(ڈاکٹر تہمینہ عباس)
اردو زبان و ادب کی تحقیق میں خلیق انجم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ تحقیق کے حوالے سے ان کی بیشمار کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ مرزا رفیع سودا ؔ پر ان کی کتاب کی اردو ادب میں اپنی الگ اہمیت ہے۔ انہیں ماہر غالبیات بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اردو کے ممتاز محقق، نقاد، ادیب، ماہر غالبیات اور انجمن ترقی اردو (ہند) کے نائب صدر تھے۔ نیز انجمن ترقی اردو کے نائب صدر کے عہدے پر کم عمری میں فائز ہوئے اور اپنے انتقال تک اس عہدے پر فائز رہے۔
ڈاکٹر خلیق انجم ۲۲ دسمبر ۱۹۳۵ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ نام خلیق احمد خان اور ادبی نام ڈاکٹر خلیق انجم تھا۔ رفعت سروش، ڈاکٹر خلیق انجم کی جوانی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
’’انجمن تعمیر اردو کے جلسے ہی میں ڈاکٹر خلیق انجم سے تعارف ہوا۔ درمیانہ قد و قامت سوچتی ہوئی آنکھیں، فراخ دل چہرہ کے کشادہ خدوخال سے نمایاں آواز میں دل گداز کھوج، تیکھا لب و لہجہ مگر اس تیکھے لب و لہجے میں ہلکی سی ظرافت کی آمیزش کہ سننے والے کو ناگواری نہ ہو اور کہنے والا اپنی بات مزے سے کہہ جائے۔(رفعت سروش، خلیق انجم، مشمولہ: ڈاکٹر خلیق انجم( شخصیت اور ادبی خدمات) ماہنامہ کتاب نما، جامعہ نگر، نئی دہلی، ۱۹۹۵ء، ص ۲۱)
خلیق انجم اپنے زمانے کی ایک فعال شخصیت تھے۔ زبان و ادب کے وہ محقق جو یہ کہہ کر گوشہ نشین ہوجاتے ہیں کہ لوگوں سے میل جول میں، علمی کام متاثر ہوتا ہے۔ ان کے لیے نامور محقق، دانشور، نقاد، ادیب ڈاکٹر خلیق انجم کی مثال کافی ہے۔ ڈاکٹر خلیق انجم نے مرزا مظہر جان جاناں کے فارسی خطوط کا اردو ترجمہ کیا۔ غالبؔ کی نادر و نایاب تحریروں کو جمع کیا۔ مرزا محمد رفیع سودا پر ایک تفصیلی مقالہ کتاب کی صورت میں تحریر کیا۔ کربل کتھا کا لسانی مطالعہ کیا۔ افادات سلیم مرتب کی۔ متنی تنقید جیسی کتاب لکھی۔ خلیق انجم کا ایک اہم کارنامہ خطوط غالب کی چار ضخیم جلدوں میں ترتیب اور مقدمہ ہے۔ اگر خلیق انجم صرف ان خطوط کی ترتیب اور مقدمے کے علاوہ اور کوئی علمی کام نہ کرتے تب بھی ماہر غالبیات میں اپنی ایک ممتاز حیثیت رکھتے۔ سرسید کی مشہور زمانہ تصنیف ’’آثار الصنادید‘‘ کی تین جلدوں میں تدوین کرکے خلیق انجم نے اپنی علمی مہارت کا ثبوت پیش کیا ہے۔
خلیق انجم کے والد محمد احمد مرحوم ریلوے انجینئر تھے۔ نانا عزیز الرحمن انگریزوں کو اردو پڑھاتے تھے۔ دلی کے لال قلعہ میں انگریزوں کو اردو پڑھانے کا ایک کالج تھا۔ منشی عزیز الرحمن صاحب اس کے پرنسپل تھے۔ فارسی اور اردو کے عالم تھے۔ انھوں نے سات جلدوں میں ’’علم مجلس‘‘ کے نام سے اردو شعروں کی ڈکشنری مرتب کی جو بہت مقبول تھی۔(ڈاکٹر خلیق انجم، کچھ اپنی مدح میں (خودنوشت) مشمولہ: ڈاکٹر خلیق انجم(شخصیت اور ادبی خدمات )ماہنامہ، کتاب نما، جامعہ نگر، نئی دہلی، ۱۹۹۵ء، ص ۱۵۳)
