(الیا س کبیر)
پطرس، واقعات سے بھی مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اُن کی ظرافت کا آرٹ الفاظ میں نہیں،واقعات میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ پطرس ان وا قعات کو اس کمال مہارت اور فنی چابک دستی سے اپنے مضامین میں سموتے ہیں کہ یہ واقعات ناقابل فراموش بن جاتے ہیں۔ ان کی تحریر ایک موقع اور فضا پیدا کرتی ہے ۔یہ موقع اور فضا خوشگوارتاثر پر مبنی ہوتی ہے۔ انھوں نے مختلف واقعات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان واقعات میں مزاح کا عنصر اس عمدگی سے شامل کیا ہے کہ قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
عام طور پر مزاح نگار لفظ کی شکل بگاڑ کر اس سے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو وقتی طور پر تو مزاح پیدا کردیتا ہے لیکن بار بار استعمال سے وہ لفظ اپنی معنویت کھو دیتا ہے لیکن پطرس کے مزاح میں یہ انداز نہیں ملتا ۔ ان کے الفاظ میں خاص معنویت پنہاں ہوتی ہے۔
پطرس کے ہاں واقعے کی مضحک صورت حال کا تاثر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ جب نوکر کہتا ہے کہ سائیکل کو تیل دینے والے سارے سوراخ مٹی کی وجہ سے بند ہوچکے ہیں تو متکلم اُسے کہتا ہے کہ اوپر اوپر سے ڈال دو یہ بھی مفید ہوتا ہے۔اسی مضمون میں پطرس نے ایک نئے انداز سے واقعاتی مزاح پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے:
’’میری طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ میں جب کبھی کسی موٹر کار کو دیکھوں مجھے زمانے کی ناسازگاری کا خیال ضرور ستانے لگتا ہے اور میں کوئی ایسی ترکیب سوچنے لگتا ہوں جس سے دنیا کی تمام دولت سب انسانوں میں برابر تقسیم کی جا سکے۔ اگر میں سڑک پر پیدل جا رہا ہوں اور کوئی موٹر اس ادا سے گزر جائے کہ گردوغبار میرے پھیپھڑوں ، میرے دماغ ، میرے معدے اور میری تلی تک پہنچ جائے تو اس دن میں گھر آ کر علم کیمیا کی وہ کتاب نکال لیتا ہوں جو میں نے ایف۔اے میں پڑھی تھی اور اس غرض سے اس کا مطالعہ کرنے لگتا ہوں کہ شاید بم بنانے کا کوئی نسخہ یاد آجائے۔ ‘‘
پطرس کے کرداروں کی حرکات و سکنات ،واقعات کاانوکھا پن اپنے فطری تسلسل کے ساتھ اس طرح ظاہرہوتا ہے کہ اس میں خودبخود مزاح کاپہلو نکل آتا ہے ۔پطرس کرداروں کے ذریعے ایک لطف اندوز ماحول پیدا کرتے ہیں۔ اُن کے کردار مزاح نگاری کا عمدہ نمونہ ہیں۔ یہ کردار مختلف ہیں۔ انھوں نے اکثر مضامین میں واحد متکلم کا صیغہ استعمال کرکے مزاح نگاری کی روایت کو مضبوط کیا ہے۔’’مرید پور کا پیر‘‘ میں ایک لیڈر کا کردار، ’’ہاسٹل میں پڑھنا‘‘ اور ’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘‘ میں طالب علم کا کردار، ’’میں ایک میاں ہوں‘‘ میں خاوند کا کردار،’’کتے‘‘ میں ایسے آدمی کا کردار جو کتوں سے بہت ڈرتا ہو اور خود کتوں کا کردار، ’’مرحوم کی یاد میں‘‘ میں ایک ایسے شخص کا کردار جو سواری ہوتے ہوئے بھی اس کے انجر پنجر سے تنگ ہے۔
ایک بڑے مزاح نگار کی طرح ان کو بھی اپنے اوپر ہنسنے کی پوری قدرت ہے ۔ کیونکہ جواپنے اوپر نہ ہنس سکے،اپنا مذاق نہ اڑا سکے ، اپنے آپ کو تضحیک کا نشانہ نہ بنا سکے ، اُسے دوسروں پر ہنسنے کاکوئی حق نہیں پہنچتا۔ وہ ہنستے ہیں مگر ایک تماشائی کی طرح نہیں بلکہ ایک ہمدرد اور دوست کی حیثیت سے ۔اپنے آپ پر ہنسنے کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:
