(سید کاشف رضا)
پاکستان میں مشرف آمریت سے چھٹکارے کے بعد جمہوری قوتوں میں کچھ بنیادی نکات پر اتفاق ہوا تھا جو مستقبل کے پاکستان کے لیے انتہائی ضروری تھے۔ کچھ اور نکات بھی ایسے ہیں جن پر معاشرے میں ایک وسیع تر اتفاقِ رائے کی ضرورت تھی۔ ہمارے معاشرے میں اس بارے میں بحث و مباحثہ تو ہو رہا ہے لیکن ہم وسیع تر اتفاقِ رائے سے دور ہیں۔ ان معاملات پر پیش رفت کے لیے وقت گزر رہا ہے اور ان پر تیزی سے پیش رفت نہ ہوئی تو پاکستان ترقی تو کرتا رہے گا لیکن اس ترقی کی رفتار وہ نہیں ہو گی جو دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے ضروری ہے۔
۱۔ آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد طالبان اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ طالبان کے خلاف آپریشن بہت کام یاب رہا لیکن ان کے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن میں ویسی سنجیدگی نظر نہیں آئی۔ ان سہولت کاروں میں عملی سہولت کار بھی تھے اور فکری سہولت کار بھی۔ پاکستانی ریاست اور عوام کے خلاف کھلی جنگ کے لیے فاٹا کے ساتھ ساتھ پنجاب سے بھی بڑے پیمانے پر بھرتی ہوئی تھی۔ مگر پنجاب میں ان کے خلاف بڑے پیمانے پر کوئی کریک ڈاؤن نظر نہیں آتا۔
۲۔ افغانستان کی جمہوری حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے پہل پاکستان کو کرنی چاہیے۔ ہم نے افغان طالبان کے افغان حکومت سے مذاکرات کی کوشش افغان حکومت کے کہنے پر کی تھی۔ اب اگر افغان حکومت اور طالبان دونوں مذاکرات نہیں چاہتے تو ہمیں بھی اس سے ہاتھ اٹھا لینا چاہیے۔ افغان طالبان کا یہ مطالبہ قطعی غیر منطقی ہے کہ انھیں انتخابات کے بغیر ہی افغانستان کی حکومت سونپ دی جائے۔ پاکستان میں طالبان کے خلاف آپریشن کے باوجود افغان طالبان کے لیے اگر ہمارے مقتدر حلقوں میں ہم دردی موجود ہے تو یہ افسوس ناک بات ہے۔ اس بارے میں افغان صدر اشرف غنی نے ایک حالیہ انٹرویو میں بھی اشارہ کیا اور پھر ایک پاکستانی ہیلی کاپٹر کے عملے کی افغان طالبان کے ہاتھوں شریفانہ رہائی سے بھی شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ ہم اتنی جلدی یہ بات کیسے فراموش کر سکتے ہیں کہ پاکستان میں پچاس ہزار سے زیادہ شہریوں کے قتل کے لیے پاکستان طالبان کی کارروائیوں کے دوران انھیں افغان طالبان کی مکمل حمایت حاصل رہی۔
۳۔ پاکستان نے اپنے قیام کے فوری بعد امریکا سے سٹریٹجک اتحاد کیا۔ سیٹو اور سینٹو معاہدوں میں شریک رہا۔ دوسرا بڑا اسٹریٹجک اتحاد پاکستان نے چین کے ساتھ کیا۔ یہ دو اتحاد ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد رہے ہیں۔ چین کے ساتھ ہماری دوستی ہر دور میں خوش گوار رہی ہے اور اب پاک چین اقتصادی راہ داری کے ذریعے مزید مستحکم ہو رہی ہے۔ اس راہ داری کے مشرقی روٹ کے بجائے مغربی روٹ پر زیادہ تیزی سے کام ہونا چاہیے تاکہ دریائے سندھ کے مغرب کی جانب ترقی کی رفتار کو تیز تر کیا جا سکے۔ امریکا سے ہماری دوستی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی۔ نائن الیون کے بعد جنرل مشرف نے امریکا کا ساتھ دیا۔ نتیجے میں ہمیں اربوں ڈالر کی امداد بھی ملی لیکن اپنے ہی ملک میں دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ بھی لڑنا پڑی۔ لیکن اب جب افغانستان میں ایک جمہوری حکومت مضبوط ہو رہی ہے اور گلبدین حکمت یار جیسے لوگ بھی جمہوری عمل میں شریک ہونے پر آمادہ ہو رہے ہیں، پاکستان کے لیے وقت تھا کہ وہ بھی اپنی پندرہ سالہ قربانیوں کا ثمر حاصل کرتا۔ ایسے موقع پر امریکا سے تعلقات بگاڑ لینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی فصل پر ایک عرصہ محنت کرے لیکن پھر اسے کاشت کر کے فوائد حاصل کرنے سے گریز کرنے لگے۔ علم، ٹیکنالوجی ، معاشی ترقی اور جمہوری افکار و خیالات کے شعبوں میں جو کچھ ہمیں امریکا اور یورپ دے سکتے ہیں وہ نہ چین دے سکتا ہے نہ روس۔
