(قاسم یعقوب)
بہت پہلے میں نے ایک نظم لکھی تھی جو کسی انگریزی مضمون سے ماخوذ تھی۔ نظم کا مرکزی خیال’ عدم‘ میں چلے جانے کا خوف تھا۔ مضمون نگار نے اس خوف کی نفی کرتے ہوئے توجیہہ یوں پیش کی تھی کہ مجھے موت کے عدم سے خوف اس لیے نہیں آتا کیوں کہ جب میں سوچتا ہوں کہ میں عدم میں جانے کی طرح ہی عدم سے آیا ہوں تو میرے زندگی سے پہلے اور بعد کے مراحل ایک جیسے ہو جاتے ہیں۔کیوں کہ میرے وجود کے آغاز اور اختتام دونوں انتہاؤں پہ تاریکی، خاموشی اور بے انتہاجمود ہے۔میں جب اس دنیا میں نہیں تھا وہ بھی ایک عدم تھا اور جب مر جاؤں گا وہ بھی ایک عدم ہوگا۔‘‘
اصل میں یہ عدم اور وجود ایک ہی صفحے کے دو رُخ ہیں،زندگی اور موت دونوں ایک ساتھ ہی رہتی ہیں۔انجم سلیمی کی ایک نظم کی لائینیں ہیں:
ہونٹوں کی لرزش اور ٹانگوں کی کپکپاہٹ کے بغیر
کتنی گڑیا سی لگتی ہے موت ایسے میں
بچہ سا بن کر جینا کتنی بہادری کا کام ہے !
میں نے دیکھا ہے آج
برسوں کے رشتوں کو ٹوٹتے اور بکھرتے ہوئے
بڑی خاموشی کے ساتھ………
کِسی رنج ، کسی ملال اور دُکھ کے بغیر
کتنا عجیب سا لگتا ہے ایسے میں
پیچھے مُڑ کر دیکھنا……..
جب آگے دیکھنے کو بھی کچھ نہیں ہوتا
زندگی اور موت دو سوکنیں ہیں
جو اچھی سہیلیوں کی طرح رہتی ہیں
میرے آدھے آدھے جِسم میں
ہم اس حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں مگر اسے بھولے رکھتے ہیں تا کہ زندگی کا پہیہ چلتا رہے ۔ ایک تصور کے دو معنی ایک ساتھ رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ جب ایک معنی پر دوسرا معنی حاوی ہو جاتا ہے ،تب ہم کچھ نہیں کر پاتے اور دوسرے معنی کو سچا ئی ماننے لگتے ہیں۔
ثاقب میری زندگی کا ایک درخشندہ صفحہ ہے۔ میری اس کتاب میں کچھ جملے اور کچھ بامعنی لفظوں کی جمال آفرینی ثاقب سے بھی وابستہ ہے۔
ثاقب زندگی کے اس فلسفے کا قائل تھا کہ زندگی کیسے بھی دکھوں کا پیالہ کیوں نہ ہو اس زہر کا تریاق بھی اسی پیالے میں ہی موجود ہے۔ثاقب کی شخصیت دو متوازی مخالف رویوں میں گھری رہی۔ وہ بے حد مضبوط تھا ۔اس نے کبھی احساس نہ ہونے دیا کہ وہ کس قدر تیزی سے ٹوٹ رہا ہے۔
ثاقب ایک سرتاپا استاد تھا۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ اُس نے علی احمد کھرل صاحب سے ملک سے باہر جانے کی اجازت مانگی تھی وہ شاید وہاں آسودہ مستقبل کا خواب دیکھ رہا تھا وہاں بیٹھے فیاض ندیم اور میں نے کھرل صاحب کی ہاں میں ہاں ملائی کہ ثاقب کو یہیں رہ کے محنت کرنی چاہیے ۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ثاقب نے اپنا ارادہ صرف اس لیے بدل دیا تھا کہ وہ اس کالج کے طلبا کے قریب رہنا چاہتا تھا۔وہ اپنے طالب علموں میں بے حد ہر دل عزیز تھا۔ طلبا کے ساتھ نہایت سخت رویہ بھی اُسی کا ہوتا مگر وہ تشدد اور سزا کا فرق بخوبی جانتا تھا۔وہ طلبا کو سزا ضرور دیتا بلکہ اُسی طرح جس طرح اُس کے بچے عبداللہ اور حاشر تھے۔بعد میں وہ طلبا سے اس طرح گھل مل جاتا جیسے وہ ان کا ایک گہرا دوست ہے۔اور بہت مدت کے بعد اُن سے ملنے آیا ہے۔
