مصنف : زاہد چوہدری
تکمیل وترتیب : حسن جعفری زیدی
زیر اہتمام : ادارۂ مطالعہ تاریخ
(مبصر: خرم قادر)
زیرِ نظر کتاب کے حق میں میرے دو تعصبات ہیں: اول یہ کہ کتاب اُردو میں ہے اور میں بھی اُردو ہی میں کتاب لکھنے کا حامی ہوں ۔ دوم یہ کہ مصنفوں نے حقائق کو جاننے کے عمل کو اولیت دی اور انہی کی روشنی میں اپنی آراء کو مرتب کیا ۔
چونکہ میرے مطالعہ اور تحقیق کا میدان تحریکِ پاکستان اور تاریخِ پاکستان نہیں رہا اس لیے میں اس کتاب میں درج معلومات کے بجائے اس کی تاریخ نگاری اور اس کے نظریات پر تبصرہ کروں گا ۔ میری گفتگو تین موضوعات پر مشتمل ہوگی :
اول یہ کہ اُردو میں کتاب ، بالخصوص ایسی کتاب لکھنے والوں کے کیا مسائل ہوتے ہیں خاص طور پر ایسی کتابیں جن کے موضوعات شاعری ، مقامی ادب اور اس کی تنقید نہ ہوں۔ دوم کہ اس کتاب کے مصنفین نے اپنے لیے کیا معیار مقرر کیے ۔ اور
سوم یہ کہ موجودہ کتاب اور پاکستانی معاشرے کے درمیان جو مکالمہ ہونے والا ہے اس میں کتاب اور پاکستانی معاشرے کے فریقین میں ممکنہ تعلق کیا ہوگا۔
اُردو میں لکھی گئی اچھی کتابیں اتنی کم بھی نہیں ہیں جتنی ہم بالعموم شکایت کرتے ہیں۔ تاہم ، ان ’اچھی‘ کتابوں کا بڑا حصہ اُردو ادب ، شاعری ، تراجم اور تنقید وغیرہ سے متعلق ہے۔ ایک اور اہم ذخیرہ مقامی یا علاقائی قبائلی اور برادریوں یا شہروں اور قصبوں کے معاشروں اور تاریخ سے متعلق ہے جن میں مخصوص گروہوں اور طبقوں کی دلچسپی کے موضوعات کو بیان کیا گیا ہے۔ ایسی تصانیف کو ’سنجیدہ‘ سماجی مفکر نہ صرف غیر اہم سمجھتے ہیں بلکہ ان کے غیر معیاری ہونے کی بھی شکایت کرتے ہیں۔ معاشرہ کے علوم سے متعلق اُردو میں لکھی گئی کتابوں کی ایک اور قسم ہے جو ان ’سنجیدہ ‘ سماجی عالموں کی نظر میں قابل استعداد ہیں۔ یہ وہ کتابیں ہیں جو نصابی موضوعات کے مطابق درسی خلاصہ کے انداز سے ، سوالاً ، جواباً یا نصابی ترتیب سے لکھی جاتی ہیں۔ انھیں بازاری کہہ کر رد کردیا جاتا ہے اور میرے جیسے اساتذہ اپنے ہونہار شاگردوں کو تلقین کرتے ہیں کہ ان کے قریب نہ جائیں۔ ان کے بعد ایک چھوٹی سی تعداد رہ جاتی ہے جسے معیاری تحقیقی قرار دیا جاتا ہے : عموماً ایسی کتابوں کو قاری نہیں ملتا کیونکہ اکثر ’ معیاری قاری ‘ انگریزی میں کتابیں پڑھنے کے روادار ہوتے ہیں۔ چونکہ انگریزی میں علم کی معیاری اور معقول خوراک بہ آسانی دستیاب بھی ہوجاتی ہے اور اس کو پڑھنے کے بعد محفل میں اس کا ذکر بغیر معذرت ، بلکہ فخریہ کیا جاسکتا ، چنانچہ کوئی ایسا شخص اُردو میں کتاب نہیں پڑھتا جس کے لیے انگریزی کی مدد سے لوگوں کو مرعوب کرنا ممکن ہو۔