ڈاکٹر خلیق انجم کی والدہ نے دہلی کے فرانسیسی گرلز ہائی اسکول میں اس زمانے میں تعلیم پائی جب مسلمان لڑکی کو تعلیم کے لیے گھر سے باہر بھیجنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ خلیق انجم کی والدہ قیصرہ سلطانہ غیر معمولی ذہین خاتون تھیں۔ مڈل تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد شادی ہوگئی۔ خلیق انجم کی والدہ قیصرہ سلطانہ عزیزی کے نام سے اردو رسالوں میں عورتوں کے سماجی مسائل پر مضامین لکھا کرتی تھیں۔ خلیق انجم کے والد کے انتقال کے بعد خلیق انجم کی والدہ نے لکھنا چھوڑ کر ملازمت کرلی۔ چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ زندگی کی گاڑی کو دھکا لگانا شروع کیا۔ ابتدا میں سلائی اور ٹیوشنز کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اساتذہ کی تربیت حاصل کرکے استاد اور پھر ہیڈ مسٹریس بن گئیں۔ خلیق انجم کی والدہ نے انھیں اور ان کی بہنوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔
خلیق انجم کو اسکول کے زمانے سے ہی شاعری، افسانے اور ناول پڑھنے کا شوق پیدا ہوگیا تھا۔ اسکول کے میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے اور علی گڑھ سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’جھلک‘‘ میں افسانے لکھنا شروع کردیے۔ انٹرمیڈیٹ میں داخلے کے بعد خلیق انجم علی گڑھ چلے گئے۔ جہاں ماہنامہ’’ جھلک‘‘ کے ایڈیٹر متعین ہوگئے۔ ایم اے اردو کرنے کے بعد کروڑی مل کالج میں لیکچرر ہوگئے۔ خلیق انجم کی سب سے پہلی کتاب ’’معراج العاشقین‘‘ تھی۔ ڈاکٹر خلیق انجم کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع ’’مرزا مظہر جان جاناں‘‘ تھا۔ اسی دوران خلیق انجم مرزا رفیع سوداؔ پر بھی مواد اکٹھا کرتے رہے اور سوداؔ پران کی کتاب انجمن ترقی اردو ہند سے شائع ہوئی۔
ڈاکٹر خلیق انجم کی تقریباً ۸۰ کتابیں مختلف موضوعات پر شائع ہوچکی ہیں۔ ڈاکٹر خلیق انجم نے اپنے آپ کو ادب کی کسی ایک صنف تک محدود نہیں رکھا بلکہ مختلف اصناف ادب کو اپنی تحقیق اور تنقید کا مرکز بنایا۔ ۱۹۶۲ء میں پی ایچ ڈی کیا۔ لائبریری سائنس میں ڈپلومہ اور لسانیات میں ڈپلومہ جامعہ دلی سے لیا۔ وہ صرف ۳۷، ۳۸ میں انجمن ترقی اردو میں اس عہدے پر فائز ہوئے جس پر ان سے قبل آل احمد سرور، قاضی عبدالغفار اور مولوی عبدالحق فائز تھے۔
