کوئی پرسان حال نہیں ملتا
از، حیدر سید
بھٹہ خشت جہاں اینٹیں تیار ہوتی ہیں، اور وہاں کام کرنے والے مزدوروں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ان بھٹوں کے لئے جو کچی اینٹیں تیار کرتے ہیں انہیں پتھیرے کہا جاتا ہے۔اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی پوری کی پوری فیملی ان بھٹوں پر کام کرتی ہے۔ کچی اینٹوں کو بھٹہ میں لے جا کر بھرنے والے کو بھرائی والا کہتے ہیں۔
کچی اینٹ کو پکانے والے کو مستری کہتے ہیں۔ یہاں سے پکی اینٹوں کو نکالنے والے کو نکاسی کہا جاتا ہے۔ کچی اینٹوں کو پکانے کے لیے ان میں کوئلہ وغیرہ بھرا جاتا ہے۔انہیں مزدور کہا جاتا ہے۔ مختصر اً یہ کہ بھٹہ پر کام کرنے والے سبھی مزدور ہوتے ہیں۔
یہ مزدور خصوصاًپتھیرے ہر وقت کام کرتے ہیں اور دن رات یہیں رہتے ہیں ۔جن کے پاس اپنی کوئی رہائش گاہ نہیں ، دن رات محنت کرنے کے باوجود یہ لوگ نہایت ہی کسمپرسی کی سی زندگی بسر کرتے ہیں۔ شہروں سے دور دراز علاقوں میں رہنے والے ان لوگوں کے لئے خاص تہواربھی عام سے دن ہوتے ہیں۔
ان کے اپنے گھر بار نہ ہونے کی وجہ سے ان کی اپنی شناخت یعنی شناختی کارڈ تک نہیں بنے ہوتے۔ان مزدور وں کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ ان کے مردوں پر جسمانی تشدد اور عورتوں پر جنسی تشدد کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اتنا ظلم سہنے کے باوجود اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ بھٹہ مالکان ان کی پوری کی پوری فیملی کو یرغمال بنا کر زبردستی کام کرواتے ہیں ۔ ان لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ یہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے بارے دوسروں کو آگاہ کر سکیں ۔ اگر یہ لوگ کہیں جاتے بھی ہیں تو ان کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔ ہمارے سرکاری اداروں میں بھی انکی شنوائی نہیں ہوتی بلکہ الٹا انہیں بے عزت کر کے نکال دیا جاتا ہے۔
ؒ لاہور کالج کا ایک طالب علم احسان اللہ خان مال روڈ سے گزر رہا تھا کہ اسکی نظر ایک کمزور سے بزرگ پر پڑی ، جس کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی ۔اس بزرگ کے دونوں ہاتھ کانپ رھے تھے ان سے چلا بھی نہیں جا رھا تھا ۔ احسان اللہ خان نے سوچا کہ شائد ان بزرگ نے سڑک پار کرنی ہے۔وہ آگے بڑھا اور بزرگ کے کانپتے ہاتھوں کو پکڑ کر کہا کہ، ’’با با جی ، آئیں میں آپکو سڑک پار کرا دوں‘‘۔ طالب علم نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا تو حیران رھ گیا کہ بزرگ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ رونے کی وجہ سے ان بزرگ کا جسم بھی کانپ رھا تھا۔
طالب علم نے بزرگ سے رونے کی وجہ پوچھی تو بزرگ نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ اور اس کا پورا خاندان ایک بھٹہ پر کام کرتے ہیں۔ بھٹہ مالک سے ہم نے قرض لیا ہوا ہے۔ جس وجہ سے میری دو جوان بیٹیاں بھٹہ مالک نے حبس بے جا میں رکھ کر ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا ہے۔بھٹہ کا منشی بھی اس جرم میں شریک ہے۔ ہماری کوئی سنتا نہیں ہے۔ میں مرنا چاہتا ہوں، تا کہ مزید زیادتی نہ سہہ سکوں۔ طالب علم احسان اللہ خان نے ان بزرگ کی دکھ بھری داستان سنی تو اسے بھی بہت دکھ ہوا۔ پھر اس طالب علم نے کالج کے طالب علموں کے ساتھ مل کر بھٹہ مالکان کے ظلم کے خلاف جلوس نکالے ۔ جن کا فائدہ یہ ہوا کہ بھٹہ مالک کے حبس بیجا میں رکھی گئی دونوں لڑکیوں کو آزادی مل گئی۔
