ڈیورنڈ لائن کے حقائق اور افسانے
(سفیراللہ خان)
راقم نے حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان جھگڑے کی بنیادی وجہ قرار دیا تھا۔ اس وقت ڈیورنڈ لائن سے متعلق مواد کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ خیال آیا کہ اس پر اردو میں مزید لکھنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ عام پاکستانی بالخصوص عام پختون اپنے مسائل کو درست تناظر میں دیکھنے ، سمجھنے اور انہیں حل کرنے کے قابل ہو سکیں۔ ڈیورنڈ لائن ایک متنازعہ سرحد ہے۔ افغانستان نے ابتداء ہی سے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ تاہم دلائل اور جوابی دلائل کی بھرمار میں حقائق کہیں کھو گئے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے ہم نے درج ذیل سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے؟
کیا ڈیورنڈ معاہدہ سو برس کے لئے تھا؟ کیا یہ معاہدہ ۱۹۹۳ء میں ختم ہو گیا؟
کیا ڈیورنڈ معاہدے پر دستخط افغانستان نے مجبوری میں کئے تھے؟ کیا یہ دلیل اس معاہدے کو ختم کرنے کی وجہ ہو سکتی ہے؟
کیاڈیورنڈ معاہدہ افغانستان اور برطانیہ کے درمیان تھا اور برطانیہ کے چلے جانے کے بعد یہ معاہدہ خود بخود ختم ہو گیا؟
کیا ڈیورنڈ معاہدہ مستقل بین الاقوامی سرحد کے تعین کے لئے تھا ہی نہیں؟
بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں ڈیورنڈ لائن کی حیثیت کیا ہے؟
یہ علاقے پہلے افغانستان کا حصہ تھے ۔ کیا اب یہ علاقے افغانستان کو واپس ملنے چاہئے؟
ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف افغان/پختون آباد ہیں، انہیں ایک کر دیا جانا چاہئے؟
زمینی حقائق کی روشنی میں پاک افغان سرحدی جھگڑے کا بہترین حل کیا ہے؟
آئیے اب باری باری ان تمام سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۱۔ کیا یہ معاہدہ سو برس کے لئے تھا؟
اس سوال کا فوری اور واضح جواب یہ ہے کہ یہ بات قطعی غلط ہے ۔ معاہدے کا اصل متن دستیاب ہے جس کی کل سات شقیں ہیں اور ان میں کہیں بھی یہ درج نہیں ہے کہ یہ معاہدہ سو سال کے لئے ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ غلط فہمی کیسے پیدا ہوئی اور کیوں اتنی شدت اختیار کر گئی۔ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف نہ صرف عام لوگ بلکہ بڑے بڑے سیاسی لیڈر بھی یہی سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ سو سال کےلئے تھا۔ پاکستان میں تو صوبہ سرحد (موجودہ پختونخواہ) کے گورنر خلیل الرحمٰن نے ستمبر ۲۰۰۵ء میں کہا” ڈیورنڈ معاہدے کی مدت ختم ہو گئی ہے اور میں نے وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ اس کی تجدید کرائی جائے”۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیورنڈ معاہدے کی مدت سو سال نہیں تھی بلکہ یہ معاہدہ افغانستان کے امیر عبدالرحمان خان اور برطانوی حکومت کے درمیان تھا ۔ اس معاہدے کی نوعیت شخصی تھی ، ریاستی نہیں۔ یعنی یہ معاہدہ افغانستان اور برطانیہ کے درمیان نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ اسے امیر عبدالرحمان اور برطانیہ کے درمیان سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ امیر عبدالرحمان کی وفات(سال ۱۹۰۱ء) کے بعد برطانوی حکومت نے بہت اصرار کے ساتھ ان کے جانشین امیر حبیب اللہ خان کے ساتھ اس معاہدے کی تجدید کروائی۔ وائسرائے لارڈ کرزن کے بھرپور اصرا رکے باوجود امیر حبیب اللہ نے ہندوستان کا دورہ نہ کیا اور پیغام دیا کہ وہ اپنے والد کے کئے ہوئے تمام معاہدوں کا پابند ہے مگر مغربی کلچر میں زبان کی اتنی اہمیت نہیں اور وہ لوگ لکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ چنانچہ ۱۹۰۵ ء میں برطانوی حکومت کے ایک نمائندے نے کابل کا دورہ کیا جہاں ایک نئے معاہدے پر دستخط کئے گئے۔ اس معاہدے میں ایک شق یہ تھی کہ امیر حبیب اللہ ڈیورنڈ معاہدے پر ویسے ہی عمل درآمد کریں گے جیسے ان کے والد امیر عبدالرحمان کرتے رہے یعنی کہ ڈیورنڈ معاہدے کی من و عن تجدید کر دی گئی۔ تاہم یہ معاہدہ بھی شخصی نوعیت کا تھا اور ۱۹۱۹ء میں حبیب اللہ خان کے قتل پر ایک بار پھر اس کی تجدید کی ضرورت پڑ گئی۔
حبیب اللہ خان کے قتل کے بعد جانشینی کے مسئلے پر کافی لے دے ہوئی اور پہلے پہل تو حبیب اللہ خان کے بھائی نصراللہ خان سات دن کے لئے تخت نشین ہوئے مگر انہیں فوری طور پر ہٹا دیا گیا اور حبیب اللہ خان کے بیٹے امان اللہ خان تخت نشین ہو گئے۔ امان اللہ خان نے افغانستان کی مکمل آزادی کا اعلان کر دیا۔ یاد رہے کہ لگ بھگ چالیس سال سے افغانستان ایک اور معاہدے کا بھی پابند چلا آرہا تھا۔ یہ معاہدہ گندمک کا معاہدہ کہلاتا ہے اور اس پر ۱۸۷۹ ء میں دوسری اینگلو افغان جنگ کے بعد دستخط ہوئے تھے۔ یہ جنگ افغانستان ہار گیا تھا اور اس معاہدے کی رو سے افغانستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر کوئی اختیار نہیں تھا۔ وہ خارجی امور میں برطانیہ کے مشورے کا پابند تھا۔
امیر امان اللہ خان نے جلد ہی خیبر ایجنسی پر فوج کشی کر دی اور یوں تیسری اینگلو افغان جنگ کا آغاز ہو گیا۔ یہ جنگ پہلی دو جنگوں کے مقابلے میں بہت مختصر ثابت ہوئی ۔ چھ مئی ۱۹۱۹ءکو اس کا آغاز ہو ا تو ۸ اگست ۱۹۱۹ء کو اختتام۔ جنگ کا کوئی واضح فاتح تو نہیں نظر آتا۔ ایک طرف ہمیں برطانیہ فاتح لگتا ہے کہ اس نے افغان جارحیت کو روک لیا کیوں کہ افغان فوجیں برطانیہ کے قبضے سے کوئی علاقہ چھڑا نہ سکیں۔ تاہم دوسری طرف افغانستان ہمیں اس حوالے سے فاتح نظر آتا ہے کہ افغانستان نے اپنی آزادانہ حیثیت منوا لی اور اپنی آزادانہ خارجہ پالیسی کا حق واپس لے لیا۔
تیسری اینگلو افغان جنگ کے بعد بھی ایک نیا معاہدہ عمل میں آیا جس کا سب سے اہم نکتہ تو یہی تھا کہ افغان اپنی خارجہ پالیسی میں آزاد ہوں گے ۔ تاہم دیگر نکات میں برطانیہ کی طرف سے سالانہ ملنے والی اٹھارہ لاکھ روپے کی امداد کی بندش اور ڈیورنڈ لائن معاہدے کی پاسداری بھی شامل تھے۔اس معاہدے کی شق ۵ میں لکھا ہے: “افغان حکومت امیر حبیب اللہ خان کی تسلیم شدہ افغان ہندوستان سرحد کو تسلیم کرتی ہے”۔
اس معاہدے کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس بار یہ معاہدہ شخصی نوعیت کا نہیں تھا بلکہ اس میں افغان ریاست اور حکومت کا ذکر تھا۔ یوں پہلی بار ڈیورنڈ معاہدہ ایک فرد اور ایک ریاست کے درمیان ہونے کی بجائے دو ریاستوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کی حیثیت اختیار کر گیا اور بین الاقوامی معاہدہ تصور کیا جانے لگا جس کی تجدید کی ضرورت بھی نہیں رہی۔اس معاہدے پر آٹھ اگست ۱۹۱۹ء کو راولپنڈی میں دستخظ کئے گئے۔
اس کے بعد بھی ہر سال دو سال کے بعد بہت سے معاہدے کئے گئے۔۱۹۲۱ ء میں کابل معاہدہ ہوا جس میں یہ گنجائش موجود تھی کہ تین سال بعد کوئی ایک پارٹی اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کر سکتی تھی تاہم اس وقت کے افغان حکمران امان اللہ خان نے اس کے خاتمے کا کوئی اعلان نہیں کیا۔ ۱۹۲۳ء میں ایک اورمعاہدہ کیا گیا۔ ان سب معاہدوں میں ایک قدر مشترک تھی اور وہ یہ کہ سب نے ڈیورنڈ معاہدے کی توثیق کی۔ ۱۹۳۰ء میں امیر نادر خان نے مزید ایک معاہدہ کیا جس میں گزشتہ معاہدوں بشمول ڈیورنڈ معاہدہ کی توثیق کی گئی۔