۴۔ بھارت کی مودی سرکار جب سے برسرِ اقتدار آئی ہے پاکستان سینٹرک خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ کشمیریوں کی حالیہ تحریک خالصتاً کشمیر میں شروع ہوئی اور نوم چومسکی جیسے دانش ور بھی اس کی حمایت کر چکے ہیں۔ ہم موجودہ حالات میں اس تحریک کی سیاسی حمایت ہی کر سکتے ہیں جو ہمیں جاری رکھنی چاہیے۔ بھارت کی سوا ارب انسانوں کی مارکیٹ ہتھیانے کی خواہش میں دنیا نے نریندر مودی کی فاشسٹ پالیسیوں کو بھی نظرانداز کر رکھا ہے جس پر افسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن دنیا کو اس راستے سے فی الحال موڑا نہیں جا سکتا۔ کشمیریوں کی حمایت کا طریقہ کیا ہو؟ اس پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ سن نوے کی دہائی میں ایسے گروہوں کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی جو کنٹرول لائن پار کر کے کشمیر جانے اور وہاں مزاحمت میں مصروف کشمیریوں کی عملی مدد کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ مگر القاعدہ کے نائن الیون والے کارنامے کے بعد ایسا ممکن نہیں رہا۔ تازہ صورتِ حال میں ایسے گروہ ہمارے لیے نہ صرف غیر ضروری بلکہ خارجہ تعلقات کے میدان میں بوجھ بن چکے ہیں۔ انھیں ہر صورت غیر موثر کرنا ہو گا۔
۵۔ پاکستان کی تمام اہم سیاسی جماعتوں نے چودہ مئی دو ہزار چھ کو لندن میں ایک میثاقِ جمہوریت پر دست خط کیے تھے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ ایک اہم ترین مثبت پیش رفت تھی۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں نے یہ طے کیا تھا کہ وہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم کریں گی اور ایک دوسرے کی حکومت گرانے کے لیے غیر جمہوری قوتوں کو آواز نہیں دیں گی، جیسا کہ سن نوے کی دہائی میں ان کا وطیرہ رہا تھا۔ لیکن ہماری سیاست کا مزاج ایسا بن چکا ہے کہ اصلی اپوزیشن اسی کو سمجھا جاتا ہے جو حکومت کی پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہو۔پیپلز پارٹی کی حکومت میں مسلم لیگ ن نے اگلے انتخابات کا انتظار کرنے کی پالیسی اپنائی تو عمران خان نے اسے فرینڈلی اپوزیشن قرار دے دیا۔ اس کے بعد ایک ایسے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جسے ملکی و غیر ملکی غیر جانب دار مبصرین نے منصفانہ قرار دیا تھا۔ پیپلز پارٹی اپنے دور میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے یہ طے کیا تھا کہ انتخابات ایک نگران حکومت کرایا کرے گی۔ ایسا انتظام پاکستان کے علاوہ کسی نمایاں جمہوری ملک میں نہیں۔ا ب بھی اگر کوئی سیاسی جماعت دھاوے اور دھرنے کی سیاست کے ذریعے ملکی حکومت پر قبضہ کرنا چاہے تو اس کی مذمت پر ملک کے اندر ایک وسیع البنیاد اتفاقِ رائے ہونا چاہیے۔
۶۔ کسی ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے تمام معاملات پر حتمی فیصلے کا اختیار اسی کو حاصل ہو۔ لیکن جمہوریت کی بحالی کے بعد بھی دفاع، خارجہ پالیسی اور اب داخلہ پالیسی کے شعبوں پر بھی پاکستانی فوج کی رائے کو غلبہ حاصل ہے۔ نواز شریف سے توقع تھی کہ وہ اس بارے میں آصف زرداری سے بہتر کارکردگی دکھائیں گے لیکن عمران خان کی دھاوے اور دھرنے کی سیاست نے انھیں مقتدر حلقوں کی گود میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔ دنیا کے تمام بڑے ملکوں میں دفاع اور خارجہ امور پر متعلقہ اداروں سے مشاورت کی جاتی ہے۔ پاکستان میں ایسی مشاورت کا میکانزم موجود ہے، لیکن فیصلے کا اختیار جمہوری حکومت کو ہی ہونا چاہیے۔ عمران خان خود بھی اس بات سے اتفاق کا اظہار کر چکے ہیں مگر وہ موجودہ جمہوری حکومت کو یہ رعایت دینے کو تیار نہیں، جو ایک افسوس ناک بات ہے۔
۷۔ پاکستان کی دھرتی کے سب باسیوں کو ملکی معاملات پر بات کرنے کا حق دینا چاہیے۔ دھرتی کا کوئی بیٹا تبھی ملکی سرحدوں سے باہر دیکھتا ہے جب اسے ملکی حدود کے اندر اپنی بات کہنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ شیخ رشید یا پنجاب کا کوئی رہ نما جب فوج سے ملکی معاملات میں مداخلت کی اپیل کرتا ہے تو اسے فوج کے خلاف سازش نہیں سمجھا جاتا لیکن جب چھوٹے صوبے کا کوئی رہ نما کسی
حساس معاملے پر تنقید کرتا ہے تو اسے بڑی آسانی سے غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ وہ تمام سیاست دان جو ملکی آئین کے تحت انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، انھیں ملکی معاملات پر بات کرنے کا بھی حق ہے۔ اگر آئین توڑ کر آٹھ نو سال تک ملک پر غیر قانونی حکومت کرنے والے آمر کو ایک دن کے لیے علامتی طور پر بھی جیل میں نہیں ڈالا جا سکتا تو دھرتی کے کسی بیٹے پر بھی غداری کا الزام لگانا نہیں چاہیے۔ بلوچ کارکنوں کی گم شدگی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اور بگٹی، مینگل اور مری قبائل کے رہ نماؤں کے ساتھ انتہائی عزت کے ساتھ معاملہ کرنا چاہیے۔ کراچی میں بھی تازہ سیاسی پیش رفت کے بعد فاروق ستار کی قیادت میں کام کرنے والی باقی ماندہ ایم کیو ایم کو چھیڑنے کا سلسلہ بھی ختم ہونا چاہیے۔