(ترجمہ: یاسر چٹھہ)
نوٹ: فرید زکریا کا یہ مضمون جس کا ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے مورخہ 27 اکتوبر 2016 کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا۔
امریکی صدارتی انتخاب کیلئے جاری حالیہ مہم کے اختتامی دنوں کے عالم میں اس چیز کے مشاہدے پر میری حیرانی ختم ہونے کو نہیں آ رہی کہ آخر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مہم اتنے غیر موثر اور ٹوٹے پھوٹے طور طریقے سے کیوں چلائی ہے؟ ٹرمپ کی مہم کی شروعات تین اہم توانا ستونوں پر کھڑی تھی۔ ڈیموکریٹس مسلسل تیسری بار وائٹ ہاؤس کے حصول کے لئے میدان میں اترے تھے۔ یہ ایک ایسی کامیابی کے حصول کی کوشش تھی جسے کوئی بھی امریکی سیاسی جماعت پچھلے 80 سالوں میں محض دو بار ہی اپنے نام کرنے کے قابل ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ معاشی نمو اور آمدنیوں میں بڑھوتری کی رفتار بہت سست روی کا شکار رہی ہیں۔ اس پر ڈیموکریٹس کی جانب سے ہیلری کلنٹن جیسی امیدوار کو میدان میں اتارا جانا، جن کے خلاف ایک فضا پہلے سے ہی تیار تھی؛ اور جن کی شخصیت سے کسی طور پر بھی کسی قسم کی تبدیلی کی تمنا رکھنے والے رائے دہندگان کی بے تابی کو قرار آنا ممکنات کے علاقے میں دخل نا رکھتا تھا۔ ان وجوہات کو زیر نظر رکھتے ہوئے امریکی انتخابات میں کامیابی کی پیش گوئی کرنے والے دانش و عقل کے موجودہ سانچے اگر کچھ بتاتے سکتے تھے تو وہ کسی عمومی رنگ و آہنگ کے ریپبلیکن کی کامیابی کے تھے۔
لیکن ٹرمپ ایک عمومی رنگ و آہنگ کے ریپبلیکن تو کسی صورت نہیں ہیں۔ عین اسی طور پر، ان کی انتخابی مہم بھی کسی انداز کے جانے مانے خطوط پر استوار نہیں۔ ان کی حکمت عملی کی تشکیل سے ہی آغاز کر لیجئے۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح تھی کہ ٹرمپ کو اپنی مہم کو اپنے عام طور پر جانے پہچانے حامیوں کے مرکز میں سے شروع کرکے باہر کے اکثریتی حلقوں کی طرف کام کرنا چاہئے تھا؛ مطلب یہ کہ انہیں ہسپانوی اور ایشیائی کمیونیٹیز، خواتین اور کالجوں کے تعلیم یافتہ سفید فام رائے دہندگان کی طرف مراجعت کرنا چاہئے تھی۔ ٹرمپ نے تو ایک بار یہ بھی کہنے سے نہیں چوکے تھے کہ ان کے جانثار حامی ان کے ساتھ اس صورت میں بھی منسلک رہیں گے بے شک انہیں کسی دن یہ بھی پتا چل جائے کہ انہوں ( یعنی ٹرمپ) نے ففتھ ایوینیو پر دن دیہاڑے کسی کو گولی مار کر ہلاک کردیا ہو۔ اس طرح ان کے پاس نئے رائے دہندگان کو اپنی طرف کھینچ لانے کا بڑا وسیع میدان اثر پذیر موجود تھا۔ بہت سارے ریپبلکن پارٹی کی طرف جھکاؤ رکھنے والے رائے دہندگان بڑی بے چینی سے اپنے لئے ایک مرکز کی تلاش میں رہے۔ وہ بڑی خوشی سے ایک برائے نام دعوت پر ہی ان کی طرف جوش و خروش سے بھاگتے آنے کو تیار تھے۔ لیکن ہوا کچھ یوں کہ ٹرمپ نے ان نئے گروہوں میں سے ممکنہ طور پر دستیاب حامیوں کو ناراض کر دینے میں بنیادی انتخابات (primaries) کے دوران کے روا رکھے رویے سے بھی آگے نکل گئے۔
یا اسی کو لے لیجئے جیسا انہوں نے اپنے سٹاف کے انتظامی بندوبست کے متعلق چلن دکھایا ہے۔ ابھی پچھلے چند ہی مہینوں میں ان کی انتخابی مہم کی دو مختلف ٹیمیں تبدیل ہوئیں۔ اس وقت وہ اپنی انتخابی مہم کے تیسرے منتظم کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ان کے مختلف حلقہ جات میں دفاتر کی کل تعداد، ہیلری کلنٹن کے دفاتر کی تعداد کی نسبت آدھی سے بھی کم ہے۔ ان کی چندہ جمع کرنے کی استطاعت نسبتا انتہائی محدود ہے، اور ان کی جانب سے مسلسل طور پر کمزور اور بددلی سے بنائے گئے انتخابی اشتہارات ہیں۔