اس ساری تفصیل سے یہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ معاہدہ وقتی نوعیت کا نہیں رہا اور ۱۹۱۹ء میں ہونے والے معاہدے کی رو سے اس کی شخصی حیثیت بھی ختم ہو گئی۔ چنانچہ یہ دوآزاد ریاستوں کے درمیان ہونے والے بین الاقوامی معاہدے کی شکل اختیار کر گیا جس کے اختتامی مدت کا کوئی بھی تحریری ثبوت تاریخ سے نہیں ملتا۔
۲۔ کیا ڈیورنڈ معاہدے پر دستخط افغانستان نے مجبوری میں کئے تھے؟ کیا یہ دلیل اس معاہدے کو ختم کرنے کی وجہ ہو سکتی ہے؟
اس بات پر مؤرخین میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔بعض مؤرخین نے امیر عبد الرحمان کی اپنی ڈائیریوں سے ایسے اقتباس پیش کئے ہیں جن میں وہ بڑے فخر سے اس معاہدے پر دستخط ہونے کا ذکر کرتے ہیں۔ تاہم انہی ڈائریوں سے یہ بھی ثابت کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے علاقے چھن جانے پر ناخوش تھے۔ انہوں نے برطانوی افسران کو لکھے ہوئے ایک خط میں انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ قبائلی علاقے ان کے پاس رہنے دئے جائیں اور یہ دلیل پیش کی کہ قبائلی علاقوں پر برطانیہ سکون سے حکمرانی نہیں کر پائے گا۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ اس معاہدے سے بہت پہلے ہی پشاور، مردان، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان اور نوشہرہ کے اضلاع عملی طور پر انگریزوں کے قبضے میں تھے۔ اس معاہدے کے تحت جن اضلاع سے امیر عبدلرحمان نے دستبرداری کا اعلان کیا ان میں چترال، موجودہ قبائل علاقے، وزیرستان ، چمن اور چاغی کے علاقے شامل ہیں۔
زبردستی کےمعاہدے کے خلاف کئی مزید دلائل بھی دئے جا سکتےہیں جیسے کہ:
۱۔ امیر عبدالرحمان کی طرف سے اس معاہدے سے انکار کرنے کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ انگریز ہر بات جتنی تفصیل کے ساتھ لکھتے تھے تو یہ بات بھی کہیں نہ کہیں لکھی ہوئی مل جاتی۔ برطانیہ ایک طاقتور ملک تھا اور انگریزوں کو اُس زمانے میں اپنی طرف سے کی گئی بدمعاشی کو چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
۲۔ ڈیورنڈ مارٹیمر کے ساتھ مذاکرات لگ بھگ ایک مہینہ چلتے رہے اور اس میں انگریزوں نے کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اپنائے رکھی۔ اس کی ایک مثال وزیرستان کا علاقہ بیرمل چھوڑدینا ہے ۔ مجبوری میں کئے گئے معاہدوں میں کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی نہیں ہوا کرتی۔
۳۔ اس معاہدے سے پہلے بھی برطانیہ افغانستان کو بارہ لاکھ روپے کی امداد دیا کر تا تھا۔ اس معاہدے کے تحت یہ امدادی رقم بارہ لاکھ سے بڑھا کر اٹھارہ لاکھ روپے سالانہ کر دی گئی۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ زبردستی کے معاہدوں میں ایسی امدادی رقمیں نہیں دی جاتیں۔ تاہم یہ کوئی حتمی بات نہیں ہے۔ طاقتور قومیں کمزور قوموں کو ہمیشہ اپنی طاقت کے زور پر رام نہیں کرتیں بلکہ کبھی کبھی دے دلا کر بھی رام کرتی ہیں۔
۴۔ برطانیہ اور روس کے درمیان افغانستان میں اپنا اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کا مقابلہ چل رہا تھا۔ چنانچہ برطانیہ افغانستان پر ایک حد سے زیادہ دھونس نہیں جما سکتا تھا کیوں کہ افغانستان کے روس کے زیر اثر چلے جانے کا ڈر حقیقی تھا۔ ایسے میں برطانیہ مکمل طور پر اپنی من مرضی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