انگریزی کا اکتسابی ذوق زیادہ لذت بھرا، زیادہ صحت بخش اور قابلِ نمائش ہوتا ہے ، اس لیے صرف چند ایسے قاری بچتے ہیں جو دید علوم کا انداز پسند کرنے کے باوجود، انگریزی پڑھنے میں دقت کی وجہ سے ، اُردو کی کتب خریدتے اور پڑھتے ہیں۔ البتہ ، ایک آدھ ایسا سر پھرا ان کے ساتھ ہولیتا ہے جسے اُردو سے رومان کی حد تک لگاؤ ہو ۔ سائنس کے مضامین میں حال اس سے بھی ابتر ہے ، نئی تحقیق کو اُردو میں پیش کرنے کا مطلب ہے کہ آپ نے اسے قدیم عرب کی بیٹیوں کی طرح پیدا ہوتے ہی دفن کردیا ہے۔ سائنس کی کتب صرف نصابی ضرورت کے تحت اور وہ بھی بہ امرِ مجبوری، کمزور طالبعلم کو استعمال کی اجازت ہے ، تاہم ابتدائی تعلیم میں اس کا استعمال کسی حد تک قابلِ معافی سمجھا گیا ہے۔ سائنس کے علوم میں تو کسی اہلِ دل سے بھی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنی تحقیق کو اُردو میں درج کر کے اس کا گلا گھونٹ دے لیکن تاریخ کے علم میں جعفر حسن زیدی صاحب جیسے چند مہربان ہیں جو ’ نیکی کر دریا میں ڈال‘ کے اصول پر ’تحقیق کر اُردو میں لکھ‘ کا طریق اختیار کرلیتے ہیں۔
اکثر اُردو کی ’اچھی ‘ کتابیں ایسے سوالات کا جواب دے رہی ہوتی ہیں جنھیں پوچھنے والے انگریزی کی کتابیں پڑھتے ہیں اور بالعموم اُردو کے قاری، جو کثیر تعداد میں موجود ہیں، ایسے سوال پوچھتے ہیں جن کے جواب اب اچھی کتابوں میں نہیں ہوتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ زیدی صاحب کی کتاب کسی حد تک پاکستانی قارئین کی ضرورت کو پورا کرتی ہے اسی لیے بیس سال کے قلیل عرصہ میں انھیں اس کی دوبارہ اشاعت کا اہتمام کرنا پڑ گیا۔ تقریباً اسی زمانے میں جب یہ کتاب پہلی مرتبہ چھپ رہی تھی استادِ محترم ڈاکٹر مشتاق گوراہیہ کے ساتھ ایک گفتگو میں انھیں نے مجھ سے پوچھ لیا کہ آپ اپنے طالبعلموں کو تاریخ نگاری کے کورس کے لیے کون سا متن پڑھنے کا کہتے ہیں۔ میں نے انھیں قدرِ بدتمیزی سے سمجھایا کہ ایم اے میں مجوزہ متن نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ دیر اور باتیں کرنے کے بعد انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ ان متعدد انگریزی کی’اچھی‘ کتابوں میں سے ، جو آپ نے اپنے کورس کے لیے طالبعلموں کو تجویز کی ہیں ، شاگردوں میں کون سی زیادہ مقبول ہے۔ میں نے شکایت کی کہ وہ تو کسی ماضی کے طالبعلم کے نوٹس کو فوٹو کاپی کر کے پڑھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے دھبے انداز میں پوچھا ’’ تو پھر آپ نے تعلیم دینے کے لیے کیا طریقہ سوچا ہے۔‘‘ میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی اورایک ہفتہ بعد میں نے تاریخ نگاری پر اپنی کتاب لکھنی شروع کردی ۔
