( تنویر احمد ملک)
تحریک انصاف کے سربراہ عمرا ن خان نے اپنے دورہ کراچی میں شہر قائد کی زبوں حالی کا ماتم کرتے ہوئے جہاں بہت سے امور پر تبصرہ آرائی کی تو اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کراچی کو کو دوبارہ پاکستان کا دارلحکومت بنانے کا مطالبہ بھی کر ڈالا۔ عمران خان کے اس مطالبے نے یاد ماضی کو جھنجھوڑا ڈالا جب کراچی پاکستان کا دارلحکومت تھا ۔ پاکستان کی فوجی آمریت اور نوکر شاہی نے قائد کے فیصلوں سے انحراف کرتے ہوئے دارلحکومت سے اٹھا کر فوجی آمر جنرل ایوب خان کے گاؤں ریحانہ سے کم مسافت کے فاصلے پر پوٹھوار کے ناہموار خطے میں منتقل کرنے کے لئے اسلام آباد نامی شہر کی تعمیر کا قصد کیا۔
کراچی کو دارلحکومت کی حیثیت سے محروم کرنے میں ہماری اس وقت کی فوجی اور سول نوکر شاہی نے سازشوں کے کیا تانے بانے بنے اس کے بارے میں پیر محمد علی راشدی اپنی تصنیف روئیدار چمن میں رقم طراز ہیں:
’’میں اس زمانے میں سندھ آبزرور کا ایڈیٹر تھا۔ ایک روز میرا چیف رپورٹرمیرے پاس کچھ کاغذات لے کر آیا اور کہا فلاں صاحب (جو نوکر شاہی کی لابی کا سرغنہ تھا) نے استدعا کی ہے کہ دارالحکومت کو کراچی سے نکلوانے کے لئے اخبار میں اس کے حق میں اداریہ لکھوں‘‘۔ راشدی صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے اداریہ تو نہ لکھا لیکن اس کی بابت ایڈیٹر ڈان الطاف حسین سے تذکرہ کیا۔ الطاف حسین نے کہا کہ سازش بہت گہری ہے اور اوپر سے اس کی شروعات ہوئی ہے۔
راشدی لکھتے ہیں جو کاغذات میر ا چیف رپورٹر میرے پاس لایا تھا اس کا نفس مضمون کچھ یوں تھا:
’’وفاقی دارلحکومت کراچی میں نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ کراچی کی آب و ہوا میں سرکاری اہلکار بیمار پڑ جاتے ہیں۔ دفاعی لحاظ سے بھی کراچی کا شہر غیر موزوں ہے۔ یہ صنعتی شہرہے اور یہاں کے صنعت کار افسروں کو لالچ دے کر غلط کام کروا سکتے ہیں۔ کراچی کی گنجان آبادی اور وعوامی شورو شر میں نوکر شاہی کا دماغ صحیح طرح سے کام نہیں کرسکتا۔ آسٹریلیا کا شہر کینبرا نیا شہر ہے جو دارلحکومت بنانے کے لئے تعمیر کیا گیا‘‘۔
اس مضمون کے مندرجات کے ذریعے کراچی کی افادیت کو گھٹانے کی جو مذموم کوشش کی گئی وہ فوجی اور سول نوکرشاہی کے ذہنوں کی اختراع تھی کیونکہ یہ سب انتہائی بے ہودہ تھے۔ جو بعد میں وقت کے دھارے نے ثابت کئے۔ قائد اعظم کے فیصلے سے انحراف کر کے ہم نے جہاں کراچی کی اہمیت و افادیت کو گہری زک پہنچائی تو دوسری جانب مشرقی پاکستان کو ہم نے عملاً وفاق پاکستان سے کاٹ کر رکھ دیا تھا۔ متحدہ پاکستان میں اکثریتی آبادی رکھنے کے باوجود جب بنگال کے باسیوں نے قائد کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کر کے کراچی کو ملک کو دارلحکومت بنانے پر رضامندی کا اظہار کر دیا تھا۔ بنگالیوں نے کراچی کو مغربی و مشرقی پاکستان کی مشترکہ میراث سمجھتے ہوئے یہاں جائیدادیں بنائیں لیکن کراچی سے دارلحکومت کو اسلام آباد نامی نئے شہر میں منتقلی نے ان کی آس اور امید کو توڑ دیا جو وہ متحدہ پاکستان سے لگائے بیٹھے تھے۔
تحریک پاکستان کے نامور رہنما اور مشرقی بنگال کے ذریعے پاکستان کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرنے والے حسین شہید سہروردی کی یاداشتوں پر مشتمل تصنیف Memoirs of Huseyn Shaheed Suhrawardi میں مرقوم ہے:
مشرقی پاکستان کے باسیوں نے کراچی سے دارلحکومت کو ایک نئے شہر میں منتقل کرنے کے فیصلے کو قبول نہ کیا ، مشرقی پاکستان کی قیادت نے ان سے مشاورت کئے بغیر اس فیصلے کے خلاف شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ مشرقی پاکستان نے افواج کے ہیڈ کوارٹر کے قریب نئے دارلحکومت کے قیام کے فیصلے پر جہاں اعتراض کیا تو دوسری جانب اسلام آباد کی فضا کو مشرقی پاکستان کے باسیوں کے لئے قطعی طور پر ناموزوں قرار دیا۔
قائد اعظم نے کراچی کو پاکستان کے دارالحکومت کے لئے کیوں چنا اس کے پس پردہ چند عوامل کار فرما تھے۔ قائد کے وژن کے مطابق کراچی پاکستان کے جملہ عناصر ترکیبی پر مشتمل شہر ہے۔ گویا یہ شہر باقی ماندہ پاکستان کی عکاسی کرتا ہے۔ حالانکہ سندھ اسمبلی نے اس کی مخالفت میں قراردار پیش کی تھی۔ لیکن قائد اعظم نے اس کے باوجود کراچی کو پاکستان کا دارلحکومت بنا نے کا فیصلہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کی مسافتوں کو کم کرنے کے لئے کیا تھا۔ کراچی کی معتدل فضا مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں خطوں کے باسیوں کے لئے سازگار تھی۔ دارلحکومت کی منتقلی سے جہاں ہم نے کراچی کو اس کی اہمیت و حیثیت سے محروم کیا وہیں پر ہم نے متحدہ پاکستان کی دو خطوں کے درمیان دوریاں پیدا کرنیوالے بہت سے اسباب میں ایک نیا اضافہ کیا تھا جو آخر کار متحدہ پاکستان کے ٹوٹنے پر منتج ہوا۔