* ’’آنسو پونچھ کر اور دل کو مضبوط کرکے میز کے سامنے آ بیٹھے ، دانت بھینچ لیے، نکٹائی کھول دی، آستینیں چڑھا لیں لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کریں کیا؟ سامنے سرخ، سبز، زرد سبھی قسم کی کتابوں کا انبار لگا تھا۔ اب ان میں سے کون سی پڑھیں؟ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے کتابوں کو ترتیب سے میز پر لگا دیں کہ باقاعدہ مطالعہ کی پہلی منزل یہی ہے۔ ‘‘ (’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘‘، ص۱۵)
* دم خشک ہو گیا ۔ بدن پر ایک لرزہ سا طاری ہو گیا۔ زبان بندہو گئی۔ سامنے وہ روشن آراء جس کو میں نے تار دے کر بلایا تھا کہ تم آجاؤ میں بہت اداس ہوں اور اپنی یہ حالت کے منہ پر سیاہی ملی ہے، سرپر وہ لمبوتری سی کاغذ کی ٹوپی پہن رکھی ہے اور ہاتھ میں چلم اٹھائے کھڑے ہیں اور مردانے سے قہقہوں کا شور برابر آ رہا ہے۔ ‘‘ (’’میں ایک میاں ہوں‘‘، ص۳۴)
* ’’اتنے میں ہال میں سناٹا چھا گیا۔ لوگ سب میری طرف دیکھ رہے تھے۔میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور سہارے کے لیے میز کو پکڑ لیا ۔ میرا دوسرا ہاتھ بھی کانپ رہا تھا، وہ بھی میں نے میز پر رکھ دیا۔ اس وقت ایسا معلوم ہورہا تھا، جیسے میز بھاگنے کو ہے اور میں اسے روکے کھڑا ہوں۔ میں نے آنکھیں کھولیں اور مسکرانے کی کوشش کی، گلا خشک تھا، بصد مشکل میں نے یہ کہا:’’پیارے ہم وطنو!‘‘ (’’مرید پور کا پیر‘‘ ، ص۴۲)
* ’’آخرکار بائیسکل پر سوار ہوا۔ پہلا ہی پاؤں چلایا تو ایسامعلوم ہوا جیسے کوئی مردہ ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہورہا ہے۔ گھر سے نکلتے ہی کچھ تھوڑی سی اترائی تھی۔ اس پر بائیسکل خود بخود چلنے لگی لیکن اس رفتار سے جیسے تارکول زمین پربہتا ہے اور ساتھ ہی مختلف حصوں سے طرح طرح کی آوازیں برآمد ہونی شروع ہو ئیں۔ ان آوازوں کے مختلف گروہ تھے ۔ چیں چاں چوں کی قسم کی آوازیں زیادہ تر گدی کے نیچے اور پچھلے پہیے سے نکلتی تھیں۔ کھٹ کھڑکھڑ کھڑڑ کے قبیل کی آوازیں مڈگارڈوں سے آتی تھیں۔چرچرخ، چرچرخ کی قسم کے سُر زنجیر اور پیڈل سے نکلتے تھے۔ زنجیر ڈھیلی ڈھیلی تھی۔ میں جب کبھی پیڈل پر زور ڈالتا تھا، زنجیر میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوتی تھی جس سے وہ تن جاتی تھی اور چڑچڑ بولنے لگتی تھی او ر پھر ڈھیلی ہو جاتی تھی۔ پچھلا پہیہ گھومنے کے علاوہ جھومتا بھی تھا یعنی ایک تو آگے چلتا تھا اور اس کے علاوہ داہنے سے بائیں اور بائیں سے داہنے کو بھی حرکت کرتا تھا۔ چناں چہ سڑک پرجو نشان پڑجاتا تھا اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مغمور سانپ لہرا کر نکل گیا۔ ‘‘
(’’مرحوم کی یاد میں‘‘ ، ص۹۰)
شاہکار مضمون ’’کتے‘‘ میں پطرس کا فن نقطۂ کمال کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس میں جس طرح پطرس نے خود کو کتوں سے ڈرنا دکھایا گیا ہے ۔یہ اعلیٰ ظرفی کی اعلیٰ ترین مثال ہے کہ ایک شخص خود اپنی ذات کا مذاق اڑارہا ہے ۔مضمون کی ابتدا بہت عمدہ ہے :