پھر وہ لوگ احسان اللہ خان کے پاس آئے اور انہیں اپنے مزید مسائل سے روشناس کیا۔ اور یوں لاہور کالج کے طالب علم احسان اللہ خان نے جس کا تعلق پشاور سے تھا نے بھٹہ مزدوروں کے مسائل کے حل کے لیے پہلی تنظیم ’’بھٹہ مزدور محاذ‘‘ 1967 میں بنائی ۔ اور یوں اس تحریک نے بھٹہ مزدوروں کے مسائل کے حل کے لیے بہت سا کام کیا۔
اس وقت بھی بھٹہ مزدور بہت کام کرتے تھے لیکن انہیں مزدوری برائے نام ہی ملتی تھی۔
’’انسان دوست ایسوسی ایشن‘‘ کے روحٍ رواں انجم رضا مٹو بھی عرصہ 30 برس سے بھٹہ مزدوروں کے حقوق کے لیے جنگ لڑ رھے ہیں۔ انجم رضا مٹو نے بھی بھٹہ مزدوروں پر ہونے والی جبری زیادتیوں پر ہر جگہ آواز اٹھائی یہی وجہ ہے کہ بھٹہ مزدوروں کے فوائدکے لیے بہت سی ترامیم کا اضافہ کیا۔
انجم رضا مٹو کا کہنا ہے کہ ’’1985 میں بھٹہ مزدوروں کی حمایت میں جلوس نکالے جانے کی وجہ سے بھٹہ مزدوروں کی اجرت میں ۱۰ روپے کا اضافہ ہوا۔ چائلڈ لیبر کے خلاف بھی ہم نے آواز بلند کی۔ بھٹہ مزدوروں کو پیشگی رقم دیکر ان سے اپنی مرضی سے کام لینا ، مزدوری کم دینا ، ہر ماہ ان کی مزدوری سے ایڈوانس کی رقم کاٹ کر بقیہ اتنی رقم دینا کہ مشکل سے ایک ماہ گزر سکے، ہر ماہ ایڈوانس کی رقم کاٹنے کے با وجود لی گئی اصل رقم جوں کی تون مزدوروں کے ذمہ بعض جگہ تو اصل رقم سے بھی کئی گنا رقم بڑھ جاتی ہے۔
اس پیشگی رقم کو ختم کرنے کے لیے سپریم کوٹ میں درخواستیں دی گئی ۔10 ستمبر 1988 کو سپریم کورٹ پینل جسٹس اسد اللہ، جسٹس شوکت اور جسٹس جاوید اقبال نے فیصلہ سنایا کہ مختلف شعبہ بھٹہ ، زراعت وغیرہ میں مالکان مزدوروں کو پیشگی رقم نہیں دے سکتے ۔ اگر پیشگی رقم دیں گے تو وہ غیر قانونی ہوگا۔پیشگی کی رقم کی واپسی بھی غیر قانونی ہو گی ، پیشگی کی رقم بزریعہ کورٹ لی جا سکتی ہے۔
ایکٹ آرٹیکل ء ۱۱ کے مطابق قرضہ دینا اور براہ راست واپس لینا جرم قرار دیا گیاہے۔
17 مارچ 1992 کو کورٹ نے جبری مشقت کے خلاف نیا ایکٹ بنایا۔ جس کی شق نمبر 3,5 کے مطابق قرضہ نہیں دے سکتے۔
شق11,12 کے مطابق قرضہ دینا اور دیکر واپس لینا جرم ، جس کی سزا 5 سال اور جرمانہ 50 ہزار روپے ہے۔ اب اگر کوئی قرض دے رہا ہے تو غیر قانونی کام کر رہا ہے۔ مزدور پیشگی رقم کیوں لیتا ہے؟ کے جواب میں انجم رضا مٹو نے بتایا کہ ’’ پیشگی رقم لینے کی5 وجوہات ہوتی ہیں۔
۱- شادی
-2بچہ کی پیدائش
-3بیماری کی صورت میں
-4معذوری پر
-5فوتیدگی پر
نوے فیصد مزدوروں کے پاس اپنا شناختی کارڈ نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی ان کا ووٹ ہوتا ہے۔شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے مزدور پاکستان کا شہری نہیں کہلاتا۔
99 فیصد مزدور بے گھر ہوتے ہیں۔ مالکان مزدور کو پیشگی رقم دیکر غلام بنا لیتا ہے۔ اور غلام کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ان ان پٹرھ لوگوں کو کم پیشگی رقم دیکر زیادہ رقم لکھ کر ان سے انگوٹھے لگوا لئے جاتے ہیں۔پھر اس مزدور کو مزدوری بھی کم دی جاتی ہے۔ اسکی مزدوری سے پیشگی رقم کاٹنے کے باوجود اصل رقم ویسی کی ویسی ہی رہتی ہے۔جو اسکی آئندہ آنے والی نسل بھی ادا نہیں کر پاتی۔
