نائن الیون نہیں ہوا،مگر عراق، افغانستان، پاکستان،یمن میں جنگ کے خلاف دہشت گردی کے ردّعمل میں کہیں زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا،جو گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک میں ہوا۔امریکا نے خود کو محفوظ بنانے کے لیے دنیا کے بڑے حصے کو جہنم میں بدل دیا اور ہمارے اپنوں میں سے کس کس نے امریکا کا ساتھ دیا ،یہ سب ظاہر و باہر ہے۔
مابعدگیارہ ستمبردنیاطاقت،شناختوں،عقائد،نظریات،آئیڈیالوجی،بیانیوں،کلامیوں (ڈسکورسز) کی آویزش کی ایسی دنیا ہے جس میں کوئی چیز پوری طرح واضح نہیں۔آپ ایک غیر جانب دار ناظر کے طور پر اس دنیا کو دیکھیں تو چکرا جائیں ۔اس دنیا میں واقعے سے زیادہ ، واقعے کا ردّعمل اور اس پر قائم ہونے والا ڈسکورس اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔یہ ڈسکورس،اشاعتی،برقی میڈیا ،سوشل میڈیا میں جاری ہوتا ہے ۔میڈیا نے مابعد گیارہ ستمبر دنیا کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیاہے۔مابعد گیارہ ستمبر دنیا کے ڈسکورس اور سرد جنگ کے زمانے کے ڈسکورس میں بہت فرق ہے۔ سرد جنگ کے زمانے کے ڈسکورس میں دائیں اور بائیں کی شناختیں واضح تھیں؛کون کس کے ساتھ تھا اور کس کا مخالف تھا،یہ بھی طے تھا،مگر اب دائیں اور بائیں کی شناختیں معدوم ہیں۔اب شناختوں کا تعدد ہے؛ایک ہی گروہ کی ایک سے زیادہ شناختیں ہیں۔نہ طالبان کی واحد اور متعین شناخت ہے نہ اینٹی طالبان کی؛ان سب کے ذیلی ،مقامی گروہ ہیں جن کے مقاصد میں اختلاف ہے۔ایک کھچڑی پکی ہوئی ہے اور سخت کنفوژن ہے۔دیکھیے منٹو نے نصف صدی پہلے لکھا تھا: ’’ بین الاقوامی سیاست اتنی پیچ دار اور الجھی ہوئی ہے کہ اس کو سمجھنا کام رکھتا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ اس بھول بھلیاں میں انسان گم ہو کر رہ جاتا ہے۔‘‘(ص ۵۷)
مابعد نائن الیون دنیا کیا ہے؟ اس کا اظہارگیارہ ستمبردو ہزار بارہ ،منگل کے روز،نائن الیون کی گیارویں برسی کے موقع پر لیبیا اور مصر میں ہوا اور اگلے ایک ہفتے میں عالم اسلام میں۔لیبیا میں امریکا کے سفیرکرسٹو فر سٹیون کو تین اور امریکیو ں کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔یہ سب Innocence of Muslimsنام کی فلم کے رد عمل میں ہوا۔یہ فلم تین ماہ پہلے لاس اینجلس میں سینما پر دکھائی گئی تھی ،مگر ناکام ہوئی ۔چند دن پہلے پانچ ملین ڈالر سے تیار ہونے والی دو گھنٹے کی فلم کا تیرہ منٹ کا ٹریلر یو ٹیوب پر عربی ترجمے کے ساتھ ریلیز کیا گیا۔اس ویڈیو کو مورس صادق نے جاری کیا جو مصری نژاد عیسائی ہے؛اسے ۱۹۶۹ء میں اس کی مصری شہریت اس وقت ختم کر دی گئی تھی جب اس نے امریکا کو مصر میں مداخلت کی دعوت دی تھی کہ وہ عیسائیوں کا تحفظ کرے۔ صادق ٹیری جونز کا ساتھی ہے جس نے قرأن پاک جلانے کی دھمکی تھی اور جس کے ردعمل میں ۲۰۱۰ ء ۱واور ۲۰۱۱ء میں افغانستان میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ڈیلی میل،لندن کی ۱۳ ستمبر کی اشاعت میں لکھا گیا ہے کہ اس ویڈیو میں حضرت محمدﷺ کو جنس اور قتل وغارت گری کا مطالبہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔کلائین نے امریکی سفیر کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا ذمہ دار وہ نہیں، بلکہ وہ مسلمان ہیں جو اپنے پیغمبر کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔نیز اس نے یہ بھی کہا کہ
We told the truth and these people reacted the way that Mohammed wanted to them to react – by killing people.