حالیہ برسوں میں انتخابی مہموں کے سلسلے میں، ووٹ کو کھینچ نکالنے کی تدبیریں، اور اعداد و شمار کے ذخیرہ کے استعمال پر مشتمل دو اہم جدتیں سامنے آئی ہیں۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم ان دونوں پیمانوں پر پورا اترنے سے قاصر رہی ہے۔ ییل یونیورسٹی (Yale University) کے ماہر امور سیاسیات، ایلن گربر کی اس بابت تحقیق و مطالعہ بنیاد گذار کے درجہ اور اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا اس متعلق مشاہدہ اور رائے ہے کہ امکانی ووٹروں کو باقاعدہ اپنے حامی رائے دہندگان میں بدلنے کے سلسلے میں جن چیزوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے ان میں، “رضا کاروں کے فون نمبروں کے خطیر ذخیرے کا دسترس میں ہونا، اور رائے دہندگان کے رو برو جا کر ان کا ووٹ مانگنا، مزید یہ کہ ایسے تمام حربے جن میں منصوبہ بندی، نگرانی، اور مسلسل کوششیں اسی سطح پر بروئے کار لانا،” شامل ہیں۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم اس محاذ پر بھی بہت پیچھے رہی ہے۔
ٹرمپ اس بات کی بابت شکوک و شبہات کا ہی شکار رہے ہیں کہ محض اعداد و شمار کی کوئی خاص اہمیت ہو سکتی ہے یا نہیں۔ وہ صدر اوباما کے نہایت نفاست اور باریک بینی سے برت میں لائے اعداد و شمار کے طریقہ و عمل کو اپنے تئیں رد کرتے آئے ہیں۔ وہ اس بات پر ہی پکی قسم کھائے بیٹھے ہیں کہ کسی بھی صدر کے منتخب ہونے کے لئے اس کی شخصیت ہی بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ان کے اس یقین کی وجہ سے ٹرمپ کی ساری انتخابی مہم کا محور ان کی ذات ہی رہی ہے۔ اس رویے نے ان کی مہم کو ایک کثیر جہت سیاسی انتخابی مہم کی بجائے ایک سیلیبرٹی کانسرٹ (celebrity concert) زیادہ بنا دیا ہے۔
( واشنگٹن پوسٹ اخبار کے فلپ بمپ کے مطابق، ٹرمپ نے اپنے انتخاب پر اتنے پیسے نہیں خرچے جتنے انہوں نے نئے ہیٹ خریدنے کے لئے پیسے صرف کردیئے ہیں۔) ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سینئر ارکان نے اس صورتحال کا کسی قدر اثر زائل کرنے کی کوشش، بلومبرگ بزنس ویک، کو ان کے سینٹ اینٹونیو کے مقام پر اعداد و شمار کے مرکز کے متعلق رپورٹ جاری کرنے کی اجازت دے کر کی۔ لیکن ماہرین نے میرے سامنے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ ٹرمپ کا اعداد و شمار کے متعلق مرکز، ایک چھوٹا سا دفتر لگتا ہے؛ ایک ایسا دفتر جس میں زور اس حقیقت کو مزید ابھار کر پیش کرنے پر تھا کہ ٹرمپ اپنے مرکز نگاہ حامیوں سے کس قدر قریب ہیں، نہ کہ انہیں ایسی کسی کوشش میں دکھایا گیا ہو کہ وہ نئے رائے دہندگان کو تلاش کرتے اور انہیں اپنے حق میں ووٹ دینے کے لئے قائل کرتے دکھائی دیتے۔ یہ کسی قسم کے انتخابات کے بعد اپنی سیاسی بنیادوں کے ساتھ مضبوطی سے جڑے رہنے کا ایک اچھا حوالہ، یا کسی نئے آنے والے آن لائن ٹیلی ویژن کا پلیٹ فارم تو قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن اسے کسی قسم کے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے لئے کی جانے والی کسی اچھی انتخابی مہم کا چال چلن ہر گز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس صورتحال کے بالکل بر عکس، ہیلری کلنٹن نے بڑے موثر انداز سے اپنی انتخابی مہم چلائی ہے۔ ان کی انتخابی مہم بہت ساری رقم بطور چندہ جمع کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ وہ اپنے تیار کردہ اور پھیلائے ہوئے پیغام پر بغیر کسی لغزش و جھول کے کار بند رہی ہیں۔ انہوں نے اعداد و شمار پر مبنی تجزیات کے نظام کو بطریق احسن طور پر بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف کچھ خاص زاویہ ہائے نظر کے رائے دہندگان کے گروہوں پر نظریں ٹکائیں، بلکہ انہیں اپنی حمایت میں لے آنے میں بھی کامیاب ہو گئیں۔ ان کی طرف سے اپنی انتخابی مہم کے لئے تیار کردہ اشتہارات، ان اشتہارت کو جاری کرنے کے لئے مناسب ترین وقت کے انتخاب اور انہیں نہایت احتیاط سے صرف مخصوص دلچسپی کے حامل افراد تک پہنچانے میں ان کی تیز طراری کی حامل ذہانت واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ ہیلری کلنٹن پر وکی لیکس کی جانب سے گرائے جانے والے ای میل سکینڈل کے ملبے کے باوجود، ان کی انتخابی مہم یکسو، مربوط اور منظم صورت میں عمل پذیر رہی ہے۔
نتائج تو پہلے ہی آن پہنچے ہیں۔ سی این این نے قبل از انتخابات رائے شماری کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا ہے۔ یہ اعداد و شمار کا تجزیہ اس بات کا کھلے بندوں اقرار کرتا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے سنہ 2012 کی نسبت قابل ذکر حد تک نئی حاصل شدہ زمین پر قدم جما لئے ہیں۔ انہوں نے ایسی بنیادی اہمیت کی حامل ریاستوں جیسے کہ ایریزونا، شمالی کیرولائنا، نیواڈا، اور یہاں تک کہ یوٹا جیسی ریاست میں بھی قدم جمائے ہیں جن میں قبل از انتخابات رائے شماری کرانے کی اجازت میسر ہے۔ اعداد و شمار جمع کرنے والے ادارے پولیٹیکو (Politico) کے مطابق فلوریڈا میں ریپبلیکن پارٹی کی، وقت سے پہلے ہونے والے انتخابات میں اس پیر کے روز تک، برتری پانج فیصد سے کم ہوتے ہوئے 1.7 فیصد کی سطح تک گھٹ کر آ گئی۔ اس سلسلے میں کارل روو (Carl Rove) موجودہ صورتحال کو دیکھ کر تبصرہ کرتے ہیں کہ ٹرمپ کی پیش گوئیوں کے برعکس، دور کہیں سایوں میں چھپے ریپبلیکن پارٹی کے حامی نمودار نہیں ہو رہے۔ ملک و قوم ایک بڑی سطح کی کی تقسیم کا شکار ہے، اور ایسا کہنا چنداں آسان نہیں کہ انتخابات والے دن نا جانے کیا سے کیا ہو جائے۔ لیکن ٹرمپ کے لئے نظر آنے والی نشانیاں کسی زاویے سے بھی اچھی نہیں۔
وائٹ ہاؤس میں اپنے لئے جگہ پکی کرنے کے لئے ایک اہم آزمائش اس کی خاطر جدید وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ صدارتی انتخابی مہم چلانا ہے۔ ایک ایسی انتخابی مہم جس میں پچاس ریاستوں پر محیط وسیع و بسیط مہم ہمہ وقت کی شروعات کرنا ہیں۔ یہ چیز فی نفسہ کئی ہزاروں ملین ڈالروں کا معاملہ ہے۔ اس کےلئے ایک واضح حکمت عملی کے علاوہ، ایک بہت عمدہ قسم کی ایسی صلاحیت سے بہرہ ور ہونے کی اس ضرورت ہوتی ہے، جس میں تسلسل کا پہلو ہمہ دم موجود ہو۔ یہ تسلسل ایک بہترین قسم کے عملدر آمد کے شانوں پر کھڑا ہو۔ جس کی جانب ایک ایک قدم کی پیش قدمی پر دیکھنے پرکھنے والے نامہ نگاروں اور رپورٹروں نے گہری نظریں گاڑی ہوں۔ فی الوقت تو اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ موجودہ تاریخ میں ٹرمپ کی طرف سے چلائی جانے والی انتخابی مہم سب سے بد ترین انداز میں وسائل کے استعمال کو بروئے کار لانے والی، نظم و ضبط سے عاری، اور بغیر کسی سر پیر کے چلائی جانے والی مہم ہے۔ ٹرمپ اس صفت کے باوصف ہیں، جو کسی بھی سیاسی و غیر سیاسی رہنما کی سب سے بڑی ناکامی کا واضح ثبوت ہوتا ہے: یعنی، صرف باتوں کے کھیت کی کاشت کرنے والے، لیکن کسی بھی قسم کے عمل سے مطلق تہی دامنی کا شکار۔