حکومت کی طرف سے بھٹہ مزدور کی مزدوری 968 روپے فی ہزار اینٹ ہے لیکن یہاں 400 سے 500 روپے مزدوری دی جاتی ہے۔ اگر کوئی مزدور اپنے حق کے لئے بولتا ہے تو اسے جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ مختلف الزامات لگا کر حوالات بھیج دیا جاتا ہے۔ ان مزدوروں کے مسائل کیسے حل ہونگے ؟ کے جواب میں انجم رضا مٹو نے بتایا کہ ان مزدوروں کے مسائل سوشل سکیورٹی کارڈ بنانے سے حل ہو سکتے ہیں۔ کیو نکہ جن مقاصد کے لئے پیشگی رقم لی جاتی ہے،وہ تمام مسائل سوشل سکیورٹی کارڈ بن جانے کی صورت میں حل ہو جاتے ہیں۔ سکیورٹی کارڈ کے لئے 740/- روپے فی کس مالک ادا کرنے کا مجاز ہو گا۔ لیکن مالک کبھی بھی سکیو رٹی کارڈ بنوا کر نہیں دے گا۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ انہیں غلام بنا کر ہی ان سے بہتر کام لیا جا سکتا ہے۔
بھٹہ واحد اند سٹری ہے جو بجلی اور گیس کے بغیر چلتی ہے۔ جو مالکان کو 200 فیصد سے بھی زائد منافع دیتی ہے، لیکن مزدور کے لئے اس انڈسٹری میں بہتری کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہاں بھٹہ مالکان مزدوروں کے گردے تک فروخت کر دیتے ہیں پھر بھی ان کی پیشگی رقم ختم نہیں ہوتی۔
بہت سے مزدوروں سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن بہت سے مزدوروں نے بھٹہ مالکان کے خوف زدہ ماحول میں بات کرنے سے انکار کر دیا۔ کچھ مزدور وں نے ان تمام حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ہماری عزتیں بھی محفوظ نہیں رہتیں۔ اگر کوئی بات کریں تو ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ’’ تمہاری یہ جرات کہ ہمارے آگے بات کرو‘‘۔
بھٹہ مالکان سے بات کرنے کی کشش کی لیکن انہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے اس موضوع پر بات کرنا گواراہ نہیں کیا۔ بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے صدر نے بھی ہمیں وقت دیکر ملے بغیر ہی چلے گئے ۔ جنرل سیکرٹری بھی اپنی مصروفیات کا بہانہ بناتے دکھائی دئیے۔
مڈھالی روڈ پر بھٹہ مالک ناصر گجر نے بتایا کہ ’’ میں دوسروں کے بارے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ہمارے بھٹہ پر30 سال قبل جو کام کرتے تھے آج بھی وہی مزدور کام کر رہے ہیں ۔ ہم نے انہیں بہت سی سہولیات دے رکھی ہیں حتیٰ کہ ان کے بچے بھی سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان کے گھروں میں ٹی وی سے لیکر موٹر سائیکل تک دے رکھے ہیں تاکہ یہ کسی چیز کا بہانہ نا بنائیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرصہ سے ہمارے بھٹہ پر کام کر رہے ہیں۔
بھٹہ مالک مہر افتخار نے بتایا کہ ’’ ان کی ضرورت کے مطابق پیشگی رقم دینا ہماری مجبوری ہے۔ اگر نہ دیں تو پھر ہمارے پاس کام نہیں کرتے۔ ان لوگوں کی وجہ سے ہی ہمارا کام چلتا ہے۔ ان کی خواہش کے مطابق ان کی پیشگی رقم لیتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان کو لکھ کر بھی دیتے ہیں کہ تمہاری طرف اب کتنی رقم بقایا ہے؟ مزدوروں کے ساتھ ہم نے کبھی زیادتی نہیں کی اور نہ ہی کبھی سوچا ہے کہ غریب آدمی کو یوں تنگ کیا جائے‘‘۔