(رانا اصغر علی)
تعلیم کا ایک المیہ یہ ہے کہ محکمہ نے دوردراز دیہاتی علاقوں میں پرائمری سکولوںکی عمارات تعمیر کیں، لیکن استاد نہ ہونے کی وجہ سے یہ عمارتیں تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو سکیں اور بھوت بنگلے بن گئے۔ ان علاقوں کے ایم این ایز ، ایم پی ایز، چیئرمین یونین کونسلز اور ممبران نے ان عمارات پر قبضہ کرلیا۔ پنجاب کے اندر ایسی عمارات کی تعداد2800 ہے اور یہ ساری باتیں محکمہ تعلیم کے نوٹس میں لائی گئی ہیں،لیکن ان عمارات کوابھی تک واگزار نہیں کروایا جا سکا۔ عرصہ دوسال سے ہم مطالبہ کررہے ہیں کہ ان عمارتوں کوواگزار کروا کرتعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔
آئین کے آرٹیکل نمبر251 پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے
۱۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور دستور کے یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اس کو سرکاری اور دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کئے جائیں گے۔
۲۔ شق نمبر 1 کے تابع، انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جا سکے گی جب تک اس کے اردو میں تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہوجائیں۔
۳۔ قومی زبان کومتاثرکیے بغیرکوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم ،ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کرسکے گی۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے 21 مارچ1948ء کو ڈھاکہ میں جلسہء عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
میں واضح الفاظ سے بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہوگی۔ جو شخص اس سلسلے میں آپ کوغلط راہ پرڈالتا ہے ،وہ پاکستان کا پکا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ قومی زبان کے بغیرکوئی قوم نہ تو پوری طرح متحد رہ سکتی ہے اور نہ ہی کوئی کام کرسکتی ہے۔
آئین کے اس تقاضے کوپورا کرنے کے لیے مقتدرہ قومی زبان ،اردو سائنس بورڈ، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، اکیڈمی ادبیات پاکستان اور ترقی اردو بورڈ کراچی نے کئی سالوں تک بھرپور محنت کرکے انگریزی کی ہر قسم کی اصطلاحات کواردو کے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ آئین کو نافذ ہوئے 38 سال ہوچکے ہیں، قوم حق بجانب ہے کہ 73 کے آئین کی منظوری وبحالی کا کریڈٹ لینے والے حکمرانوں سے مطالبہ کرے کہ اس شق کے نفاذ کے لیے فوری اقدام کریں۔ اس سلسلے میں ہم حسب ذیل تجاویز پیش کرتے ہیں:
۱۔۱۔ انگریزی جو خود یورپ میں لازمی نہیں ہے، اس کونرسری اور پرائمری سے بچوں پر مسلط کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔
۲۔ ۲۔سرکاری زبان کی حیثیت سے تمام اداروں ،جن میں عدلیہ، مقننہ و منتظمہ شامل ہیں،کارروائی ،ریکارڈ، خط کتابت اور بول چال میں اردو کو اپنایا جائے۔
۔۳ تعلیمی امتحانات، ٹیسٹوں، سول سروسز کے امتحانات اور انٹرویوز میں اردو زبان کورائج کیا جائے۔
۔۴۔ دسویں جماعت کے بعد طالب علموں کو انگریزی سمیت بین الاقوامی زبانوں میں سے حسب منشا کسی ایک کوپڑھنے کا موقع دیا جائے۔
۔۵۔ بی اے میں مختف زبانوں کو ذریعہ تعلیم کے طورپراختیار کرنے کی اجازت دی جائے۔