’’علمِ حیوانات سے پروفیسر سے پوچھا ۔سلوتروں سے دریافت کیا ۔ خود سرکھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ کہ آخر کتوں کافائدہ کیا ہے ۔‘‘
(ص۵۸)
اس مضمون میں کتے کی موجودگی اس انداز سے سامنے آتی ہے کہ انسان محویت کے اس درجے پرپہنچ جاتا ہے جہاں لگتا ہے کہ کتا واقعی ہمارے پاس بیٹھا ہوا ہے:
’’جونہی ہم بنگلے کے اندر داخل ہوئے ، کتے نے برآمدے میں کھڑے کھڑے ہی ایک ہلکی سی ’’نخ‘‘ کردی اور پھر منہ بند کرکے کھڑا ہوگیا۔ ہم آگے بڑھے تو اس نے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں ’’نخ‘‘ کردی۔ چوکیداری کی چوکیداری ، موسیقی کی موسیقی۔‘‘ (ص۵۸)
پطرس واقعہ کی مضحک صورت کا تقابل کرکے قاری کے ذہن میں تخیل کی حرکی صورت پیدا کردیتا ہے۔ گویا قاری کے تخیل میں ایک فلم چلنے لگتی ہے۔ مضمون’’کتے ‘‘ میں ہی یہ مناظر بآسانی دیکھے جاسکتے ہیں:
’’بعض اوقات ایسا اتفاق بھی ہوا ہے کہ رات کے دو بجے چھڑی گھماتے تھیٹر سے واپس آ رہے ہیں اور ناٹک کے کسی نہ کسی گیت کی طرز ذہن میں بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں چونکہ گیت کے الفاظ یاد نہیں اور نو مشقی کا عالم ہے، اس لیے سیٹی پر اکتفا کی ہے کہ بے سرے بھی ہو گئے تو کوئی یہی سمجھے گا کہ انگریزی موسیقی ہے۔ اتنے میں ایک موڑ پر سے جو مُڑے تو سامنے ایک بکری بندھی تھی۔ ذرا تصور ملاحظہ ہو، آنکھوں نے اسے بھی کتا دیکھا۔ ایک تو کتا اور پھر بکری کی جسامت کا ۔گویا بہت ہی کتا۔ بس ہاتھ پاؤں پھول گئے، چھڑی کی گردش دھیمی دھیمی ہوتے ہوتے ایک نہایت ہی نامعقول زاویئے پر ہوا میں کہیں ٹھہر گئی، سیٹی کی موسیقی بھر تھر تھرا کر خاموش ہو گئی لیکن کیا مجال جو ہماری تھوتھنی کی مخروطی شکل میں ذرا بھی فرق آیا ہو۔ گویا ایک بے آواز لے ابھی تک نکل رہی ہے۔ طب کا مسئلہ ہے کہ ایے موقعوں پر اگر سردی کے موسم میں بھی پسینہ آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں بعد میں پھر سوکھ جاتا ہے۔‘‘(’’کتے‘‘، ص۵۹)
رشید احمد صدیقی کی نثر کا بنیادی حوالہ اور مرکز علی گڑھ ہے ۔ وہ اکثر اپنی تحریروں میں اس کا تذکرہ بڑی محبت اور خلوص سے کرتے ہیں۔ ’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘ ہو یا ’’ہم نفسانِ رفتہ‘‘ ہر جگہ رشید احمد صدیقی نے علی گڑھ کو اپنے قلم کامحور و مرکز بنایا ہے۔اُن کے دل میں علی گڑھ کے حوالے سے تعظیم اور تقدیس کے عناصر موجود ہیں لیکن پطرس کے ہاں وہ تقدیس کا عنصر نہیں ۔ وہ لاہور کو ایک شہر کے طور پر لیتے ہیں۔ رشید احمد صدیقی کا مزاح رکھ رکھاؤ، وضع داری اور رواداری پر مبنی ہے جبکہ پطرس کے ہاں رشید احمد صدیقی کی طرح وضع داری نہیں ۔ اس لیے وہ کسی بھی چیز کے گرد تقدس کا ہالہ نہیں کھینچتے۔
ثبوت کے طور پر ’’لاہور کا جغرافیہ‘‘ جہاں سے بھی پڑھیں وہیں پر لاہور اور ا ہالیانِ لاہور کو نئے انداز میں دیکھا گیا ہے۔ انھوں نے اس مضمون میں اپنے مزاح کا جادو جگا دیا ہے:
