پاکستانی معاشرہ اور غیر ریاستی عناصر
از، حُر ثقلین
پاکستان میں آئے روز نت نئے مسائل اور جرائم جنم لیتے رہتے ہیں۔ ان مسائل اور جرائم نے پاکستانیوں کے مزاج پر منفی اثر ڈالا ہے۔ قوم کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔لاہور سے اغوا ہونے والے بچوں سے متعلق خبروں نے والدین کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔اب والدین نے اپنے بچوں کو گھروں تک محدود کر دیا ہے۔ان کے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی ہے۔اب وہ پارکوں اور کھیل کے میدانوں میں جانے سے قاصر ہیں۔اس عمل نے بچوں کے اذہان پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔اس سے قبل تعلیمی اداروں میں دہشت گرد حملوں نے نئی نسل کو خوف زدہ کر دیا تھا۔ ریاستی ادارے ان جرائم پر قابو پانے میں ناکام نظر آ رہے ہیں اور ریاست بظاہر ان غیر ریاستی عناصر کے سامنے بے بس نظر آ رہی ہے۔
یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ نئی نسل کو خوف میں مبتلا کیا جارہا ہے۔اگرچہ کہ اس نسل کے پاس تعلیم اور معلومات حاصل کرنے کے ذرائع زیادہ ہیں مگر گزشتہ نسل کے مقابلے میں ریاستی اور سماجی شعور بہت کم ہے۔ایک خاص حکمتِ عملی کے تحت نئی نسل کو شعوری طور پر مفلوج کیا جا رہا ہے۔ریاست پر سے ان کا اعتماد کم ہو رہا ہے۔جمہوری اقدار اور ریاست کے فرائض کو سمجھنے سے وہ غافل ہو رہے ہیں۔یہ امر طے شدہ ہے کہ جس قوم میں سماجی شعور کم ہو گا وہاں غیر ریاستی عناصر مضبوط اور پر اثر ہوں گے۔اب ریاست کے مقابلے میں غیر ریاستی عناصر معاشرے پر زیادہ اثر انداز ہو ں رہے ہیں۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ متشدد تنظیمیں اور گروپس ہی غیر ریاستی عنصر ہوتے ہیں مگر اس کے علاوہ بھی کئی اقسام کے غیر ریاستی عناصر معاشرے کی سوچ اور فکر پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے لوگوں کے سماجی، ثقافتی رویوں کی پروا کیے بغیر انہیں اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔پر تعیش اشیاء کو بنیادی ضروریات زندگی میں شامل کر دیا گیا ہے۔جاگیرداراور سرمایہ دار مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں۔ زمین کی خرید و فروخت کرنے والے سرِ عام رشوت دینے کا اعتراف کرتے ہیں مگر ریاستی ادارے اور قوانین ان کے سامنے بے بس ہیں۔وہ سیاستدان یا حکومتی عناصر جو خود کو ماورائے قانون سمجھتے ہیں بھی انہی عناصر کا ایک حصہ ہیں۔سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق بچوں کے اغوا کے معاملے کو معمول کا عمل سمجھتے ہیں۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر لوگ مختلف موضوعات پر بحث کرتے ہیں۔مسائل پرہر طرح کی رائے عامہ سامنے آتی ہے۔مگر اس فورم پر بھی سائبر کرائم بل کی صورت میں قدغن لگا دی گئی۔رضا ربانی جیسے دنشوار سے لے کر عمران خان جیسے سوشل میڈیا کا سہارا لینے والے لیڈر تک سب نے اس بل کی حمایت کی ہے۔ مکالمہ کی روایت کو ختم کیا جا رہا ہے۔غیر ریاستی عناصر حکومتی عناصر کو گائیڈ لائن دینے لگے ہیں۔
کسی بھی ریاست کو اس کے عوام طاقت ور بناتے ہیں۔مگر پاکستان میں عوام کو سیاسی طور پر مفلوج اور سماجی طور پر بے عمل کیا جا رہا ہے۔پاکستان ایک فلاحی ریاست قائم کرنے کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔یہ خواب اب تک پورا تو نہ ہوسکا مگر یہ ملک ایک سیکورٹی اسٹیٹ ضرور بن گیا ہے۔کوئی ریاست صرف اسی وقت فلاحی بن سکتی ہے جب وہاں احتساب کا موثر نظام موجود ہو بد قسمتی سے پاکستان میں اب تک احتساب کا نظام قائم ہی نہیں ہو سکا ہے۔ درحقیقت جن لوگوں کو احتساب کے لیے مقرر کیا جاتا ہے وہی احتساب کے لائق ہوتے ہیں۔دوسری طرف کوئی بھی حکوت اپنا احتساب کرنا گناہِ کبیرہ تصور کرتی ہے۔احتساب نہ ہونے کی صورت میں ملک میں دولت کی مساویانہ تقسیم کا کوئی نظام قائم نہیں کیا جا سکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ گئی ہے۔ وہی ہاتھ اس ملک کی تقدیر سے کھیلنے لگے ہیں۔ عام آدمی عدم تحفظ کا شکار ہے۔اپنے مستقبل سے ناامید ہو کر وہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت کمانے کے چکروں میں پڑ گیا ہے۔اسے صرف اپنی اور اپنی اولاد کی ہی فکر لاحق ہوتی ہے۔اس روش نے اجتماعی سوچ اور شعور کو نا پید کر دیا ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کا پڑھا لکھا طبقہ اپنا کردار ادا کرے۔ رائیٹ اور لیفٹ کی بحث اب قصہ ماضی ہے۔قوم کو غیر ریاستی عناصر کے چنگل سے آزاد کروانا ہے۔یہ عناصر درحقیقت سرمایہ درانہ نظام کی ہی پیداوار ہیں اس نظام کے منفی اثرات سے ملک اور قوم کو بچانا ہے۔ قوم کی شعوری تربیت ہی ریاست کو مضبوط بنا سکتی ہے اور مضبوط ریاست ہی اپنے عوام کے مفادات کا تحفظ کر سکتی ہے۔