میں گزشتہ بیس سال سے تحریکِ پاکستان کے محققوں سے درخواست کر رہا ہوں کہ مقامی آدمی یعنی ، ٹنڈوآدم ، کاہنا کاچھا ، نوشکی اور بنوں کے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے علاقوں کے مشاہیر اور باشندوں کا تحریکِ پاکستان میں کیا حصہ تھا۔ ان کے اس تجسس کی تسکین کے لیے تحریکِ پاکستان میں ان علاقوں کی کیفیت اور حصہ کے بارے میں تحقیقات کر کے کوئی بیان مرتب کرنا چاہیے لیکن وہ دہلی ، بنگال اورلاہور سے باہر نہیں نکلتے۔ میں خود اس اعتبار سے مجرم ہوں لیکن میں استدلال کرتا ہوں کہ آئندہ اُردو کے سنجیدہ محققین بھی تاریخ وتحریکِ پاکستان کے ان موضوعات کی طرف توجہ کریں جن کے بارے میں پاکستان کا عام آدمی جاننا چاہتا ہے۔ میرا روئے سخن ان تمام ممکنہ مصنفین کی طرف ہے جو معاشرے کے علوم ، بالخصوص علمِ آثار قدیم پر اُردو میں کتابیں لکھ سکتے ہیں۔
یہ جاننے کے لیے کہ زیرِ نظر کتاب کے مصنفین اپنے مقاصد میں کس حد تک کامیاب ہوئے ، میں آپ کی خدمت میں ان کی دونوں ایڈیشنوں کے دیباچوں کا جائزہ پیش کرتا ہوں تاکہ کتاب کا وہ حصہ جسے کم قاری پڑھتے ہیں آپ کے سامنے آئے اور متن کو پڑھنے کا لطف آپ خود حاصل کریں۔ کتاب کا پہلا ایڈیشن ضیاء الحق کے دورکے فوراً بعد چھپا جبکہ دوسرامشرف کے چند سال بعد آرہا ہے۔ اس کے درمیان کے بائیس سال کے دوران پاکستان کے مختلف اصحابِ رائے کے دھڑوں میں ایک دوسرے کے معاملے میں تحمل میں کمی اور رویوں میں سختی پیدا ہوگئی ہے۔ اس کیفیت کا اندازہ دونوں دیباچوں کے پڑھنے سے بھی لگایا جاسکتا ہے حالانکہ یہ دونوں زیدی صاحب ہی کے قلم نے مرتب کیے ہیں۔ (ص ۱۰۔۹ اور ص ۱۵۔۱۱) ۔
یوں تو ہر ریاست درحقیقت نظریاتی ریاست ہی ہوتی ہے ، کہیں وہ نظر یہ مذہبی ہوتا ہے اور کہیں سیاسی یا سماجی ۔امریکہ اور برطانیہ کو اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اپنی جغرافیائی سرحدوں کے باہر کرنے کی ضرورت دو صدیوں سے محسوس ہورہی ہے۔ سرد جنگ میں Communism اور Capitalism کے درمیان جدال انہی مسائل کی وجہ سے بروئے کار آئے۔ ان نظریوں کی بنیاد پر بننے والی ریاستوں نے Ethno-national رنگ اختیار کیا چنانچہ وہ لسانی ، ثقافتی اور نسلی بنیادوں کے ساتھ معاشی نظریات کو مل کر اپنی اپنی ریاست کا جواز قائم کرتی ہیں۔ تقسیم ہند کے وقت سامراجی طاقت نے ، جو خود کو Ethno-National بنیاد پر ہی شناخت کرواتی تھی، مذہب کی بنیاد پر دو قوموں کی تقسیم کو عملی ہےئت میں ڈھالا۔ اسی طرح جب ہم ہنٹ نگٹن کے تمدنوں کے ٹکراؤ کا ذکر کرتے ہیں تو ایک جانب غیر مذہبی شناخت کے ساتھ عیسائی تہذیب کے قالب میں ڈھالے ہوئے Secular وجود کو مغربی تمدن اور دوسری جانب مسلمان کی شناخت کے ساتھ تیل اور تجارت کے لیے اہم علاقہ کا مقابلہ سامنے آتاہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ Secularism کے مغربی علم برداروں کو اسرائیل کا مذہبی وجود نظر ہی نہیں آتا لیکن مسلمان ممالک میں اسلام کی جگہ ان کے Secular نظریات کی بنیاد پر بننے والے اداروں کے قیام کا مطالبہ ہے۔ اس کے پس پردہ یہ بات ہے کہ Secularism سے متعلق تمام معمولات یورپ کے عیسائی معاشرے کے درمیان رواداری پیدا کرنے کے لیے مرتب کیے گئے ، چنانچہ ان کی ہےئت مغربی تہذیب سے ماخوذ ہے جس میں رواداری کے معیار مسلمانوں کی تہذیب وتمدن سے بہت مختلف ہیں۔
جب کمیونزم اور سرمایہ داری کے درمیان سرد جنگ جاری تھی تو تیسری دنیا کے کچھ ممالک نے اس سے بچنے کے لیے غیر جانبدار تحریک شروع کی۔ بھٹو کے دور کے طلباء نعرے لگاتے تھے کہ ایشیا سرخ ہے ،ان کے مقابلے پر ایشیا کے سبز ہونے کے نعرے لگنے شروع ہوئے۔ میری ہمدردیاں اس جماعت کے ساتھ تھیں جو کہتا تھا کہ ایشیاء نہ سرخ ہے، نہ سبز ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آج اس جماعت کی قیادت کا خاتمہ ہوگیا ہے اور دنیا کے قائدین میں بھی غیر جانبداری کے لیے قافیہ تنگ ہوگیا ہے لیکن پاکستان کے عوام شاید کسی غیر جانبدارانہ قیادت کی تلاش کر رہے ہیں۔ ان کو ایسی قیادت چاہیے جو یہ ’’ پوچھے کہ مدعا کیا ہے ‘‘ نہ کہ ایسی قیادت جو غالب کے دوستوں کی طرح ناصح بن کر سبق سکھائیں اور اپنا شعار ترک کرنے کی تلقین کریں۔ ہمیں ضرور انسانیت کی مجموعی یادداشت اور عالمی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے اور دوسروں کے تجربہ سے استفادہ کرنا چاہیے لیکن یہ اسی حد تک مناسب ہے جس حد تک یہ ہماری تہذیبی بنیادوں سے متصادم نہ ہو۔
شاید پاکستان کے عوام اب ہمیں بتانے کے لیے تیار ہیں کہ انھیں صوفیانہ تحمل کس معاملے میں مناسب نظر آتاہے اور کس معاملے میں وہ بنیاد پرستون کے حامی ہیں۔ کہاں انھیں جدت اور ترقی پسند رویے قابل قبول ہیں اور کن معاملات میں اپنی قدیمی روایات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ کب کب وہ اپنی تہذیبی اساس کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کریں گے اور کیسے کیسے وہ اس میں ترمیم کرنے کی صلاحیت اور رجحان رکھتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں ان کا وژن مسلم لیگ کی اس قیادت سے ہم آہنگ ہے جس نے پاکستان بنایا اور دورِ حاضر کے جدید تقاضوں اور زمینی حقائق نے اب ان کے اجتماعی اور ریاستی وژن کو کس شکل میں ڈھالا ہے جس کے تحت یہ ایک قوم بن سکتے ہیں۔
