(توقیر ساجد کھرل)
ٹیلی ویژن کی اسکرین پر آئے روز دیکھتے ہیں کہ مختلف جماعتوں کے دو یا دو سے زیادہ نمائندہ افراد اپنی جماعت کا موقف بیان کرنے لگے ہوتے ہیں۔ اس دوران ایک دوسرے پر بوتلیں پھینکنے، کھلے الزامات اور دھمکیوں کا عمل بھی شروع ہوجاتا ہے۔ اسکرین سے یہ مناظر ہٹانے کی بجائے نیوز اینکر خاموش کروانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ اس دوران بھی الفاظ کا تبادلہ ہوجاتا ہے اور یہ سب براہ راست دکھایا جارہا ہوتا ہے۔ یہاں پر ریٹنگ بڑھنے کا تذکرہ نہیں ہورہا ہے۔ بلکہ ایک اور عمل کو دہرایا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں کسی شخص کی نفسیات پر گہرے اثرات پڑتے ہیں؛ یعنی سوچنے کی صلاحیت کو محدود کرنے کی ایک کوشش۔
دور حاضر میں ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھا ہر شخص یہ جانا چاہتا ہے کہ آج دن بھر کیا ہوا اور اس پر کیا تجزیات ہیں۔ اس بنیادپر ناظرین اپنی ایک رائے قائم کرتے ہیں۔ اس لئے ٹیلی ویژن پر ایک پلاننگ کے ساتھ ایسا کچھ دکھایا جاتا ہے۔ جس سے کسی بھی شخص کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔ اس کا انحصار ٹاک شوز ہوتے ہیں۔دن بھر ایسی خبروں کو بریکنگ نیوز بنا کر پیش کیا جاتا ہے جن میں خبریت کا کوئی عنصر نہیں ہوتا ہے۔ چھوٹی اور معمولی خبروں کو بڑی خبر بنا کر پیش کرنے کے عمل سے ناظرین کے سوچنے کا عمل کم پڑتا جاتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق %97 لوگ انٹرٹینمٹ چینل دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ باقی تین فیصد افراد نیوز چینل دیکھنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس لئے ریموٹ کا بٹن ایسے چینل پر رکتا ہے جہاں پر ایک ہی خبر کو دلچسپ طریقہ سے دکھایا جارہا ہوتا ہے۔ کیونکہ دیکھنے والا ان سب چیزوں کا عادی ہوچکا ہوتا ہے۔ لیکن وہ اس بات سے لاعلم ہوتا ہے کہ اسے مشاہدہ جیسی صلاحیت سے محروم کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کے ایک معروف صحافی جب سویڈن میں پہنچے تو حسب عادت اپنے دوست کے گھر میں ٹیلی ویژن دیکھنا چاہا اور اپنے دوست سے دریافت کیا کہ تین دن سے آپ کے ساتھ ہوں آپ لوگ ٹی وی کیوں نہیں دیکھتے۔ اس دوست نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا کہ ٹیلی ویژن معاشرہ میں موجود دو قسم کے افراد دیکھتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ لوگ جو کم علم ہوتے ہیں، اور جو کسی بھی معاملہ میں کوئی رائے نہیں رکھتے۔ دوسرے، کوئی ایسی خاتون جو بیوہ ہوتی ہیں۔ وقت گزارنے اور اپنی اداسی کو کم کرنے کے لئے دیکھتی ہیں۔
پاکستانی صحافی نے حیرت سے دریافت کیا آپ پھر شام کے وقت کو کیسے گزارتے ہیں ہمارے ہاں تو شام ہوتے ہی ٹیلی ویژن پر دن بھر کی خبروں پر تجزیات دیکھے جاتے ہیں۔سویڈن میں مقیم صحافی نے بتایا کہ آج شام کو اس سوال کا جواب ملنے والا ہے۔ کچھ لمحوں بعد وہ دونوں ایک ٹی سٹال پر موجود تھے کہ جس کی دیواروں کو مختلف آرٹ کے نمونوں سے سجایا گیا تھا۔ لوگ ان کے بارے میں اپنی آراء اور خیالات کا اظہار کررہے تھے۔ اس عمل سے ان میں نئے خیالات اور اپنی رائے قائم کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ معلومات میں بھی اضافہ ہورہاتھا۔
عظیم مفکر پولو فرائرے دنیامیں رائج تعلیمی نظام کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ایک کلاس میں طلبا کو غلامی کی جو عملی مشق کرائی جاتی ہے اس کے بعد فارغ التحصیل ہونے کے بعد یہ نوجوان معاشرے کا حصہ بننے پر حکمران طبقے کا اتنا ہی تابعدار ہوتا ہے، جتنا کمرہ جماعت میں استاد کا ہوا کرتا تھا۔ اس طرح سے ڈھلا ہوا انسان حاکمیتی ماڈل کے ذریعے تعمیر کردہ معاشرے کی عمارت کا ایک تعمیری بلاک ہوتا ہے۔ اس تعلیم کے ذریعے سے تعلیم بطور مشق اس میں یہ سوچ پیدا کرتی ہے کہ وہ سماج کے حالات کو نہیں بدل سکتا۔ اس سوچ کے پیدا ہونے کے بعد وہ انفرادیت کا شکار ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اونچی سطح پر اور نظر نہ آنے والی حاکم اقلیت کے فیصلوں کو اپنی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کو قدرت کا فیصلہ سمجھنے لگتا ہے۔ فرائرے کی یہ فلاسفی نہ صرف ایک کلاس میں موجود ایک طالب علم کے بارے میں بلکہ معاشرے میں موجود ہر فرد کو سوچنے کی صلاحیت سے محروم کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
بالکل ایسے ہی ٹیلی ویژن کے آگے گھنٹوں نیوز اینکروں کی طرف سے دھونسے جانے والا تجزیات کو قبول کرنے اور ان کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کرنے میں مشغول کیا جارہا ہوتا ہے ہیں۔ اسی لئے معاشرہ ایسی سوچ کے افراد کا مجموعہ بن جاتا ہے جو سماج کے حالات کو بدل نہیں سکتے اور حکمرانوں کوقدرت کا فیصلہ سمجھتے ہوئے قبول کرلیتے ہیں۔ جس معاشرہ میں آزادانہ سوچنے کی صلاحیت چھین لی جائے تو وہ معاشرہ کیونکر ترقی کرے گا؟