نظم و نسق کو بھی ہم اپنی مر ضی سے نہیں چلا پا رہے ہیں۔کبھی تو ہم تعلیمی ادارو ں کو اپنی ملکیت میں لینے کی ،تو کبھی تعلیم گا ہو ںکو نجی ملکیت میں دینے کی پا لیسی اپنا تے ہیں۔کبھی ہم تعلیم گا ہو ںکو ضلعی حکو متوں کی تحویل میںدے دیتے ہیںتو کبھی ضلعی تحویل میں سے کالجوںکو نکال کر صو بائی حکو مت کی تحویل اور سکو ل کو ضلعی تحویل میںرہنے دیتے ہیں۔کبھی ہم انٹر کلا سز کو صر ف ہا ئر سیکینڈری سکولز میں پڑھانے اور کبھی انٹر کالجز میںپڑ ھا نے پر قو م کو لگا دیتے ہیں ۔ہما رے تما م فیصلے عجلت ، غیر ملکی آقا ئوںکے اشا روںاور چند ناتجربہ کار این جی اوز کے اکابرین کے ایما پرہوتے ہیںاور تعلیم گاہوں میں فاضل تجربہ کارماہرین تعلیم سے قطعاً کوئی مشاورت نہیںہوتی۔لہذا ہر چہ آمد عمارت نوساخت کے مطابق روز کی ادھیڑ بن جاری ہے،جس میں قوم کا نقصان ہے۔بھلا ان بزرجمہروںسے پوچھا جائے کہ جن وجو ہ او ر نقصانات کی وجہ سے اب کالجز کو دوبارہ صوبائی تحویل میںلیا گیا ہے۔جب کالجز ضلعی حکومت کو دیئے گئے تھے اس وقت کیا یہ وجوہ اکابرین تعلیم کو نہ بتائی گئیں تھیں؟اور وہی وجوہ جن کی بناء پر کالجزکو صوبائی تحویل میں دوبارہ لیا گیا ہے،کیا سکولز کی سطح پر اب وہ موجود نہیں؟مثلاً کالجزکو صوبائی تحویل میں دوبارہ اس لیے لیا گیا کہـــ:ضلعی ناظم کالج اساتذہ کی تبدیلی اپنی مرضی سے کر رہے تھے۔الیکشن میں تعلیم گاہوں سے اپنی مرضی کے پریذائیڈنگ آفیسرو پولنگ ایجنٹس لیے جا رہے تھے۔تعلیمی اداروں کے فنڈز میں ردوبدل کیا جا رہا تھا۔:اور یہ اسباب سکولوں میں بھی یقینا موجود ہی نہیں بلکہ بدرجہ اتم موجود ہیں توپھر تعلیم میں یہ دو عملی کیوں؟سکولز کو ضلعی نظم میں دینے سے اساتذہ کی سینیارٹی ان کی ترقی ،ان کی پنشن ،گریجویٹی حتیٰ کہ ان کی تنخواہوں کے متعلق وہ مسائل پیدا ہوںگے کہ الامان والحفیظ۔اب یہ فیصلہ کہ انٹر کالجز نہیں کھلیں گے بلکہ ڈگری کالجز کھلیں گے ،بھی محل نظر ہے اور اس کے نقصانات سے بھی اکابرین تعلیم آگاہ نہ ہیں۔اور یہ پالیسی بھی ان شاء اللہ آنے والے سالوں میں بدل جائے گی۔لیکن صبح کا بھولا ہواشام کی بجائے اب ہی کیوں واپس نہیں لوٹتا؟کیا آئے دن کے تجربات کرنا ضروری ہیں؟
معیار تعلیم کی اصلاح وبہتری کا سار ادارومدار معماران تعلیم کی پیشہ ورانہ اور فکری واخلاقی تربیت پرہے۔ اس سے متعلق حسب ذیل اقدام تجویز کیے جاتے ہیں:
۔1. تمام تربیتی اداروں کے نظام کار کوبہتر کیا جائے اور ان میں نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ، تجربہ کار اور اپنے اپنے مضامین وفن کے ماہر ٹرینر تعینات کیے جائیں۔ غیرملکی ٹرینرز پر انحصار ختم کیا جائے۔
۔ 2 تنخواہوں ، ترقیوں اور دیگر مراعات کے تعین میں ان تربیتی کورسز کومعیار بنایا جائے۔
۔ 3.ہر صوبے میں ٹیچر ٹریننگ اکیڈمیقائم کی جائے جو جدید تقاضوں کے مطابق تربیت کی منصوبہ بندی کرے، کورسز ڈیزائین کرے اور تربیت دینے والوں کی تربیت کرے۔
۔ 4 استحکام وتحفظ پاکستان کے لیے نظریہ پاکستان کو نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے۔
۔ 5تمام اساتذہ کوتحصیل اور ضلع کی سطح پر ریفریشرکورسز کی سہولت مہیا کی جائے۔
۶۔ 6 میڈیا اور ابلاغ کے جدید آلات کواساتذہ کی تربیت کے لیے استعمال کیا جائے۔
۔7 آئندہ اساتذہ کو بھرتی کرنے کے بعد تربیتی مراحل سے گزارنے کے بعد اداروں میں تعینات کیا جائے۔
۔ 8 اساتذہ کو تازہ ترین تحقیقات ومعلومات سے آگاہ رکھنے کے لیے رسائل وجرائد کا اجراء کیا جائے۔
نظام امتحانات کی درستی کے لیے درج ذیل اقدام کیے جائیں:
۔ 1. نظام امتحانات کو سخت اور شفاف بنا کرہر طرح کے سرکاری وغیرسرکاری نجی داخلہ ٹیسٹ ختم کروائے جائیں۔ نقل اور امتحانات میں روا رکھے جانے والے دیگر ناجائز ذرائع کا قلع قمع کیا جائے۔
