(ذوالفقار علی)
کہنے کو تو میں زندہ ہوں مگر زنداں میں زندگی کس طرح کٹتی ہے اس تکلیف کا درد وہ کیا جانے جو اپنی دھرتی کی وسوں کے ساتھ نہ جیا ہو۔ اُسے کیا پتا زندگی قدم قدم پہ کس طرح سسک سسک کے دم توڑتی رہتی ہے اور ہم وقت کی قید میں لرزاں لرزاں گریباں کے چاک ” چُکتے” رہتے ہیں۔ غم غلط کرنے کی سعی میں اپنے ناخنوں سے روح کو نوچنا کوئی سہل کام نہیں ہے۔ چار سو ویرانی ایسی کہ دشت کو دیکھ کے گھر یاد آئے اور گھر کو دیکھ کے دشت میں لوٹ جانے کو جی کرے۔
کبھی سماجوں کے نام پہ کٹوں تو کبھی رواجوں کے نام پر مروں۔ کبھی مذہب کے ٹھیکیداروں سے ڈروں تو کبھی وطن کے رکھوالوں سے سہموں۔ جیالوں کی صفوں میں پناہ ڈھونڈوں تو متوالوں کے شیروں کے غیظ و غضب کو جھیلوں۔ کہیں اور جاوں تو ” جنوں ” کے عتاب کا نشانہ بنوں۔ داڑھی رکھوں تو قدامت پرست کے طعنے سنوں نہ رکھوں تو لبرلزم کی مُہر ثبت کرواوں۔ آئے خدا جاوں تو کہاں جاؤں!
بظاہر یوں لگے جیسے کوئی کام نہیں وقت کی فراوانی ہے مگر کسی ہم دم سے ملنے کیلئے وقت کا رونا رووں۔ چہرے پہ مُسکراہٹ مگر من میں ویرانی، دیکھنے میں تندرست مگر تن نڈھال، سوچنے میں اپنے تئیں فعال مگر عمل روبہ زوال۔ یا خدا یہ ماجرا کیا ہے؟ ” نہ میں وچ پاکاں نہ میں وچ پلیتاں “!
نیند آتی ہے پر نہیں آتی، موت آتی ہے پر نہیں آتی، بھوک لگتی ہے پر نہیں لگتی، درد ہوتا ہے پر نہیں ہوتا، عشق ہوتا ہے پر نہیں ہوتا، چوٹ لگتی ہے پر نہیں لگتی، خوف ہوتا ہے پر نہیں ہوتا، سچ بولتا ہوں پر نہیں بولتا، حسرت تعمیر ہے پر نہیں ہے، بدلتا ہوں پر نہیں بدل پاتا، اُس کی گلی میں جاتا ہوں پر نہیں جا پاتا، انسانوں کے ہجوم میں رہتا ہوں پر نہیں رہ پاتا، دوستوں سے ملتا ہوں پر نہیں مل پاتا یہ کیسا لمحہ ہے جو کبھی بھسم نہیں ہوتا!
یہ لمحہ مجھے جانبر کیوں نہیں ہونے دیتا؟ آئے دل ناداں میں کہاں سے لاؤں خاموش صبح میں وہ چڑیوں کا چہچہانا، وہ بیر کے گھنے درخت، وہ کچے گھروں کے وسیع آنگن، وہ گھر کی پتھاری پہ بیٹھ کے ماں کے ہاتھ کی پکی جوار اور باجرہ کی روٹی، وہ گندلوں کا ساگ، وہ تازہ مکھن، وہ ” مٹی ” کا گُھبکار، وہ پتھر کی چکی کی موسیقیت سے بھر پور لے، وہ مٹی کے برتن، وہ سردیوں کی راتوں میں چولہے کی آگ کے گرد بیٹھے میرے دادا، دادی، وہ ماں کے بسترے کی گرماہٹ اور دادی کی کانوں میں رس گھولتی “سمی”، وہ بچپن کے یار، وہ اپنی مٹی سے اُگے کھیل دودہ، چپہ چرالی، بھیڈیں ویائی، شیدن، گوگڑے چھپک، آگی آگ، کوٹھی کوٹھی پک پاو، وہ ڈھینڈے، وہ پتنگ، وہ مٹی کے بنے بیل، وہ بھمبیری، وہ لُک چھپ، وہ کانگا، وہ دادے کے ریڈیو سے نکالے ہوئے چندا سیل کے رول، وہ بچپن کی مٹھائیاں ٹانگری، نُکتی، پتاسے، ریوڑی، گُڑ اور پھیری والا ” قلندری”۔ آہ! ان سب کو وقت نے کس طرح مسمار کیا پتا بھی نہیں چلا۔ وہ بھی کیا دن تھے جب ہم جن تھے۔