تاہم میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس حوالے سے دو رائے نہیں ہونی چاہئے کہ یہ معاہدہ مجبوری میں کیا گیا تھا۔ کوئی بھی ملک (یا حکمران) اپنے علاقے خوشی خوشی کسی کے حوالے نہیں کرتا۔ حق بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں جتنے بھی بین الاقوامی معاہدے ہوتے ہیں وہ مجبوری ہی میں کئے جاتے ہیں کیوں کہ ایسا بہت کم ممکن ہے کہ دو ایک جیسی طاقت کی حامل ریاستیں معاہدہ کرنے جارہی ہوں۔ دونوں میں سے ایک کمزور اور دوسری طاقتور ہوتی ہے۔
لیکن بات یہ ہے کہ مجبوری میں کئے ہوئے معاہدوں کی بھی پاسداری کرنی ہوتی ہے۔ کیا پاکستان کی سرحدیں پاکستان کی مرضی سے طے کی گئی تھیں؟ ہندوستان کو کاٹ کر پاکستان بنایا گیا تھا تو ظاہر ہے کہ کانگریس نے یہ سرحد(ریڈ کلف ایوارڈ) مجبوراً تسلیم کر لی تھی۔ پاکستان بھی ریڈکلف ایوارڈ سے خوش نہیں ہے اور کم از کم ضلع گورداس پور پر آج بھی اپنا حق جتاتا ہے۔ اسی طرح دیگر ریاستوں کی تاریخ پڑھی جائے تو کئی ایسی ریاستیں سامنے آئیں گی جو اپنی سرحدوں کے حوالے سے مطمئن نہیں۔ لہٰذا یہ دلیل کہ افغانستان نے مجبوراً یہ سرحدی معاہدہ قبول کیا تھا اور اب اس کا پابند نہیں رہا کچھ زیادہ وزن نہیں رکھتی۔ اگر بین الاقوامی برادری اس دلیل کو تسلیم کر لے توساری دنیا اتھل پتھل کا شکار ہوجائے گی۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان کی شمالی سرحدیں روس اور برطانیہ کے درمیان معاہدے کے نتیجےمیں طے ہوئیں جبکہ جنوبی سرحدیں ایران اور برطانیہ کے درمیان معاہدے کے نتیجےمیں طے ہوئی تھیں۔ یہ معاہدے بڑی طاقتوں نے افغانستان سے بالا ہی بالا طے کر لئے تھا افغانستان ان معاہدوں میں شریک بھی نہیں تھا۔ ڈیورنڈ معاہدہ واحد معاہدہ ہے جو خود افغانستان کے حکمرانوں کے ساتھ طویل مشاورت اور بحث مباحثے کے بعد طے ہوا۔ افغانستان اسی معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے جو خود افغانستان نے کیا۔ جو معاہدے بڑی طاقتوں نے خود ہی کر لئے تھے ان معاہدوں کی صحت پر افغانستان کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں آیا۔
۳۔ کیاڈیورنڈ معاہدہ افغانستان اور برطانیہ کے درمیان تھا اور برطانیہ کے چلے جانے کے بعد یہ معاہدہ خود بخود ختم ہو گیا؟
بین الاقوامی قوانین کے مطابق جب کوئی ریاست ٹوٹ جاتی ہے تو اس کے ٹوٹنے کے نتیجے میں ایک یا زیادہ نئی ریاستیں وجود میں آتی ہیں۔ پرانی ریاست کی ذمہ داریاں اور معاہدے نئی قائم ہونے والی ریاست یا ریاستوں کو منتقل ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان کے پڑوس میں جب کمیونسٹ روس کی ٹوٹ پھوٹ ہوئی اور وسطی ایشیائی ریاستیں وجود میں آئیں تو اس کے نتیجے میں افغانستان نے ان تمام ریاستوں کے ساتھ اپنی سرحدوں کے حوالے سے دوبارہ سے کوئی معاہدے نہیں کئے بلکہ آج بھی وہ سرحدیں کمیونسٹ روس سے بھی پہلے کی روسی سلطنت کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے تحت قائم ہیں۔ افغانستان کی طرف سے یہ سوال کبھی نہیں اٹھایا گیا کہ وہ معاہدے (جن میں افغانستان بطور فریق شریف بھی نہیں تھا ۔ یہ معاہدے برطانیہ اور روس کے درمیان ہوئے تھے) روسی سلطنت کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے ختم ہو گئے ہیں ۔
۴۔ کیا ڈیورنڈ معاہدہ مستقل بین الاقوامی سرحد کے تعین کے لئے تھا ہی نہیں؟