کالج میں کچھ مخصوص دوستوں میں ، میں بھی شامل ہوں جو اُس کے بہت قریب رہے۔خاص کر جب وہ میرے محلے میں آبسا۔ یہ ۲۰۱۳ کی بات ہے جب ہم ایک اکادمی میں اکٹھے ہوئے روزانہ ملاقات ہوتی۔ وہ اسلام آباد منتقل ہونا چاہ رہا تھا۔میں نے اُسے جی الیون میں ہی منتقل ہونے کا مشورہ دیا۔ یوں وہ میری ساتھ ایک دو گلیاں چھوڑ کے ایک گھر میں شفٹ ہو گیا۔ یوں میرا اُس کے ساتھ روزانہ کا یارانہ بن گیا۔ہم اکٹھے واک کیا کرتے اور اسلام آباد کے ڈھابا ہوٹلوں سے بد مزہ چائے کا’’ لطف‘‘ لیا کرتے۔میں اُسے ایک مسیج کے ذریعے باہر بلا لیتا اور ہم ایک پرانے سے ڈھابا ہوٹل پہ اکٹھے ہو جاتے۔ سب جانتے ہیں کہ ثاقب بہت اچھا گائیک بھی تھا۔ میرے ساتھ اُس کی ملاقاتوں میں زیادہ تر موسیقی ڈسکس ہوتی۔ وہ اسّی اور نوے کی موسیقی کا دل دادہ تھا خاص کر کشور کمار اور کمار سانو کا۔ حسن اتفاق دیکھیے مجھے بھی انھی گائیکوں کے ساتھ ایک زمانے تک Live کرنے کا موقع ملا ہے۔ثاقب کو گنگنانے میں حیران حد تک عبور تھا۔ وہ موسیقی کے اسرار اُس طرح تو نہیں جانتا تھا جس طرح ہمارے کالج کے کولیگ یاسر اقبال جاتے ہیں مگر وہ سُر نویسی کو پہچان لیتا۔ ایک سُر میں بہنا شروع کرتا تو اُسے کوئی باہر نہیں نکال سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بنیادی طور پر سریلا تھا۔
ایک دفعہ ہم کسی سیاحتی مقام کی سیر کا پراگرام بنا رہے تھے، ثاقب نے مجھے کہا کہ پہلے میں اُس ریلوے سٹیشن جانا چاہتا ہوں جہاں تم اکثر جا کے بیٹھے ہوتے ہو۔ جب بھی پروگرام بنا وہ اپنے آبائی گاؤں فتح جنگ گیا ہوتا۔ ایک دن میں نے اُسے زبردستی چلنے کو کہا۔ہم کچھ ہی دیر میں اسلام آباد کے معروف ’’گولڑہ اسٹیشن‘‘ پہنچ گئے۔ وہاں بیٹھ کے ہم نے ڈھیروں گیت گائے اور ریلوے لائن کے گم ہوتے دھندلکوں میں زندگی کی بے معنویت کو تلاش کیا۔اس مناسبت سے اُس کی یاد گار تصویریں میرے کیمرے نے محفوظ کر لیں۔
ثاقب کوفلم نویس اور شاعر گلزاربہت پسند تھا۔ وہ اکثر مجھے کالج میں گلزار کے گیتوں کا حوالہ دے کے اپنی میٹھی آواز میں گنگنا تارہتا۔ایک دن اُس نے مجھے ’’آندھی‘‘ فلم کے گیت سننے کو کہا۔ یہ گلزار نے لکھے ہیں اور لتا اور کشور نے گائے ہیں۔ میں نے ثاقب کو فون کر کے اِس گیت کے بول سنائے:
’’تیرے بِنا زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں
تیرے بِنا زندگی بھی لیکن زندگی نہیں
جی میں آتا ہے تیرے دامن میں سر جھکاکے ہم
روتے رہیں، روتے رہیں
تیرے بھی آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی تو نہیں‘‘
پھر ثاقب کی آواز آئی:
’’تم جو کہہ دو تو آج کی رات چاند ڈوبے گا نہیں
رات کو روک لو
رات کی بات ہے اور زندگی باقی تو نہیں‘‘
زندگی ایک ایسے بہاؤ میں چلتی رہی جس کو روکنا خود اُس کے بس میں نہیں تھا۔ سو زندگی تو گزرتی رہی۔
ثاقب کی ہمسائیگی میں ،میں نے ثاقب کو زیادہ قریب سے دیکھا، رمضان میں میرا معمول تھا ،میں سحری تک کتابیں پڑھتا رہتا اور سحری کے سامان کے لیے قریبی مارکیٹ کا رُخ کرتا جس کے بہت قریب ثاقب کا گھر ہوتا تھا۔ میں نے ثاقب سے پہلے سے ہی کمٹمنٹ کر رکھی تھی کہ صبح آپ لوگوں کو جگا دیا کروں گا جس کے عوض میں اُس کے گھر سے چائے پیا کرتا۔ ثاقب کا رفتہ رفتہ معمول بن گیا کہ جب میں آتاتب وہ سحری کے لیے اٹھتے۔ گویا میں نے دہرا ثواب کمایا۔ البتہ ثاقب کو مجھے پورا رمضان چائے بھی پلانا پڑی۔
میرے کالج کے کولیگ جانتے ہیں کہ ثاقب بہت اچھا کرکٹر تھا مجھے اب کہیں آ کے پتا چلا کہ وہ کسی قومی کرکٹر کا قریبی کزن بھی تھا۔مگر کھیل اُس کی شخصیت کا حصہ تھا۔وہ ایک سپورٹس مین بھی تھا۔ سچ پوچھیے تو کالج میں کھیل کا کلچر اُسی کے دم سے زندہ تھا۔ ہر وقت کرکٹ کی تازہ خبریں اُس کی زبان پہ ہوتیں۔ان خبروں کے وسیع تبصروں میں فیصل شہزاد اور عثمان اُس کے بہترین رفقا ہوتے۔ میں اُس کی اس دلچسپی میں زیادہ شریک نہیں ہوتا تھا۔مگر ایک زندہ کردار کے طور پر اُس کا مشاہدہ کرتا رہتا۔
ثاقب ہماری کنٹین بحثوں میں بھی شرکت کیا کرتا۔ وہ کبھی بھی انتہا پسندانہ نکتہ نظر نہیں اپناتا تھا۔ وہ ہمیشہ لائٹ موڈ میں رہتا اور بعض اوقات اپنی آرا سے ہمیں چپ کروا دیتا۔ وہ زندگی کے کسی بھی موقف پر اتنا متشدد نہیں تھا۔دل رکھنا اُسے آتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہر کولیگ کے ساتھ اپنی ایک الگ دنیا رکھتا تھا۔
اُسے مطالعہ کی بھی عادت تھی۔ مجھ سے اکثر کتابیں مانگتا رہتا۔ ایک دن اُس کے گھر بابا اشفاق پر لمبی گفتگو ہوئی۔ اُس کے ہاتھ میں اشفاق احمد کی کتاب ’’زاویہ‘‘ تھی۔ میرے موقف سے اختلاف کے باوجود وہ مسکراتے ہوئے میری باتیں سنتا رہا اور یہی کہتا رہا ’’بھئی آپ زیادہ جانتے ہوں گے، یہ تو آپ کا سبجیکٹ ہے‘‘ وہ عاجزی میں زیر کرنا جانتا تھا۔ ویسے بھی وہ زندگی میں کسی کو شکست دے کر جیتنا پسند نہیں کرتا تھا۔