۔ .2 طلبہ وطالبات کے لیے امتحانی بورڈز میں داخلہ بھجوانے کا طریق کا سہل بنایا جائے۔
۔8. تعلیم میں میرٹ کا نفاذ
ثانوی تعلیم ہر بچے اور بچی کے لیے لازمی قرار دینے کے بعد اگلے مرحلے میں تمام داخلے خالص میرٹ پرکیے جائیں۔
صوبوں کی سطح پرٹیچرز ریکروٹمنٹ کمیشن بنا کر، جوہرطرح کے سیاسی دبائو سے آزاد ہو، تمام اساتذہ کی بھرتیاں شفاف میرٹ کے ذریعے سے کی جائیں۔
۔ 1.تعلیمی اداروں کی نجکاری کا فیصلہ واپس لے کر کالج کونسلز کے ذریعے انتظامیہ کی کارکردگی کی بہتر بنایا جائے۔
۔2. لائبریریوں اور لیبارٹریوں کو عالمی معیار کے مطابق جدید بنایا جائے۔
۔3. کالجز میں اساتذہ کی کمی کو فی الفور پورا کیا جائے۔
۔ 4.معیار تعلیم کی بہتری کے لیے سہ ماہی ٹیسٹوں کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
۔5.طلبہ وطالبات کی کارگردگی سے والدین ،سرپرستوں کو آگاہ رکھا جائے۔
۔6. پرنسپل اور اساتذہ کی کارکردگی کوجانچنے کے معیارات مقرر کیے جائیں اور بہتر اساتذہ کوترغیبات اور ایوارڈ دیے جائیں۔
۔7. کالجوں میں عدل وانصاف پر مبنی بہترین مشاورتی ماحول پیدا کیا جائے۔
۔ 8.کالجز کے اوقات کار کے دوران ہی طلبہ وطالبات کومکمل اور بہترین تعلیم دی جائے اور ٹیوشن کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
۔9اساتذہ کی تنخواہوں ،ترقیوں اور مراعات کی ایسی سطح رکھی جائے کہ اساتذہ ٹیوشن پڑھانے سے بے نیاز ہوجائیں۔
۔10 کالج اساتذہ کواعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے سکالرشپ دینے کا مربوط نظام وضع کیا جائے۔
۔1 خواتین کے لیے بھی میٹرک تک تعلیم لازمی قرار دی جائے۔
۔ 2 تعلیم اداروں میں اختلاط کا سلسلہ ختم کیا جائے، بالخصوص ٹیچرزٹریننگ کے لیے خواتین اساتذہ کے الگ الگ ادارے بنائے جائیں۔
۔3 خواتین اساتذہ کوتعلیم اور تربیت کے مطابق بہتر گریڈ دیا جائے۔
۔4 خواتین اساتذہ کوگھروں کے قریب ترین اداروں میں تعینات کیا جائے۔
۔ 5 طالبات وخواتین کو ان کی سماجی اور گھریلو ذمہ داریوں کے لحاظ سے خصوصی مضامین اور تربیتی کورسز کرائے جائیں۔
۔ 6 طالبات کوپیشہ ورانہ فنی تعلیم اور دستکاری کی خصوصی مہارت دلائی جائے تاکہ وہ اپنی اور قومی معاشی ترقی میں کردار ادا کرسکیں۔
۔1 پاکستان میں پرائمری تعلیم لازمی قرار دی جا چکی ہے، اس پر عمل درامد کیا جائے۔پرائمری تعلیم کی فراہمی کے لیے شہروں ،قصبوں اور دیہاتوں میں پرائمری سکولوں کا جال بچھایا جائے۔
۔ 2 مردانہ اور زنانہ تعلیمی اداروں کے ادغام کا سلسلہ بند کیا جائے، اور مردانہ تعلیمی اداروں میں خواتین اساتذہ کی تقرریاں بند کی جائیں۔
۔3 تمام نصابی کتب مفت مہیا کی جائیں اور معاون تدریسی مواد کے لیے لائبریریاں قائم کی جائیں۔
۔ 4 پرائمری تعلیم حصول علم کی بنیادہے، لہٰذا اس میں اعلیٰ تعلیم وتربیت یافتہ اساتذہ مقرر کیے جائیں اور انھیں قابلیت و اہلیت کے مطابق گریڈ دیا جائے۔
۔5 100% شرح خواندگی کے حصول کے لیے مسجد مکتب سکولوں کا سلسلہ دوبارہ بحال کیا جائے۔
صنعت روح انسانی کے عمارت گر جو سیرت نوع بشر کی تبدیلی کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔وہ اپنی جگہ پر پریشان ہیں۔وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں،صوبائی پبلک سروس کمشن سے تحریری امتحان اور انٹر ویو دے کر تعلیم و تعلم کے لیے اہل قرار پائے ہیں۔مگر انہیں مستقل ملازمت کی بجائے کی بجائے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا جا رہا ہے۔اسی لیے تعلیم و تعلم میں ان کی دلچسپی ہی نہیں رہی ہے۔