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ ۱۹۱۹ء میں ہونے والے معاہدے میں برطانیہ کی طرف سے افغانستان کو مکمل طور پر آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا اور وہ معاہدہ دو آزاد ریاستوں کے درمیان تھا اور اس معاہدے میں ڈیورنڈ معاہدے کی توثیق کر دی گئی تھی تو یہ سوال ختم ہو جاتا ہے۔ دو آزاد ریاستوں کے درمیان ہونے والے والے سرحدی معاہدے کو بین الاقوامی معاہدہ تسلیم کرنے سے انکار کیسے کیا جاسکتا ہے؟
اگرچہ میں نے اوپر کے پیراگراف میں اس خیال کو رد کر دیا ہے لیکن پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئے یہ ضرور عرض کرتا چلوں کہ میری نظر سے کم از کم ایک ایسا انگریزی مضمون ضرور گزرا ہے جو ڈیورنڈ معاہدے کے حوالے سے اس نکتے کی تائید کرتا نظر آتا ہے۔ یہ مضمون بیجان عُمرانی اور فرینک لیڈوج نے لکھا ہے اور اس لنک پر پڑھا جا سکتا ہے۔ اس مضمون میں بہت سے دلچسپ نکات اٹھائے گئے ہیں اور جو دوست ڈیورنڈ لائن کو سمجھنےمیں دلچسپی رکھتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ یہ مضمون نظر انداز نہ کریں۔
۵۔ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں ڈیورنڈ معاہدے کی حیثیت کیا ہے؟
ریاستوں کی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں بین القوامی معاہدوں کے حوالے سے ایک کنونشن موجود ہے۔ اسے
Vienna Convention on the Succession of States in Respect of International Treaties
کہتے ہیں۔ اس کنونشن کی شق ۱۱ میں یہ واضح طور پر لکھا ہے کہ کسی ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں سرحدوں کے حوالے سے سابقہ بین الاقوامی معاہدوں کی پاسدار کی جائے گی۔ اس بین الاقوامی کنونشن کے حوالے سے خاص باتیں یہ ہیں کہ پاکستان نے اس پر دستخط کردئے ہیں جبکہ افغانستان نے اس پر دستخط نہیں کئے جس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ مزید یہ کہ یہ کنونشن ۱۹۹۶ ء سے لاگو ہوا ہے جبکہ ڈیورنڈ لائن کا جھگڑا بہت پرانا ہے ۔ افغانستان کی طرف سے یہ دعویٰ کرنا کہ ڈیورنڈ معاہدہ بین الاقوامی سرحد کے تعین کے لئے تھا ہی نہیں شاید اس عالمی کنونشن کے بعد کیا گیا ہو۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اگر یہ کنونشن لاگو نہیں ہو تا تو پھر پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس سرحدی تنازعے کا حل بین الاقوامی برادری کیا تجویز کر سکتی ہے۔ اس نکتے پر اوپر مذکور بیجان عُمرانی اور فرینک لیڈوج کے مضمون میں کافی تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی باقاعدہ معاہدہ موجود نہ ہو تو پھر عدالت یہ دیکھے گی کہ دونوں ریاستیں عملی طور پر کیا کرتی رہی ہیں۔
اس اصول کے تناظر میں دیکھیں تو کم از کم قبائلی علاقے ضرور متنازعہ علاقے قرار پائیں گے کیوں کہ پاکستان بننے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی افغانستان ان علاقوں میں مداخلت کر تا رہا ہے۔ افغان حکمران ان قبائل کو انگریزوں کے خلاف لڑنے پر اکساتے رہے ہیں اور بعد میں پاکستان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب بھی دیتے رہے ہیں۔ پختونستان بنانے کی تحریک بھی اس کا ایک ثبوت ہے۔ دوسری طرف پاکستان بھی ڈیورنڈ لائن کے پار مداخلت کرتا رہا ہے۔ یہ مداخلت ۱۹۷۰ء کی دہائی میں شروع ہوئی اور روس کے خلاف نام نہاد جہاد کے بعد اس میں بے تحاشا اضافہ ہوا اور آج بھی جاری وساری ہے۔
۶۔ کیا یہ علاقے پہلے افغانستان کے تھے اس لئے افغانستان کو واپس ملنے چاہئیں؟