وہ لمحہ میں کہاں سے لاؤں جب مارچ کی ٹھندی راتوں میں نیلگوں آسمان پر ٹمٹاتے ستاروں کو دیکھ دیکھ کے خوش ہوتے تھے مگر ڈر کے مارے گنتے نہیں تھے کہ کہیں منہ پر تل نہ نکل آئیں۔ وہ آسمان پر گھومتا دُب اکبر جو قُطبی تارے کو ڈھونڈتے پھرتا تھا اور ہمارا یقین تھا کہ جب یہ قطبی تارے کو ڈھونڈ لے گا تو قیامت آ جائیگی، ہم انجانوں کو کیا پتا تھا قیامت سے پہلے قیامت آ جائیگی، کدھر گئیں وہ آسمان پر اُگی چٹھیاں، وہ حضرت ابراہیم کو اللہ کی طرف بھیجے ہوئے دُنبے کا راستہ، وہ بی بی سئین کی آسمان پر جھولتی “پینگھ ” وہ موسموں کی علامتیں ” سنجھ ” رغام ” سورج کے گرد پڑے مچھلے، وہ چاند کے گرد گول دائرہ جسے ہم پڑ کہتے تھے، وہ ڈکھن (بارش برسانے والی ہوا) کا چلنا، وہ آسمان میں بادلوں سے بنی پینٹنگز جسے ہم ” تیتر کھمبیاں (تیتر کے پر) کہتے تھے، وہ بادلوں کے نام جیسے ساون کی بدلی، بھوری بدلی، تومبی، پُڑ تے پُڑ وہ بادلوں کی چال جیسےسجا پھیر، کھبا پھیر، بغدادی، عیسی گروہی، باکر وال، ڈاندے کھلاوی کہاں سے لاؤں۔ وہ بارش کا انتظار، وہ بارش میں کھیلتے بچے، وہ رود کوہی کے پانی کی خوشبو، وہ بغیر سپرے اور کھاد سے لہلہاتی فصلیں، وہ مینڈکوں کی ٹراں ٹراں، وہ ریوڑوں کی باں باں، وہ چاند و بیل، وہ متھیلی گائے، وہ اماں کی ٹرنگڑی سب کچھ تو وقت اور ترقی کے ہاتھوں لُٹ چُکا ۔
نہ مہینہ کی نانی رہی نہ بی بی سئین کا گھوڑا بچا، نہ ریخی کیکر پہ بیٹھے ٹنڈانے رہے نہ بیری کے درخت پر بیٹھی دیسی شہد کے چھتے، نہ بھوئیں ڈٹے ( truffle) نکلتے ہیں نہ ہی بھانت بھانت کی کُھمبیاں بچی ہیں۔ نہ وہ چنے کے کھیت رہے نہ وہ جوار کے میٹھے گنے، نہ وہ باجرہ کے بڑے بڑے پودے نظر آتے ہیں نہ وہ پیلے پھولوں سے مہکتے سرسوں کے کھیت۔ جال کا درخت قبرستانوں میں سمٹ گیا اور ” کریہیں ” کے درخت نے مُنگرا اور ڈیہلے دینا چھوڑ دئیے۔ میرے وطن میں بسنے والے پرندے بھی کہیں ہجرت کر گئے یا مر گئے۔ وہ گیرا، ٹُٹن، جنگلی کبوتر، ھیڑا، کالا تیتر، شکرا، چڑیوں کی جھاریں اور درکھان پکھی ، تلہر، کونج اور تلور کو کہاں سے ڈھونڈ لاوں !
پُرانی جھوکیں، میری بستی کے ” کراڑ ” وہ کنواں، وہ جانوروں کی کھیر چھیڑنے والا “مانوں گالھا “، وہ دیر رات تک جاگتی بیٹھکیں، وہ گھروں کی چھتوں میں چڑیوں کے گھونسلے، وہ ” شیخیں والے کیکر” پہ بندھے جھولے، وہ بستی کے چوراہے پر پڑے بڑے بڑے پتھر، اُن پتھروں کو اُٹھانے والے گبھرو جوان، وہ اندھا میراثی، وہ رات کے پچھلے پہر خاص انداز میں ” اللہ ھیک” کہنے والا ڈاڈا تگہ، وہ کچی مسجدیں، وہ پرانی بُرزیاں، وہ بغیر دروازوں کے لمبے لمبے “ویہڑے” وہ سیپ سیتی عورتیں سب کچھ کہاں گیا کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔
عزیز شاہد کے کچھ اشعار کے ساتھ وداع چاہتا ہوں کیونکہ مزید لکھنے کی طاقت نہیں بچی کہیں دور جا کے چیخوں گا تو شاید واپس آنے کے قابل ہو جاؤں گا۔
اساں سفریں تیں رہ گئے ہیں ساکوں کئی خبر کائینی، اتھاں گھر کون وسدا پائے اتھاں کائیں کائیں دا گھر کائینی،
اتھاں اندھی دی ماں گونگی، نہ کوئی ڈولی نہ کوئی لولی، اتھاں سکھیاں مُتوں اکھیاں اتھاں پکھیاں دے پر کائینی،
اویں ڈیکھان تاں ایں راج تیں کہیں دہ دا سایہ ہے، اویں ڈیکھاں تاں ایں گُستان اچ کوئی جھوک بر کائینی،
عجب میلہ ہے ونگیں، جلترنگیں ، روپ رنگیں دا۔۔،
دُکاناں در دُکاناں ھن کوئی بندہ بشر کائینی۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.