ڈاکٹر اسلم فرخی، اردو ادب کا ایک تابندہ ستارہ، اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔وہ ۱۵ جون ۲۰۱۶ کو اس جہانِ فانی سے کوچ فرما گئے۔
اسلم فرخی ۲۳ اکتوبر ۱۹۲۳ کو لکھنو میں پیدا ہوئے۔ وہ کلاسیک اور جدیدیت کا امتزاج تھے، اسلم فرخی کا ممتاز ادبی کارنامہ اُن کی خاکہ نگاری ہے۔ فرخی صاحب کے خاکوں میں زبان اور پیکر تراشی کے ایسے نمونے ملتے ہیں جو اُردو زبان میں ناپید ہیں۔’’ سات آسمان‘‘ کے نام سے شائع شدہ خاکوں میں میر تقی میرؔ، مرزا رفیع سودا، ؔ خواجہ میر دردؔ، غلام ہمدانی مصحفی، خواجہ حیدر علی آتشؔ، شیخ امام بخش ناسخؔ، محمد ابراہیم ذوق ؔ شامل ہیں۔ یہ خاکے اُن کی جدتِ طبع کا نمونہ ہیں۔
ایک خاکہ انھوں نے حسرت موہانی کا لکھا جو الگ سے کتابی شکل میں شائع ہُوا۔ حسرت کلاسیکی روایت کے ساتھ جدید غزل کہنے والے شاعر تھے۔ فرخی صاحب نے حسرت کو آج کے عہد میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت نظام الدین اولیا پر اُن کا تفصیلی کام بھی شائع ہُوا۔
اسلم فرخی ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انھوں نے متعدد اداروں کے ساتھ کام کیا ۔ وہ جامعہ کراچی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ شعبۂ تصنیف و تالیفِ ترجمہ کے سربراہ بھی رہے۔ اُن کے دور میں اعلیٰ پائے کے تراجم ہوئے۔قدیم متون کی بازیافت میں انھوں نے’’ تذکرہ گلشنِ ہمیشہ بہار‘‘ کو مرتب کیا۔دو جلدوں پر مشتمل ’’محمد حسین آزاد‘‘ پر اُن کا کام ایک یادگار تصنیف ہے۔ یہ مقالہ اُنھوں نے اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے لکھا۔ یہ مقالہ دو دفعہ انجمن ترقی اُردو کراچی سے شائع ہو چکا ہے۔ محمد حسین آزاد پہ اس سے زیادہ وقیع کام ابھی تک سامنے نہیں آیا۔
اسلم فرخی ایک ممتاز علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ساری زندگی اُردو زبان و ادب کی خدمت پر مامور رہے۔ اُن کے بیٹے آصف فرخی خود ایک مایہ ناز ادیب کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ آصف فرخی اپنی والدہ کی طرف سے شاہد احمد دہلوی اور ڈپٹی نذیر احمد تک کے خاندانی سلسلوں سے جڑے ہوئے ہیں۔یہ علمی گھرانہ پچھلی ڈیڑھ صدی سے اُردو کی علمی و ادبی پرورش کرتا آرہا ہے۔
اسلم فرخی صاحب کی وفات سے کراچی کا ہی نہیں بلکہ پوری اُردوادبی دنیا کامنظر نامہ سوگوار ہے۔
ہم دعا گو ہیں کہ مرحوم کو خدا غریقِ رحمت کرے۔