یہ علاقے افغانستان کا حصہ ضرور رہے ہیں مگر بین الاقوامی سطح پر یہ دلیل زیادہ وزن نہیں رکھتی ۔دنیا میں ایک بھی ایسا ملک نہیں جس کی سرحدیں تبدیل نہ ہوئی ہوں۔ بہت سے علاقے کسی زمانے میں کسی اور ملک کے پاس تھے اور آج کسی اور ملک کے پاس ہیں۔ کسی زمانے میں سلطنتِ برطانیہ پر سورج غروب ہی نہیں ہوتا تھا۔ کسی زمانے میں یونان نے آدھی دنیا فتح کر رکھی تھی۔ کسی دور میں لاہور بھی افغان سلطنت کا حصہ تھا جسے سکھوں نے زمان شاہ درانی کو شکست دے کر اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔پشاور ۱۸۱۸ ء میں افغانوں کے قبضے سے نکل کر سکھوں کے قبضے میں چلا گیا تھا ، ان کے ہاتھ سے انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا اور اب پاکستان کے پاس ہے۔ بعض ہندوستانی حکمرانوں کی سلطنت کابل تک پھیلی ہوئی تھی۔ ترکی کی سلطنت عثمانیہ کہاں کہاں تک پھیلی ہوئی تھی اس بارے میں گوگل کر کے دیکھ لیں۔ اگر ہر کسی نے اس بنیاد پر مختلف خطو ں پر دعویٰ کرنا شروع کر دیا تو دنیا میں کبھی نہ ختم ہونے والی جنگیں شروع ہو جائیں گی۔ یہ دعویٰ بین الاقوامی برادری نہیں مانے گی (خاص طور پر جب کہ یہ دعویٰ افغانستان جیسے کمزور ملک کی طرف سے ہو جو ابھی خود کو بیرونی مدد کے بغیر نہیں سنبھال سکتا)۔
۷۔ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طر ف پختون آباد ہیں انہیں ایک کر دینا چاہئے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف پختون آباد ہیں۔ تاہم اس حوالے سے دلائل بہت دلچسپ شکل اختیار کر جاتے ہیں جب پاکستان یہ کہتا ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے مشرق میں زیادہ پختون آباد ہیں اور مغرب میں (یعنی افغانستان کی طرف) کم پختون ہیں۔ تو کیوں نا ںاُس طرف والے پختونوں کو اِس طرف والے پختونوں کے ساتھ ملا کر ایک کر دیا جائے۔ ڈیورنڈ لائن کے کس طرف کتنے پختون آباد ہیں یہ کسی کو نہیں پتہ۔ پاکستان میں مردم شماری ہوئے اٹھارہ سال گزر چکے ہیں اور افغانستان میں پتہ نہیں آخری مردم شماری کب ہوئی تھی۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے مشرق کی طرف آباد پختونوں میں سے بھی خاصی بڑی تعداد ان پختونوں کی ہے جو دراصل ڈیورنڈ لائن کے مغرب میں رہنے والے پختون ہیں اور آج بھی پاکستان انہیں ڈیورنڈ لائن کے اُس پار واپس بھیجنےکےلئے بے تاب ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے ایک پختون جرنیل کی ویڈیو خاصی شیئر کی جاتی ہے۔
خیر یہ تو یونہی باتوں میں بات آگئی تو میں نے کہ دی مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیاء میں بہت سی قومیں ہیں جو ایک سے زیادہ ملکوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایسی قومیں جو ترقی یافتہ ملکوں میں بٹی ہوئی ہیں ان میں اکٹھے ہونے کی کوئی تحریک نظر نہیں آتی کیوں کہ ان پر آپس میں میل جول رکھنے میں کوئی پابندیاں نہیں ہیں اور ان کے لئے ایک دوسرے کی طرف آنا جانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ ویزے آسانی سے مل جاتے ہیں اور ان کے بنیادی حقوق محفوظ ہیں۔ تاہم دوسری طرف جو قومیں ترقی پذیر ملکوںمیں مقیم ہیں اُن میں کسی نہ کسی سطح پر اکٹھے ہونے کی تحریک نظر آتی ہے (حد تو یہ ہے کہ پاکستانی پنجابیوں میں بھی آپ کو ایسے لوگ مل جائیں گے جو متحدہ پنجاب بنانا چاہتے ہیں)۔ بلوچ اور کرد قومیں اس کی مثالیں ہیں۔ کردوں میں اتحاد اور اپنے ملک کی کوششیں نظر آتی ہیں ۔ بلوچوں کو پاکستان نے مجبور کر دیا ہے کہ وہ پاکستان سے علیحدہ ہوجائیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ ایران میں رہنے والے بلوچوں میں اپنی بلوچ شناخت اور بلوچستان بنانے کی کوئی تحریک ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کتنی طاقتور ہے۔ اسی طرح کردوں کے بارے میں بھی میں زیادہ معلومات نہیں رکھتا۔ ویسے بہت سے ملکوں میں منقسم ایک ہی نسل سے تعلق رکھنے والے، ایک ہی زبان بولنے والے لوگ عرب ہیں۔ لیکن اس بنیاد پر انہوں نے بھی سارے ملک ختم کر کے سارے عربوں کو ایک کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ وہ کئی ملکوں میں تقسیم ہیں مگر اپنے اپنے ملکوں میں آرام سے رہ رہے ہیں۔