خلیق انجم نے اپنی خودنوشت میں تحریر کیا ہے کہ میں پہلے تنقید کے میدان میں آیا تھا لیکن قدرت کو میرا نقاد ہونا منظور نہ تھا۔ بعد میں تحقیق کو اپنا میدان بنایا۔ مجھے اطمینان ہے کہ خدا نے مجھے جتنی صلاحیتیں دی تھیں میں نے ان کا پورا استعمال کیا ہے اور میں نے قلم کے تقدس کا ہمیشہ احترام کیا ہے اور کبھی کچھ ایسا نہیں لکھا جس سے ذاتی مفاد حاصل ہو۔ حالانکہ میں نے اپنے بیشتر ہم عصروں کو اس مرض میں مبتلا پایا۔
ڈاکٹر خلیق انجم کی تقریبا ۸۰ کتابیں منظر عام پر آئیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔
۱۔ معراج العاشقین، ۱۹۵۷ء
۲۔ تاراس بلبا، ۱۹۵۷ء مترجم انگلش سے اردو (ناول)
۳۔ مرزا مظہر جان جاناں کے خطوط ۱۹۶۰ء مترجم فارسی سے اردو
۴۔ غالب کی نادر تحریریں، ۱۹۶۱ء مرتبہ
۵۔ بڑھے چلو۔ قومی نظموں کا انتخاب
۶۔ مرزا محمد رفیع سودا، ۱۹۶۵ء
۷۔ متنی تنقید، ۱۹۶۷ء
۸۔ کرنل کتھا کا لسانی مطالعہ ۱۹۷۰ (مرتبین، ڈاکٹر خلیق انجم، پروفیسر گوپی چند نارنگ)
۹۔ اصناف ادب، ۱۹۷۰ء، (مرتبین ڈاکٹر خلیق انجم، پروفیسر قمر رئیس)
۱۰۔ افادات سلیم، ۱۹۷۲، مرتبہ
۱۱۔ ضبط شدہ نظمیں، مرتبین، ڈاکٹر خلیق انجم و مجتبیٰ حسن
۱۲۔ غالب اور شاہان تیموریہ
۱۳۔ ابن الوقت، ۱۹۸۰، مرتبہ
۱۴۔ فیض احمد فیض تنقیدی جائزہ، ۱۹۸۴ء، مرتبہ
۱۵۔ سید سلیمان ندوی، ۱۹۵۷ء، مرتبہ
۱۶۔ مشفق خواجہ ایک مطالعہ، ۱۹۸۵ء، مرتبہ
۱۷۔ غالب کے خطوط (اوّل) ۱۹۴۷ء مرتبہ
۱۸۔ غالب کے خطوط (دوم) ۱۹۴۷ء مرتبہ
۱۹۔ غالب کے خطوط (سوم) ۱۹۸۶ء مرتبہ
۲۰۔ غالب کے خطوط (چہارم) ۱۹۹۳ء مرتبہ
۲۱۔ رسوم دہلی، ۱۹۸۵ء، مرتبہ
۲۲۔ دلی کی درگاہ شاہ مرداں، ۱۹۸۸ء، مرتبہ
۲۳۔ دلی کے آثار قدیمہ، ۱۹۸۸ء، مرتبہ
۲۴۔ انتخاب خطوط غالب، ۱۹۸۹ء، مرتبہ
۲۵۔ محی الدین قادری زور، ۱۹۹۰ء، مرتبہ
۲۶۔ آثار الصنادید (تین جلدوں میں) ۱۹۹۰ء، مرتبہ
۲۷۔ جوش ملیح آبادی (تنقیدی جائزہ) ۱۹۹۲ء، مرتبہ
۲۸۔ اختر انصاری: شخص اور شاعر، ۱۹۹۰ء، مرتبہ
۲۹۔ مولوی عبدالحق، ادبی اور لسانی خدمات، جلد اوّل، ۱۹۹۲ء، مرتبہ
۳۰۔ مرقع دہلی، ۱۹۹۳ء، مرتبہ
۳۱۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری (شخصیت اور ادبی خدمات) ۱۹۹۲ء، مرتبہ
۳۲۔ پروفیسر آل احمد سرور (شخصیت اور ادبی خدمات) ۱۹۹۳ء، مرتبہ
۳۳۔ خواجہ احمد فاروقی (شخصیت اور ادبی خدمات) ۱۹۹۳ء، مرتبہ
۳۴۔ جگن ناتھ آزاد، حیات اور ادبی خدمات، ۱۹۹۳ء، مرتبہ
۳۵۔ مولوی عبدالحق، ادبی اور لسانی خدمات (جلد دوم) ۱۹۹۳ء، مرتبہ
۳۶۔ پنڈت آنند نرائن کی ادبی خدمات ۱۹۹۵ء، مرتبہ
۳۷۔ قاضی عبدالغفار، ۱۹۹۵ء، مرتبہ
۳۸۔ سرسید، ایک کثیر الجہات شخصیت، ۱۹۹۵ء، مرتبہ
۳۹۔ انتخاب کلام حسرت موہانی، ۱۹۹۵ء، مرتبہ
۴۰۔ حسرت موہانی، ۱۹۹۴ء، مصنف
۴۱۔ فن ترجمہ نگاری، ۱۹۹۵ء، مرتبہ
۴۲۔ مولوی عبد الحق (بچوں کے لیے)
۴۳۔مولانا ابو الکلام آزاد (شخصیت اور کارنامے
اردو زبان کے یہ نامور محقق ۱۸ اکتوبر ۲۰۱۶ء کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