’’ لاہور پنجاب میں واقع ہے۔ لیکن پنجاب اب پنج آب نہیں رہا۔ اس پانچ دریاؤں کی سرزمین میں اب صرف ساڑھے چار دریا بہتے ہیں اور جو نصف دریا ہے، وہ تو اب بہنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اسی کو اصطلاح میں راوی ضعیف کہتے ہیں۔ ملنے کا پتا یہ ہے کہ شہر کے قریب دو پل بنے ہیں۔ ان کے نیچے ریت میں دریا لیٹا رہتا ہے۔ بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے اس لیے یہ بتانا بھی مشکل ہے کہ شہر دریا کے دائیں کنارے پر واقع یا بائیں کنارے پر۔ ‘‘
(’’لاہور کا جغرافیہ‘‘، ص۲۱)
مذکورہ بالا اقتباس میں پطرس نے مزاح کے پردے میں دراصل غور وفکر کی دعوت دی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ انھوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہو کہ نہریں نکالنے اور آلودگی کی وجہ سے دریائے راوی کا پانی بہت ہی کم ہوگیا ہے اور اب وہاں پانی کی جگہ ریت ہے۔راوی سے مراد روایت بیان کرنے والا اور جس آدمی کی روایت قابل اعتبار نہ ہو، اُسے ضعیف را وی کہتے ہیں۔ پطرس نے اس مذہبی اصطلاح کو بڑی خوبصورتی سے دریائے راوی کے طور پر استعمال کرکے اسے نئے معنی دے دیے ہیں چونکہ دریائے راوی اب پہلے کی طرح نہیں رہا۔ اس میں پانی نہ ہونے کے برابر ہوگیا ہے، اس لیے راوی اب ضعیف ہوچکا ہے۔
پطرس اکثر مضامین میں اپنے محبوب شہر لاہورکا تذکرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں:
* ’’ہمارے والد ہیڈ ماسٹر صاحب اور تحصیلدار صاحب ان تینوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں لاہور بھیج دیا جائے۔جب ہم نے یہ خبر سنی تو شروع شروع میں ہمیں سخت مایوسی ہوئی لیکن جب ادھر ادھر کے لوگوں سے لاہور کے حالات سنے تو معلوم ہوا کہ لندن اور لاہور میں چنداں فرق نہیں۔ بعض واقف کار دوستوں نے سینما کے حالات پر روشنی ڈالی۔ بعض نے تھیٹروں کے مقاصد سے آگاہ کیا۔ بعض نے ٹھنڈی سڑک وغیرہ کے مشاغل کو سلجھا کر سمجھایا۔ بعض نے شاہدرے اور شالامار کی ارمان انگیز فضا کا نقشہ کھینچا۔ چناں چہ جب لاہور کا جغرافیہ پوری طرح ہمارے ذہن نشین ہو گیا تو ثابت یہ ہوا کہ خوشگوار مقام ہے۔ ‘‘ (’’ہاسٹل میں پڑنا‘‘ ، ص۴۷)
* ’’اگر وہ ایک عام اور مجمل سا مشورہ دے دیتے کہ لڑکے کو لاہور بھیج دیا جائے تو بہت خوب تھا۔‘‘ (’’ایضاً)
* ’’چناں چہ از حد غورو خوض کے بعد لاہور میں ہمارے ایک ماموں دریافت کیے گئے۔‘‘(ایضاً، ص۴۸)
* ’’اس وقت اس لاہور شہر میں ہزاروں ایسے کاہل لوگ ہوں گے جو دنیاو مافیہا سے بے خبر نیند کے مزے اڑاتے ہوں گے۔‘‘
(’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘‘، ص۱۵)
پطرس نے لفظی الٹ پھیر سے مزاح پیدا کرنے کی خوبصورت کوشش کی ہے:
’’مرزا صاحب کہنے لگے’’ نہیں یہ بات نہیں ، میں تو صرف خریدنے کے لفظ پر غور کررہا تھا۔ تم نے کہا، میں ایک موٹرکار خریدنے لگا ہوں، تو میاں صاحب زادے خریدنا تو ایک ایسا فعل ہے کہ اس کے لیے روپے وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وغیرہ کا بندوبست تو بخوبی ہو جائے گا۔ لیکن روپے کا بندوبست کیسے کرو گے؟‘‘(’’مرحوم کی یاد میں‘‘، ص۸۴)
پطرس اپنے مضامین میں کسی شخص کی ذات کو نہیں اُچھالتے ۔زندہ دلی سے تمام کمزوریوں کااظہار اپنی ذات سے جوڑلیتے ہیں۔اس لیے کتوں سے ڈرنا ہو یا سائیکل پر سوار ہونا ، مرید پورکاپیربننا ہو یا ہوسٹل میں رہنا ہرمعاملے میں وہ اپنی ذات کو نشانہ بناتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ یہ اعلیٰ ظرفی اور ارفع فہم وفراست، پطرس کو دوسرے مزاح نگاروں سے ممتاز و ممیز کرتی ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ ہرشخص کے چلنے پھرنے،اٹھنے بیٹھنے کی کیفیات سے بے شمار مزاح کی اقسام جنم لیتی ہیں۔
