پاک ٹی ہاؤس میں مکالمہ کی نشستیں کہاں گئیں ؟
(توقیر ساجد کھرل)
آپ زندگی کے کسی موڑ پر ہوں بیورو کریٹ ،پروفیسر ہوں طالبعلم ہوں یا غم دوراں کے مارے ہوئے یا غم جاناں کے کے ستم زدہ ، پاک ٹی ہائو س آپ کے
لئے ایک محبوبہ کی سی حیثیت رکھتی ہوگی اس لئے آپ آپ ٹی ہائوس کے گزارے ہوئے شب و روز کبھی فراموش نہیں کر سکتے ہیں ۔برصغیر کی ادبی و ثقافتی روایت کا علمبردار پاک ٹی ہائوس گزشتہ 80برس سے زیادہ عرصہ پر محیط ایک قابل قدر تاریخی اہمیت کا حامل ہے پاک ٹی ہائوس نے اردو شعرو ادب کے متعدد مشاہیر کو نہ صرف اپنی آنکھوں سے پروان چڑھتے دیکھا ہے بلکہ کئی ادبی تحریکوں کے عروج و زوال کا آئینہ دا ربھی رہا ہے ۔
ینگ مین کرسچن ایسوسی ایشن کی ملکیت ،پاک ٹی ہائوس، ادب سے وابستہ افراد کے لئے تربیت کا مرکز تھا یہاں سے درجنوں ادبی شخصیات نے جنم لیا۔پاک ٹی ہائوس قیام پاکستان کے بعد سراج صاحب کو منتقل ہوا پاک ٹی ہائوس سے قبل انڈیا ٹی ہائوس تھا قیام پاکستان کے بعد اس کے مالک سراج صاحب نے اسے پاک ٹی ہائوس کا نام دیا۔ جب ادباء نے ٹی ہاوس میں بیٹھنا شروع کیا تھا تو سراج صاحب نے کم قیمت پر چائے کی دستیابی کو یقینی بنایا اس طرح سے ٹی ہائوس میں ایک ادبی ثقافتی ماحول تشکیل پایا ۔بدلتے ہوئے سماجی رویوں کے باعث پاک ٹی ہائوس کو ایک دہائی قبل بندش کا سامنا کرنا پڑا لیکن حلقہ ارباب ذوق نے اپنی بھرپور جدوجہد سے اسے ازسر نو آباد کروایا۔
سوال یہ ہے کہ پاک ٹی ہائوس کی وجودی بحالی توہو چکی آخر فکری و علمی بحالی کب ہوگی ؟
حلقہ ارباب ذوق سے منسلک شاعر حضرات کا کہنا ہے کہ پاک ٹی ہائوس کا 2013میں پوری آب و تاب کے ساتھ دوبارہ کھلنا خوش آئند ہے لیکن بدقسمتی سے پاک ٹی ہاوس کو ایک کمرشل ایکٹویٹی کے طور پر لانچ کردیا گیا ہے یہاں کتنی ہی نسلوں کی فکری تربیت اور علمی پرورش ہوئی ہے یہاں حلقہ ارباب ذوق اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے تنقیدی اجلاسوں میں کتنے ہی نامور اہل قلم کا فکر و فن پروان چڑھا ہے ۔پاک ٹی ہائو س میں تمام افکارو نظریات پر ابحاث کا رواج ختم ہوچکا ہے ایک زمانہ تھا کہ یہاں پر حلقہ ارباب ذوق کے زیر اہتمام نشستوں میں ہر قسم کے نظریات مارکس ازم ،جدیدت جیسے موضوعات پر خیالات کا تبادلہ کیا جاتا تھا ۔پاک ٹی ہائوس گورنمنٹ کالج کے قریب آباد ہے ایک زمانہ تھا جب طالبعلم یہاں کالج کے ادبی ماحول کی وجہ سے یہاں پر چائے پینے آتے تو بہت سی ادبی شخصیات بھی آتی تھی اس طرح سے ایک مکالمہ کی فضاء قائم ہوجاتی تھی لیکن بدقسمتی سے کالج کو یونیورسٹی کا ماحول تو دیا گیا ہے لیکن ادب سے تعلق میں کمی ہوئی ہے ۔
پاک ٹی ہائوس میں مکالمہ 1970سے تاحال یک طرفہ ہی رہا ہے جس میں شخصیت پرستی غالب رہی ہے یہا ںپر میزیں اور جگہیں مخصوص سمجھی جاتی تھیں اپنے اپنے مزاج اور ذوق کے اہل ادب مل بیٹھتے تھے .حلقہ کے اجلاسوں میں بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملتے آج کس کو گرانا ہے ور کس کو اٹھانا ہے فن پارے پر کم اور فنکار کی زندگی پر زیادہ بات ہوتی تھی .دھڑے ے بندی کی فضا میں یونیورسٹی اوررینٹل کالج میں بھی دیکھی چائے کے گرد مخصوص اور محدود اساتذہ بات کرتے پنجابی شعبے کے صدر نشیں استاز مکرم نجم حسین سید جب شاہ حسین کو پڑھاتے تھے تو کچھ کچھ مکالمے کی فضا بنتی تھی دراصل حلقہ ارباب زوق بھی ان صحت مند روایات کا امین نہ رہا چنانچہ اس کے بھی اسی وجہ سے تقسیم در تقسیم بھی ہوئی بہت پہلے انجمن ترقی پسند مصنفین نے بہت سارے ادیبوں اور شاعروں مثلا منٹو تک کا ادبی بائیکاٹ کر دیا تھا جو ان کے منشور پر ایمان نہیں لاتے ہی دیگر اسباب کے علاوہ ایک لحاظ سے حلقہ کا عمومی مزاج لبرل بن گیا تھا مگر 1970کے لگ بھگ مستند ہے ہمارا فرمایا ہواکی گردان مکالمے کو ذبح کر گئی .