اس حوالے سے اہم بات یہ بھی ہے کہ دنیا کی اکثر سرحدیں ایسی ہی ہیں جن کے دونوں طرف ایک ہی نسل سے تعلق رکھنے والے اور ایک ہی زبان بولنے والے لوگ رہتے ہیں۔ خود افغانستان کی تقریباً تمام سرحدوں پر یہی صورت حال ہے۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اتنے تاجک تاجکستان میں نہیں رہتے جتنے افغانستان میں رہتے ہیں۔ لوگوں کو ان کی نسل یا زبان کی بنیاد پر کسی ایک خطے تک محدود کرنا بہت مشکل ہے۔ کراچی پختونوں سے بھرا پڑا ہے۔ دریائے سندھ کو پختونوں کی سرحد تسلیم کیا جاتا ہے مگر دریا ئے سندھ کے مشرق میں بھی بڑی تعداد میں پختون صدیوں سے آباد ہیں۔ بات یہ ہے کہ آپ جہاں بھی لکیر کھینچیں گے اس کی دوسری طرف اُسی نسل کے کچھ لوگ رہ جائیں گے۔ بلکہ لکیر کھینچنے کے بعد بھی کئی لوگ اس لکیر کو پار کریں گے۔ لکیر انتظامی اور عملی آسانی کے لئے کھینچیں۔ لوگوں کو تقسیم کرنے کے لئے نہیں۔
ڈیورنڈ لائن کے مشرق یعنی پاکستان میں رہنے والے پختونوں کی صورت حال خاصی دلچسپ ہے۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا یہ پختون افغانستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں ؟ اس حوالے سے ایک دلیل تو یہ دی جا سکتی ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے اُس طرف کے لاکھوں پختون بھی اِس طرف رہ رہے ہیں اور پاکستان کی طرف سے سختیوں کے باوجود اُس طرف جانے کو تیار نہیں ہیں ۔ ایسے میں جوپختوں ہیں ہی اِس طرف رہنے والے وہ اُس طرف کیوں جانا چاہیں گے۔ مزید یہ کہ حال ہی میں افغانیوں کو پاکستان سے نکالنے کے حوالے سے برپا ہونے والے شور شرابے میں پاکستانی پختون پیش پیش تھے۔اسی طرح حال ہی میں محمود خان اچکزئی کے ایک بیان پر جس طرح کا رد عمل پاکستان میں دیکھا گیا وہ تو کوئی ایسا حیرت انگیز نہیں تھا مگر اس طرح کا رد عمل خود پختونوں کی طرف سے آنا ضرور کسی قدر حیرت کا باعث تھا۔ ایسےمیں یہ سوال ضرور اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ دونوں طرف ایسے کتنے پختون ہیں جو ایک ہونا چاہتے ہیں۔
۸۔ زمینی حقائق کی روشنی میں پاک افغان سرحدی جھگڑے کا بہترین حل کیا ہے؟
اس حوالے سے سب سے پہلے یہ بات تسلیم کرنی چاہئے کہ ڈیورنڈ لائن بطور بین الاقوامی سرحد متنازعہ ہے اور اس تنازعہ کو مل بیٹھ کر اور کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کے تحت بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ عملی طور پر یہ علاقے ایک مدت سے افغانستان کے قبضے میں نہیں ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کے مشرق میں رہنے والے پختون صدیوں سے ہندوستان (پہلے مغلوں، پھر سکھوں ، پھر انگریزوں اور اب پاکستان )کے زیر انتظام رہنے کی وجہ سے ان کے بہت سے مفادات اِس طرف وابستہ ہو گئے ہیں۔ ان کی نوکریاں، کاروبار، حتیٰ کہ رشتے داریاں بھی اِس طرف کے لوگوں کے ساتھ قائم ہوگئی ہیں۔ جہاں پختونوں کو ڈیورنڈ لائن کے مغرب میں آباد پختونوں سے الگ کرنا ظلم ہوگا وہاں ان کے ان مفادات کی قربانی بھی چھوٹی سے قربانی نہیں ہوگی۔