پطرس کے سوچنے کاانداز مزاحیہ ہیں۔وہ ہرچیزکو مزاح کی عینک اورمخصوص زاویۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔اس لیے وہ چھوٹی سے چھوٹی اور باریک سے باریک بات میں بھی مزاح کا پہلو نکال لیتے ہیں۔ان کے یہاں جذبات نہیں ملتے ۔بظاہر وہ خود ہنستے ہیں نہ دوسروں کو ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ وہ احساس کوابھاردیتے ہیں جوقہقہے لگانے پر مجبورکردیتا ہے ۔
پطرس نے جس طرح اپنی ذات پر مزاح کیا ہے ، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کہ انسان دوسروں کو تو تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور جملے کستا ہے لیکن اپنے آپ کو اس سے مبرّا سمجھتا ہے لیکن پطرس نے ’’مرحوم کی یاد میں‘‘ کو جس طرح اپنی ذات پر مزاح کرکے اسے پیش کیا ہے، اُس کی مثال اردو مزاح نگاری کی تاریخ میں بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ اس مضمون میں واقعاتی مزاح اپنے پورے عروج پر دکھائی دیتا ہے۔ یہ ایک شاہکار اور بذلہ سنجی سے بھرپور مضمون ہے :
’’چند قدم بھی چلنے نہ پایا تھا کہ اب کے ہینڈل یک لخت نیچے ہو گیا۔ اتنا کہ گدی اب ہینڈل سے کوئی فٹ بھر اونچی تھی۔ میرا تمام جسم آگے کو جھکا ہوا تھا ۔تمام بوجھ دونوں ہاتھو ں پر تھا جو ہینڈل پر رکھے تھے اور برابر جھٹکے کھا رہے تھے۔ آپ میری حالت کو تصور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ میں دور سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کوئی عورت آٹا گوندھ رہی ہو۔ مجھے اس مشابہت کا احساس بہت تیزتھا جس کی وجہ سے میرے ماتھے پر پسینہ آگیا ۔میں دائیں بائیں لوگوں کو کنکھیوں سے دیکھتا جاتا تھا ۔یوں تو ہر شخص میل بھر پہلے ہی سے مڑ مڑ کر دیکھنے لگتا تھا لیکن ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جس کے لیے میری مصیبت ضیافتِ طبع کا باعث نہ ہو۔ ‘‘ (’’مرحوم کی یاد میں ‘‘، ص۹۱)
ایک سچا تخلیق کار معاشرے کی ناہمواریاں دیکھ کر خاموش نہیں بیٹھتا ۔ وہ اس کی نشاندہی کے لیے قلم کا سہارا لیتا ہے تاکہ وہ خامی یا برائی یا ناہمواری سماج کے لیے قابل توجہ بن جائے۔ مزاح نگار اُن سماجی ناہمواریوں کی نشاندہی کچھ اس قرینے سے کرتا ہے کہ جس کو پڑھ کر انسان پہلے تو کھلکھلا کر ہنستا ہے اور پھر ایک بار سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے۔ پطرس کو چونکہ انگریزی ادب سے گہری وابستگی تھی اور وہ طویل عرصہ مغرب میں بھی رہے،اس لیے انھوں نے مشرقی ماحول کو مغرب کی آنکھ سے بھی دیکھا ہے۔ انھوں نے ہمارے یہاں جب یہ صورت حال دیکھی تو اُن کا زاویۂ نگاہ سب سے منفرد تھا۔ مشرق و مغرب کے اس حسین امتزاج سے مزاح میں نکھار پیدا ہوگیا۔