پاک ٹی ہائوس کے از سر نو قیام کے بعد تزئین و آرائش بھی کی گئی ہے اور وہ تمام شعراء کرام اور ادبی شخصیات جو یہاں تشریف لاتی تھی ان کی تصویریں بھی آویزاں کر دی گئی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ وہ مکالمہ کدھر گیا جو یہاں پر منعقد ہوتا تھا جس سے درجنوں نوجوان تربیت پاتے اور فکری منازل طے کرتے تھے صرف چائے کے ساتھ گپ شپ کا ماحول پاک ٹی ہائوس کا ماحول نہیں ہے بلکہ ادبی اور ثقافتی ماحول اس کا حقیقی حصہ تھا جس کا فقدان دیکھنے کو ملتا ہے۔
ہر ہفتے وائی ایم سی ایک ہال میں حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس جبکہ دوسرے ہال میں حلقہ ارباب علم کے اجلاس۔ آقا بیدار بخت اور شورش کاشمیری اپنے خطیبانہ انداز میں تنقید کا آغا زکرتے تھے حلقہ ارباب کے اجلاس میں حسن اور دلفریبی تھی ۔قیوم نظر ،شیرت بخاری ،سید امجد الطاف نئی پود کی بالخصوص گورنمنٹ کالج اور دیال سنگھ کالج کے طلبہ رہنمائی فرماتے تھے ناصر قاسمی ،احمد مشتاق شہزاد احمد ادبی رجحانات پر اپنے خیالات کا اظہار فرماتے تھے۔۔پاک ٹی ہائوس میں انجمن ترقی پسند مصنفین اور حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں تنقید کا سلسلہ جاری رہتا ہے جس میں شعراء کرام کی نظموں افسانوں پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے ۔دور حاضر میں نئے شاعر حضرات فقط داد و تحسین ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ہرگز نہیں چاہتے ہیں کہ ان کی شاعری پر تنقید کی جائے شاعر ،افسانہ نگار اپنے نظریات و تخیل پر صرف واہ واہ کی صدائیں سننا چاہتے ہیں۔
ارباب ذوق کے نومنتخب جنرل سیکرٹری غلام حسین ساجد کہتے ہیں مکالمہ کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس جو لاہور میں پہلے گھروں میں ہوتے تھے بعد ازاں وائی ایم سی کے ہال میں منعقد ہوئے 1973 میںحلقہ ارباب ذوق سیاسی اور ادبی کے دو حصوں میں تقسیم ہوا توحلقہ ادبی نے پاک ٹی ہائوس میں اجلاس کا آغاز کیا ۔پاک ٹی ہائوس میں ہفتہ وارانہ انجمن ترقی پسند مصنقین اور حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس منعقد ہوتے رہتے ہیں ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ دن میں یا عمومی طور پر شام کو بیٹھنے کی صورت وہ نہیں رہی کہ ناصر کاظمی کے بقول لوگوں نے گھر میں ڈرائنگ روم بنا لیے ہیں اور شہر پھیلنے سے اور مصروفیت بڑھنے سے ہر روز کی نششت ممکن بھی نہیں رہی ۔پاک ٹی ہاس میں ماضی میں بھی یہی ماحول تھا ۔کھانا بینکوں کے کلر ک ہی کھاتے تھے،ادبا ء شام کو آتے تھے اور چائے پر گز ا ر ا کرتے تھے ۔تب فرصت کی کمی نہیں تھی ،اب بدلتی ہوئی دنیا میں اتنی ادبی ہلچل کافی ہے ۔پھر الیکٹرونک میڈیا کے رول کو مت بھولئے ،ادب کو روندنے اور صارفیت کو رواج دینے میں اس کا کردار بہت نمایاں ہے۔