عملی طور پر یہ علاقے پاکستان کے قبضے میں ہیں اور عالمی برادری ان علاقوں پر پاکستان کا حق تسلیم کرتی ہے اور تمام بڑی طاقتیں ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرتی ہیں۔ افغانستان نے یہ معاملہ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے بھی برطانیہ کے ساتھ اٹھایا تھا اور بعد میں بھی کئی بار اس موضوع پر بات کی مگر برطانیہ نے اس معاملے پر افغانستان کا ساتھ نہیں دیا۔ اسی طرح امریکہ بھی بارہا پاکستان کے موقف کی حمایت کر چکا ہے۔ اس حوالے سے امریکی بیانات پر افغانستان نے ہمیشہ شدید احتجاج کیا ہے۔ اس موضوع پر امریکہ کا تازہ ترین بیان ۱۱ ستمبر ۲۰۱۵ء کو اخباروںمیں شائع ہوا تھا۔
تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ جنگ پختونوں کے نام پر جاری ہے مگر اس کا سب سے زیادہ نقصان دونوں طرف کے پختونوں ہی کو ہو رہا ہے۔ وہی کٹ رہے ہیں، وہی مر رہے ہیں، وہی اُجڑ رہے ہیں۔ کسی نے بھی یہ حساب نہیں کیا کہ گزشتہ لگ بھگ ستر سالوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس کھینچا تانی کی وجہ سے کتنے پختون مارے گئے ہیں، کتنے بے گھر ہوئے ہیں، نسلوں کی نسلیں تباہ ہو گئی ہیں مگر مسئلہ وہیں کا وہیں ہے اور حالات و واقعات سے اگلے ستر سالوں میں بھی حل ہوتا نظر نہیں آتا۔ دونوں طرف کے حکمرانوں نے اتنے عرصے سے غیر حقیقت پسندانہ پوزیشن لئے رکھی ہے کہ اب ان کے لئے اس سے پیچھے ہٹنا آسان نہیں ہو گا مگر اس کے بغیر یہ مسئلہ کبھی حل بھی نہیں ہوگا۔ کسی بھی ایک ملک کی پوزیشن کو سو فیصد درست تسلیم کر لینا ممکن نہیں ہوگا۔
بہتر یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کر لیں ۔ دوستانہ تعلقات قائم کریں۔ ایک دوسرے کو خراب کرنے کے لئے سازشیں بند کریں تاکہ دونوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم ہو۔ جہاں جہاں سرحد کا قطعی تعین نہیں کیا گیا وہاں سرحدی کمیشن بیٹھے اور سرحد کا تعین کر دےتاکہ یہ جھنجھٹ ختم ہو۔اکیسویں صدی میں سرحد کے حتمی اور واضح تعین کے بغیر ریاستیں نہیں رہ سکتیں ۔ آج کے دو ر میں یہ ایک لغو دلیل ہے کہ جو کام آج سے ایک سو بیس سال پہلے نہیں ہو سکا وہ آج بھی نہیں ہو سکتا ۔ٹیکنالوجی بہت ترقی کر گئی ہے اس کا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ جتنے وسائل دونوں طرف کی حکومتوں نے ایک دوسرے کو تنگ کرنے پر لگائے ہیں ان سے آدھے سرحد ی تنازعہ کو حل کرنے پر لگاتے تو آج سرحد کا تعین ہو چکا ہوتا اور اس پر بے شمار گیٹ لگے ہوتے جن سے روزانہ لاکھو ں لوگ آر پار آتے جاتے اور ان کا کوئی ریکارڈ بھی دونوں حکومتوں کے پاس ہوتا۔ لوگ تو اب بھی آتے جاتے ہیں مگر دونوں حکومتیں یہ نہیں جانتی کہ کون آیا کون گیا ، کیا لے کر آیا ، کیا لے کر گیا، کہاں سے آیا ، کہاں گیا۔
سرحد کے باقاعدہ تعین کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان نرم ویزہ پالیسی اختیار کی جائے اور سرحد کو پار کرنے کے بہت سے راستے رکھے جائیں تاکہ لوگوں کو آر پار جانے کے لئے لمبے چکر نہ کاٹنے پڑیں (یہی پالیسی ہندوستان کے ساتھ بھی اپنانے کی ضرورت ہے)۔ لوگوں کے لئے سرحد کے آر پار آنا جانا اتنا ہی آسان ہو جتنا یورپی ملکوں میں ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا آسان ہے۔ صرف یہی طریقہ ہے پختونوں کی نسل کشی بند ہونے کا اور ان کی ترقی کے راستے کھلنے کا۔ اگر ہم اس عملی طور پر ممکنہ حل کو نہیں مانیں گے تو یہ دونوں ملک مزید ستر سال اسی طرح جھگڑتے ہوئے گزار دیں گے ۔ پتہ نہیں اس کے بعد ڈیورنڈ لائن کے مشرق اور مغرب میں ایک ہونے کے لئے کتنے پختون زندہ بچیں گے۔
بشکریہ: سفیراللہ خان کا بلاگ