کیا ادب ہمیں اخلاقیات سکھاتا ہے؟
از، اصغر بشیر
سوال یہ ہے کہ ادب اور اخلاقیات کے درمیان کیا تعلق ہے؟ کیا ادب ہمیں مطلق اخلاق کے بارے میں بتا سکتا ہے؟ اس حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ادب مطلق اخلاق سکھا سکتا ہے۔ وہ ادب میں سے مثالیں دیتے ہوئے ثابت کرتے ہیں کہ ادب کے بہترین کاموں میں سے ایک کام اخلاقیات سکھانا ہے۔ اس حوالے سے ادب ایک طرف سے اخلاقی مطلق صورت کو دکھاتا ہے تو دوسری طرف اس کے متعلقہ پہلوؤں کو واضح کرتے ہوئے ہمیں خالص انسانی صورت کو پیش کرتا ہے۔
ابسن کے ڈرامہ ’’دی وائلڈ ڈک‘‘ کو ایک پرفیکٹ مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے کہ اس میں ایک طرف ایک کردار عہد کرتا ہے کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولے گا جس کی وجہ سے اس کا خاندان کئی ایک مسائل کا سامنا کرتا ہے جب کہ اس کی بیوی اس کے مخالف میں عمومی انسانی کردار کو پیش کرتی ہے جس میں ہم زندگی گزارتے ہیں۔ یہ جدید خاندان کا المیہ کہلا سکتا ہے جس میں مرکزی کردار کی بیوی پورے خاندان کو آپس میں جوڑے رکھتی ہے۔
اس حوالے سے ایک نکتہ یہ بھی پیش کیا جا سکتا ہے کہ آج اخلاقیات کے متعلق زیادہ تر فن اس حصہ پر مشتمل ہے جو طے شدہ اخلاقی اصولوں پر سوال اٹھا کر مطلق اخلاقیات کو رد کرتی ہے۔ اسی طرح آج جدید ادب میں مطلق اخلاقیات پر یقین رکھنے والے اخلاقی کردار دریافت کیے جا رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اخلاقی اقدار ایک طرح کی کشش اور خوبصورتی کے حامل ہوتے ہیں ہم ان کو پسند کرتے ہیں اور پہلی نظر میں ہم کو سب اچھا محسوس ہو رہا ہوتا ہے جب کہ دوسری طرف ادب کا کام یہ ہے کہ ہم ایک قدم پیچھے ہٹ کر رک جائیں اور سوچیں کہ واقعی یہ جو سب کچھ ہو رہا ہے یہ ٹھیک ہے؟
یوں ادب کے کاموں میں سے ایک کام یہ ہے کہ اس کے ذریعہ ہم اپنی عہد و پیمان کی ساخت سے ایک لمحے کے لیے جدا ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے طے شدہ کرداروں کو ایک لمحے کے لیے بھول جاتے ہیں اور ہم بھائی، بہن، خالہ، چاچو، یا دوست نہیں رہتے بلکہ ان سب سے آزاد ہو کر کسی ایک عمل کو جانچنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور ہم خود سے پوچھتے ہیں کہ اخلاقیات اس عمل کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ ادب اور حقیقت میں کیا فرق ہے؟ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادب سچ سے مختلف ہوتا ہے کہ ادب میں متن اور مواد کے لحاظ سے لکھاری اور قاری کو آزادی ہوتی ہے۔ ایک قاری اپنے ردعمل میں آزاد ہوتا ہے۔ حقیقت میں وقوع پذیر ہونے والے واقعے کے ردعمل مخصوص ہوتے ہیں اور ہم عام طور پر اس طرح کے رد عمل سے واقف ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف ادب کے اس پہلو میں ایک خاص پیچیدگی پائی جاتی ہے۔ ہم کسی ایک واقعہ کو مختلف کرداروں کے اثرات کے حوالے سے اورکہانی میں ان کی بنت کے حوالے سے ماپتے ہیں تو مفروضات اور بیانات کا ایک طویل سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔ پس ادب میں کرداروں کو صرف ایک مخصوص اخلاقی اصول کے تحت ہی جانا نہیں جاتا بلکہ ان کو دوسروں کی اخلاقیات کے حوالے سے ا س کی غلطی کی نوعیت کا اندازہ لگاتے ہیں۔ یوں ادب ہمیں ان سوالوں تک لے جاتا ہے جہاں ہم مزید پیچیدہ سوال پوچھنے لگ جاتے ہیں جیسے کیا ہمیں مطلق اخلاقیات کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے؟
اس حوالے سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہم ادب کو کبھی بھی اخلاقیات کا پیمانہ نہیں بنا سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ادیب کبھی بھی حقیقت کو بعینہ پیش کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ وہ یا تو حقیقت سے کمتر یا حقیقت سے برتر بنانے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اخلاقیات پر اس کا اثر گہرا ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادب اپنے پڑھنے والوں کو مختلف صورتوں سے روشناس کروا کر انہیں اس قابل بناتا ہے کہ انہیں حقیقت کی پہچان ہوجائے۔
ایک ادب پارے میں ایسا کرنے کی صلاحیت اس لیے ہوتی ہے کہ ہمیں بظاہر کسی ایک کردار کی اخلاقیات مستقل اہمیت کی حامل نظر نہیں آتی نہ ہی نریٹر ایک ہی کردار سے وفا داری نبھا رہا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ہم خود کو ایک ایسی صورت حال میں موجود پاتے ہیں جو اخلاقیات کے حوالے سے کثیر جہتی ہوتی ہے۔ ایسا کرنا حقیقی زندگی میں ممکن نہیں ہے کیونکہ کسی گفتگو میں دو شخصی اخلاقیات ایک دوسرے سےتبادلے میں مصروف ہوتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں کثیر جہتی اخلاقیات کا بیان نہ صر ف گفتگو کو بے معنی کردے گا ساتھ ہی ساتھ شخصی اخلاقیات کا اصل معنی بھی گم ہو جائے گا۔
پس ادب کو ہمارے مقبول ادیبوں کی طرح اخلاقیات کا ہتھیار بنانا دراصل ناقص فہمی کا نتیجہ ہے ورنہ ادب وہ حالات مہیا کرتا ہے جن میں اخلاقیات کی مختلف صورتوں کا تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کے اچھے اور برے پہلوؤں کو ماپا جا سکتا ہے ان کی جہتوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یوں ادب ہمیں اس مقام تک لا سکتا ہے جہاں ہم اخلاقیات کو اپنے اوپر پابندیوں کا انبار نہیں سمجھیں گے بلکہ زندگی کو بہتر اندا زمیں گزارنے کا طریقہ بنائیں گے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پر ادب اور اخلاقیات آپس میں متصادم ہونے کے بجائے باہم متصل ہوتے ہیں۔