پطرس بڑے سے بڑے موضوع کونہایت اختصار کے ساتھ اداکرنے میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ وہ اپنے دلنشیں اسلوبِ نگارش سے اس اختصار میں بھی جامعیت پیدا کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ اختصار کے باوجود بھی ان کی تحریر میں دلچسپی کے عناصر بدرجۂ اتم موجود ہوتے ہیں۔ بعض اوقات وہ ایک ہی جملے میں پر لطف بات بیان کردیتے ہیں۔ ان کا کوئی بھی مضمون کسی بھی جگہ سے دیکھیں ، ہنسی کو تحریک دیتا ہے۔ جملے کی بے ساختگی اور برجستگی ملاحظہ کیجیے:
’’ہم پہ تو جو ظلم ہواسوہوا ، یونیورسٹی والوں کی حماقت ملاحظہ فرمائیے کہ ہمیں پاس کرکے اپنی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ اپنے ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔ ‘‘
(’’ہاسٹل میں پڑنا‘‘، ص۵۲)
قدرت نے پطرس پر مزاح نگاری کے وہ تمام اسرار و رموز کھول دیے تھے جسے ایک عام مزاح نگار شبانہ روز محنتِ شاقہ کے بعد حاصل نہیں کرسکتا۔وہ چونکہ ایک صاحبِ طرز مزاح نگار تھے، اس لیے انھیں منفرد اسلوبِ نگارش کی بنا پر شہرتِ دوام حاصل ہوئی۔پطرس نے اپنے متاخرین کے لیے مزاح نگاری کی ایسی راہ متعین کی جس پر چل کر آنے والوں نے اپنا نام کمایا۔
پطرس کے موضوعات کا محور ہمارے ارد گرد پھیلا ہوا وہ ماحول ہے جس میں ہم سانس لیتے اور زندگی گزارتے ہیں۔ اس لیے جب بھی ہم کسی طالب علم کو ہاسٹل میں دیکھتے ہیں تو ہمارا ذہن فوراً ’’ہوسٹل میں پڑھنا‘‘ کی طرف منتقل ہوجا تا ہے۔ سینما دیکھنے جائیں تو ’’سینما کا عشق‘‘ سامنے آجاتا ہے۔ کسی پرانے بائیسکل کو دیکھیں تو ’’مرحوم کی یاد میں‘‘ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ کسی مجبور اور بے بس خاوند کو دیکھیں تو ’’میں ایک میاں ہوں‘‘ ذہن میں گھومنے لگتا ہے۔ کسی نوارد لیڈر کو سٹیج پر دیکھیں تو ’’مرید پور کا پیر‘‘کی قہقہوں بھری کیفیت سے محظوظ ہوتے ہیں۔ کسی ایسی کتاب کو دیکھیں جو ابھی تک نہ پڑھی گئی ہو تو ’’میبل اور میں‘‘ کی ’’طالب علمانہ روش‘‘سے واسطہ پڑتا ہے اوراگر کسی شخص کو کتوں سے الجھتا ہوا د یکھیں تو ’’کتے‘‘ کے مناظر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔
پطرس کے مزاح میں وہ جملہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں جو کسی بھی تخلیق کو شہرتِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں جگہ دلوانے کا باعث بنتی ہیں۔اُن کا مزاح فطرت پر مبنی ہیں، اس لیے وہ جب بھی کسی موضوع کو قلمبند کرتے ہیں تو بڑی بے ساختگی اور برجستگی سے لکھنے کا حق ادا کردیتے ہیں۔پطرس نے بہت کم لکھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ اردو مزاح نگاری میں ممتاز مقام پر متمکن ہیں۔ انھوں نے پژمردہ چہروں پرمسکراہٹ کے پھول کھلا ئے ہیں۔ ان پھولوں کی مہکار دنیائے ادب میں پھیل چکی ہے جس سے لوگوں کے قلوب و اذہان میں شگفتگی پیدا ہوئی ہے۔ مضامین کو پڑھ کر قاری کی طبیعت مرنجاں مرنج اور بذلہ سنج ہوجاتی ہے۔ اُن کاہر مضمون اپنے اندر مزاح نگاری کا ایک پورا دبستان رکھتا ہے۔انھوں نے کم لکھنے کے باوجود بھی مزاح نگاری کے جملہ امکانات روشن کر دیے ہیں۔
الیاس کبیر صاحب کا یہ مضمون ان کی کتاب پطرس کے مضامین کا دیباچہ ہے.میں نے اسے پہلے بهی پڑها تها.اب دوبارہ پڑها ہے.ہر بار ایک تازگی کا احساس ہوا.الیاس کبیر کی جو سب سے نمایاں خوبی ہے وہ یہ ہے کہ وہ بہت رواں اور بلیغ لکهتے ہیں.