ہر سال محکمہ تعلیم سینکڑوں نوجوان بھرتی کرتا ہے،جبکہ تعلیم گاہوں میں لاکھوںافرادکی ضرورت ہوتی ہے۔اور یہ سینکڑوں نوجوان بھی سرائے کے مہمان کی طرح چند دن محکمہ میں گزارنے کے بعد اعلیٰ مشاہرے پرغیر سرکاری انجمنوں یا پرائیویٹ کمپنیوں میں جا کرپناہ لے لیتے ہیں۔سکولوں میں انگلش ٹیچر کایہ عالم ہے کہ وہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپنی مستقلی کا فیصلہ لے چکے ہیں مگر محکمہ ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے۔اسی طرح ایڈہاک لیکچررز سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپنے حق میں مستقلی کا فیصلہ لے چکے ہیں مگرمحکمہ تعلیم نے اس فیصلے کوبھی عملی جامہ نہیں پہنایا ہے ۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ روح انسانی کی صنعت گری ،روح پریشان سے کیسے ممکن ہے۔ ارباب حل وعقدنے استاد کو بھی درانتی اور کھرپا بنانے والا کاریگر سمجھ لیا ہے کہ وہ ایک لگی بندھی ڈگر کے ساتھ درانتیاں بناتا چلا جائے۔ حالانکہ تعلیم وتعلم تو اطمینان قلب اور روح کے سکون کے
بغیر ممکن نہیں جو کہ اساتذہ کو میسر نہیں۔
(۱) ایک ایسا خودمختار اور اعلیٰ اختیاراتی تعلیمی کمیشن بنا دیا جائے جس میں ہر سطح کے تعلیمی ماہرین شامل ہوں جو مخلص و دیانت دار ہوں اور بیرونی و اندرونی دبائو سے بالاتر ہوکرکام کرنے کے قابل ہوں۔ یہ تمام تعلیمی پالیسیوں کو قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے ذمہ دارہوں۔ اپنی زیرنگرانی ہر سطح کی الگ الگ ماہرین پر مشتمل کمیٹیوں کی سفارشات کی روشنی میں وقتاً فوقتاً اصلاحات نافذ کریں اور پیش آمدہ مسائل ومشکلات کوحل کریں۔
(۲) قومی تعلیمی پالیسی کی نظریاتی بنیادوں پرتشکیل
پاکستان میں قومی تعلیمی پالیسی کو پاکستان کی نظریاتی اساس سے ہم آہنگ کیا جائے۔
(۳) یکساں نظام تعلیم ومفت سہولیات
آئین پاکستان کا آرٹیکل نمبر37 پابند کرتا ہے کہ ریاست:
(ا)۔پس ماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی و معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی۔
(ب)۔ کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی گی او ر مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کرے گی۔
(ج)۔ فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کوعام طورپرممکن الحصول اور اعلیٰ تعلیم کو لیاقت کی بنیادپرسب کے لیے مساوی طورپر قابل دسترس بنائے گی۔
ان نکات کو روبہ عمل لانے کے لیے ہم حسب ذیل اقدامات تجویز کرتے ہیں:
۱۔1 طبقاتی نظام ختم کیا جائے
۔2 تعلیم کو کمرشلائز اور پرائیویٹائز کرنے کا سلسلہ بند کرکے حکومت اسے اپنی ذمہ داری اور ترجیح اول قرار دے۔
۔3 تمام سرکاری اداروں کا معیار تعلیم ،طریق تدریس ، سہولیات اور انتظام وانصرام بہتر کیا جائے۔
۔ 4 سالانہ بجٹ میں قومی آمدنی کا 7% تعلیم کے لیے مختص کیا جائے اور ہرسال اس میں اضافہ بھی کیا جائے۔
۔5 پورے ملک کے لیے یکساں نصاب، یکساں ذریعہ تعلیم اور یکساں نظام امتحانات اپنایا جائے۔
یہ ہے تعلیم کا منظر نامہ ، اس آئینے میں تعلیم ،نصاب تعلیم، امتحانات، استادوشاگرد کی حالت دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ تعلیم گاہیں جوتعمیرملت کے سانچے ہیں وہاں جوخام مال اس وقت تیار ہورہا ہے،اس سے مستقبل اورخوش کن مستقبل کی امیدیں کیسے اور کیونکر وابستہ کی جا سکتی ہیں؟ اگر معاملات یہی رہے تو نتیجہ کیا ہوگا یہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہ ہے۔
قسمت لالہ وگل اب بھی سنور سکتی ہے نیت اچھی ہوجو گلشن کے نگہبانوں کی