اس فلم کے پروڈیوسر کی شناخت ابتدا میں نہیں ہوسکی۔شروع میں سام بیسائل کا نام آیااور بعض نے مورس صادق کا نام لیا۔پھر نکولا بیسل نکولا کو اس فلم کا پروڈیوسر قرار دیا گیا۔ڈیلی میل کو انٹرویو میں اس نے کہا کہ
‘The U.S. lost a lot of money and a lot of people in wars in Iraq and Afghanistan, but we’re fighting with ideas.’
غیر معیاری طریقے سے تیار کی گئی،اس توہین آمیز فلم کا ردعمل انتہائی شدید ہوا اور دنیا بھر میں ہوا۔اس سے تقریباً ایک مہینے بعد ،آٹھ اکتوبر کوملالہ یوسف زئی پر سوات میں سکول سے واپس آتے ہوئے قاتلانہ حملہ ہوا۔پوری دنیا کے برقی،اشاعتی ،سوشل میڈیامیں بھونچال آگیا۔یوں لگا جیسے دنیا بھر کا میڈیا،نسیان کا مریض بن گیا ہو اور اسے بھول گیا کہ کل کیا کچھ وہ کَہ رہا تھا۔ مابعدگیارہ ستمبر دنیا میں کوئی واقعہ کیسے ایک میڈیا ڈسکورس بنتا ہے ،اس کا علم ہمیں ملالہ یوسف زئی پر حملے کی کوریج سے مل جاتا ہے ۔ستمبر ۲۰۱۲ء کے میڈیا کی توپوں کا رخ نکو لابیسل نکولا ور اس کے مبینہ سرپرست امریکا کی طرف اور اکتوبر کے مہینے میں اسی میڈیا کی یلغار طالبان کے خلاف ہے۔اگر میڈیا ڈسکورس اتنے واضح رہتے تو سمجھنا آسان تھا کہ چلیں دو متحارب مگر غیر مساوی وسائل کی حامل قوتیں بر سر جنگ ہیں۔ابھی میڈیا ڈسکورس کسی ایک ہدف کے سلسلے میں یک سو نہیں ہوپاتا کہ نیا ہدف تلاش کر لیا جاتا ہے۔ملالہ ڈسکورس بھی طالبان کے خلاف اپنی یک سوئی اور وحدت کھو رہا ہے اور ا س کے اندر سے طالبان حامی بیانیے سر ابھارنے لگے ہیں۔جب دنیا اپنے کان اور آنکھیں میڈیا کی طرف لگائے رکھے گی تو یہی کچھ ہوگا۔میڈیا الف لیلہ کے شہر یار کی طرح ہے جسے ہر رات ایک نئی دوشیزہ کے جسم کی گرمی اور صبح اس کی موت چاہیے:ہر روز ایک بریکنگ نیوز اور اگلے دن اس کی جگہ نئی ،تازہ اور ہوش اڑا دینے والی خبر۔کب میڈیا سوسائٹی کے شہریا ر کو شہر زاد ملے گی ،کچھ معلوم نہیں۔
اب اگر منٹو کی دنیا کی نظر سے مابعد گیارہ ستمبر کی دنیا کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ کچھ زیادہ نہیں بدلا۔منٹو نے نو آبادیاتی عہد میں آزادی کی تحریکوں کے زمانے اور سرد جنگ کے آغاز کے دنوں میں جو کچھ لکھا،اس کا ایک بڑا حصہ مابعد سرد جنگ کی دنیا کو سمجھنے کے لیے کار آمد ہے۔منٹو کی دنیا ’اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے‘ یا’ اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو ‘سے عبارت ہے ۔ مقامی تخلیقی عناصر اوراپنے وجود کی گہرائیوں میں اپنے وجود کے معنی دریافت کرنا منٹوکے اعتقاد کا حصہ تھا۔منٹو کے طنز کا نشانہ وہ سب لوگ اور طبقات تھے جو اپنے معنی وجود کے لیے دوسروں کی طرف دیکھتے تھے۔ منٹو نے ’باتیں‘ کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:’’مجھے سیاسیات سے کوئی دل چسپی نہیں۔لیڈروں اور دوا فروشوں کو میں ایک ہی زمرے میں شمار کرتا ہوں۔لیڈری اور دوا فروشی دونوں پیشے ہیں۔دوا فروش اورلیڈر، دونوں دوسروں کے نسخے استعمال کرتے ہیں۔‘‘(ص ۲۰۳)یہ بات چھ دہائیاں پہلے جتنی درست تھی،آج بھی اتنی ہی درست ہے۔مابعد گیارہ ستمبر کی دنیا کے طالبان ہوں،یا امریکی ایما پر ان کے خلاف جنگ کرنے والے دوسروں ہی کی نسخے استعمال کر رہے ہیں۔