یہ اسی سال فروری کی بات ہے۔ میں نے ایک کالج ٹوؤر تیار کیا جس کے لیے کچھ دوستوں کو ساتھ چلنے کو کہا۔کچھ دوستوں نے حامی بھری مگر رات تک میں اس کوفے میں اکیلا رہ چکا تھا۔ میں نے اپنا آخری مسیج ثاقب کو کیا۔ میں نے ثاقب سے درخواست کی کہ تم میرے ساتھ چلو میں اکیلا رہ گیا ہوں۔میری درخواست اُس نے ہاں کر دی۔ اُسے اپنے آبائی گھر فتح جنگ سے آنا تھا جو اسلام آباد سے دور ہے۔ صبح وہ دیر سے آیا مگر اُس کے اہتمام پر عثمان، کلیم ، عماد اور ارشد اُس سے پہلے کالج پہنچ چکے تھے، میں بہت خوش تھا کہ ثاقب نہ صرف خود آیا بلکہ دوستوں سے رابطوں کے بعد میرے لیے کافی رونق کا بندوبست بھی کر چکا تھا۔
ہم نے بہت خوبصورت دن مری اور پتھریاٹا کے نواح میں گزرا۔ ایک دن پہلے ہی تیز برف باری ہوئی تھی جس کی وجہ سے سڑکیں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ ہم نہایت بے تکلفانہ انداز سے برف پہ کھیلتے رہے۔میں نے اُسے دیکھا وہ برف کی محبت میں کھینچا چلا جا رہا تھا۔ عثمان نے ہماری رہنمائی کی اور ہم مری کے اُس پہاڑ تک چلے آئے جہاں برف کا ایک بڑا تودہ گرا ہُوا تھا۔ برف کی بے پایاں چمک نے ہم سب کی آنکھوں کو خیرہ کر رکھا تھا۔ ثاقب برف کی اس خاصیت سے انجان تھا کہ جب یہ پگھلتی ہے تو پانی بن جاتی ہے اور پانی کی محبت تو موت ہوتی ہے۔
یہی برف پگھل کے نالوں کی صورت میں جھیلوں کا رُخ کر رہی تھی۔ جھیلوں کا پانی اتنا شفاف کیوں ہوتا ہے؟ شاید اس لیے کہ وہ برف کی اُجلاہٹ کو اپنے سینے میں محفوظ رکھتا ہے۔ اسی جمال آرائی کے دھوکے میں جھیلیں خوبصورت اور پیاروں لوگوں کو اپنی طرف بلاتی ہیں۔
کچھ دن پہلے مجھے فیاض ندیم، اکرام ، اورسکندر گوندل نے بتایا کہ ثاقب کو جس پانی کی شفافی نے اپنی بانہوں میں بھرا تھا وہاں مخصوص فاصلوں پر چندکنویں کھودے گئے تھے جہاں پانی دائروں کی شکل میں گھومتارہتا تھا۔ برف کے پگھلنے سے پانی بننے تک کا سفر کتنا مختصرہوتا ہے۔ثاقب نے بہت مختصر زندگی میں اپنی راہِ مستقیم کو بچانے کی کوشش کی مگر دائروں کی گردش نے اُس کی مستقیمی حرکیات کو روند دیا۔
یہ کیسا شکست خوردہ لمحہ ہے جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے اس دنیا میں کبھی نہیں آنا جہاں میرے اپنے موجود ہیں، جہاں میں ہوں، جہاں میرے خواب اور دل کی دنیائیں زندہ ہیں،جہاں میں نے اتنا خوبصورت وقت گزرا ہُوا ہے۔ کتنا مشکل ہے اپنی موت کو قبول کرنا۔خود کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھوں کے سامنے ختم کر دینا۔
میں نے زندگی میں بیسووں جنازے پڑھے ہیں مگر میں مرنے والے کا چہرہ نہیں دیکھتا۔ کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ مرنا والا نہیں مرا، مرا تو میرا وہ رشتہ ہے جس کی سرشاری میں ، میرے اچھے دن گزرتے تھے۔ ثاقب کی موت نے میرے اُن رشتوں کو مار دیا ہے جو اُس کی رفاقت نے بُنے تھے۔
افسوس کرنا ہے تو مجھ سے کرو، ثاقب تو آج بھی زندہ ہے۔