زیدی صاحب کی بہت سی باتوں سے اتفاق کے باوجود ان کی ایک بات سے میرا شدید اختلاف ہے۔ ان کے بقول تاریخ ایک سائنس ہے اور اس کا مطالعہ معروضیت پر مبنی ہونا چاہیے۔ نہ ہی میں تاریخ کوسائنس تسلیم کرتا ہوں نہ ہی اس کے مطالعہ کے معروضی ہونے کے امکان کا قائل ہوں۔ انسانی معاملات انسانی جذبات سے عاری نہیں ہوسکتے اور تاریخ کا مشاہدہ کرنے والا ہر فرد، حتیٰ کہ کیمرے کی آنکھ بھی ، ایک نکتہ نظر پیش کرتی ہے۔ ہرانسان اپنی ذات کے موضوعی پہلوؤں کی قید میں ، اپنے دور، پیشے اور رتبے کے اثر کو ختم نہیں کرسکتا۔ ہاں اس موضوعیت کا ایک درجہ ایسا ہے کہ جس سے حقیقت کا چہرہ مسخ ہوجاتا ہے ، اس سے گریز لازمی ہے۔ اس کا بہتر امکان [میری رائے میں ]تب ہوتا ہے جب انسان اپنے تعصبات کو تسلیم کرے اور ان کے ممکنہ موضوعی اطلاق پر کڑی نظر رکھے تاکہ حقیقت کا معقول عکس اس کی تحقیق اور اس کے بیان میں نظر آئے ۔ چونکہ زیدی صاحب نے حقائق کے بیان کو بنیادی اہمیت دی ہے اس لیے اس میں کسی بڑی غلط فہمی کے امکانات کم ہیں۔
اپنے پہلے دیباچے میں ان کے خیالات بھی میری رائے کے قریب ہی نظر آتی ہیں۔ ان کی اور میری رائے کے درمیان فرق صرف اس غصہ کا رہ جاتا ہے جو ان کے نئے دیباچے کی روح سے ’نام نہاد ترقی پسندوں‘ کے خلاف کم اور ’نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ‘ کرنے والوں کے خلاف کافی بڑھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔حالانکہ میں ایک درجہ ہمدردی ان کے ساتھ بھی رکھتا ہوں لیکن میری رائے میں تاریخی عمل کے کردار اپنے اپنے نظریاتی ، معاشرتی اور معاشی حالات کے تحت ایک تاریخی جبر کا شکار ہوتے ہیں۔ زاہد چوہدری صاحب اس جبر کی تلاش میں نکلے تھے اور زیدی صاحب کے پہلے دیباچے میں اسی جبر کا ذکر موجود تھا، لیکن شاید دورِ حاضر کے پاکستانی خواص پر اس کے مذہبی، علاقائی اور طبقاتی خول کو دیکھنا اتنا آسان نہیں جتنا ساٹھ ستر سال پہلے کی تاریخ میں انھیں تلاش کرنا تھا۔
اس کتاب کے ساتھ پاکستانی معاشرے کے مکالمے میں تین فریق مصنف کے کام کا جائزہ لیں گے۔ دراصل یہ دو فریق ہیں جن میں ایک کثیر جماعت ہے اور دوسرا خواص کا ایک چھوٹا مگر بہت نمایاں طبقہ ہے جو نمایاں طور پر دو متضاد ذیلی گروہوں میں بٹا ہواہے۔ یہ خواص کے دونوں گروہ مزید متعدد ذیلی گروہوں کی صورت میں تقسیم ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں۔ ان کا جھگڑا جس جائیداد پر ہے وہ خطہ پاکستان اور پاکستانی عوام ہیں۔ زیدی صاحب کی کتاب کو پاکستانی عوام توجستہ جستہ گویا اپنی دلچسپی کے چند حصوں کو پڑھیں گے لیکن خواص شاید مکمل کتاب کو پڑھیں۔ بہر حال خواص خواہ مکمل کتاب پڑھیں یا اپنی دلچسپی کے حصے ، ان میں سے اکثر کو اسی ایک تحریر میں مخالف دھڑے کے مقابلے میں مختلف کتابیں ملیں گی۔ ایک دھڑا کتاب کے ایک حصہ کی تائید اور تعریف کرے گا اور دوسرے حصے کی تردید وتنقید ،باقی تمام دھڑے دوسرے کی مخالفت کریں گے۔
خرم قادر