آن لائن تعلیم کیا روائتی طرز تعلیم کا بدل ہے؟
نکولس کار (Nicholas Carr)
انٹرنیٹ نے اعلیٰ تعلیم میں انقلاب کی نئی امیدیں ایک بار پھرجگا دی ہیں۔ اس سے قبل ماضی میں قریباً سو سال پہلے اعلیٰ تعلیم ٹیکنالوجی کے انقلاب کے کنارے پر کھڑی تھی۔ تو اس وقت نئے طاقتورڈاک کے نظام نے فاصلاتی تعلیم کے ایک نئے تصور کو متعارف کروایا جس نے یونیورسٹیوں کواپنی حدود سےباہرنکل کر تعلیم پھیلانے کے قابل بنا دیا۔ فاصلاتی تعلیم کے تحت میل باکس رکھنے والا ہر شخص کلاس میں داخلہ لے سکتا تھا۔ یونیورسٹی آف وسکونسن (University o f Wisconson)کے تاریخ دان فریڈرک جیکسن ٹرنر(Fredrick Jackson Turner)کہتے ہیں کہ فاصلاتی تعلیم کی اس مشینری نے ملک کے دور دراز بنجر علاقوں میں تعلیم کی نہریں نکال دی تھیں۔ سکولوں کو جب نئے طلباء اور آمدنی کے حصول کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنے ہاں خط و کتابت کے الگ شعبے بنا دیئے۔ 1920ء میں خط وکتابت کے ذریعے فاصلاتی تعلیم پورے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ ابتدائی دور کی فاصلاتی تعلیم کی اس نئی قسم سے امید پیدا ہوگئی تھی کہ بے شمار لوگ وسیع پیمانے پر اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ بہت سے معلمین کو یقین تھا کہ خط و کتابت پر مشتمل کورسز کیمپس کی ہدایات کی روشنی میں بہتر ہوتے جائیں گے کیونکہ ہر طالب علم کیلئے اسائنمنٹ اور تجزیاتی رپورٹ الگ سے تیار کرکے بھیجی جاتی تھی۔ یونیورسٹی آف شکاگو (University of Chicago)کے “گھر بیٹھے فاصلاتی تعلیم” کے شعبے نے اپنے طلباءکو بتایا کہ ہر طالب علم پر خصوصی توجہ دی جائے گی اور جن علاقوں تک ڈاک کی رسائی ہو گی وہاں پر انہیں یونیورسٹی کا کورس مل جائے گا۔ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر نے دعویٰ کیا کہ فاصلاتی تعلیم کے ذریعے طلباء سے ان کے شخصی اختلافات کو مد نظر رکھتے ہوئے دوستانہ تدریسی تعلقات قائم کئے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ اس طرح دی جانے والی تعلیم عام امریکی یونیورسٹی کے کلاس روم سے بہتر ثابت ہوگی۔
اب موجودہ دور میں انٹرنیٹ نے اعلیٰ تعلیم میں انقلاب کی نئی امیدیں ایک بار پھرجگا دی ہیں۔ ایم آئی ٹی، ہارورڈ، سٹینفورڈ اور پرنسٹن سمیت بہت سی دیگر معروف یونیورسٹیوں نے انٹرنیٹ پر بہت سے فری کورسز کی پیش کش کی ہے اور پوری دنیا سے دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے آن لائن کورسزکیلئے اپنا نام درج کرایا ہے۔ یہ بڑے پیمانے پر آن لائن فاصلاتی تعلیم کے کورسز (Massive Open Online Courses :MOOCs)نے لوگوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی ہے۔ جنہوں نے ایسے بےشمار طلباء کو معیاری کالج تعلیم فراہم کی ہے جو عام حالات میں اس تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ ان میں وہ طلباء بھی شامل ہیں جو دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں یا اپنے کیرئیر کے وسط میں ہیں۔ آن لائن کلاسز نے کیمپس کے اندر اور باہر عمومی تدریسی معیار کو بھی بلند بنایاہے۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی کے صدر جان ہینیسی (John Hennessy نے آن لائن تعلیم پر تبصرہ کرتے ہوئے اخبار نیویارکر (The Newyorker)کو بتایا کہ وہ سونامی آتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
موکس (MOOCs)کے بارے میں عوامی جوش اس وقت سامنےآیا جب لوگوں نے کالج کی تعلیم کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ کالج کی بیچلر ڈگری پر ایک لاکھ ڈالر خرچ اٹھتا ہے جس میں نوجوانوں کے قیمتی چار سال صرف ہوتے ہیں۔ اس دوران بہت سے طلباء چھوڑ بھی جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ طلباء پر یا ان کے والدین پر ایک بڑا مالی بوجھ بھی پڑتا ہے یہ نہ صرف ان کے ذاتی اخراجات بلکہ پوری معیشت پر بھی بوجھ ہوتا ہے۔ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے اخراجات بڑھنے کے ساتھ اس کا معیار گررہا ہے۔ سرکاری کالجز میں تعلیم چھوڑنے کی شرح بھی بہت زیادہ ہے اور بہت سے گریجوئیٹ یہ ثابت نہیں کر پاتے کہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پی ای ڈبلیو تحقیقی مرکز (PEW Research Center)کے 2011ء ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ قریباً 60 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ انہوں نے ملکی کالجز اور یونیورسٹیوں میں اپنے بچوں کو پڑھانے کیلئے جو پیسہ صرف کیا تھا وہ ضائع ہوا ہے۔ موکس کے حامی کہتے ہیں کہ آن لائن ہدایات کے ذریعے بتدریج ان نقصانات کا ازالہ ہو گا۔
education numbers
لیکن ہر کوئی اس کی حمایت نہیں کرتا۔ اساتذہ کا خیال ہے کہ آن لائن تعلیم سے کالج منتظمین ناراض ہوں گے اور ردعمل میں وہ کیمپس کے اندر تعلیم کو ہی ختم کردیں گے۔ اس حوالے سے ناقدین نے ابتدائی دور کی خط و کتابت پر مشتمل فاصلاتی تعلیم کی مثال دی ہے جب یونیورسٹیوں نے 1920ء گھر بیٹھے تعلیم کے نظام کو اپنایا تھا تو وہ اپنے وعدے کے مطابق تعلیمی معیار فراہم کرنے میں ناکام رہی تھیں جس کی وجہ سے بہت کم طلباء نے اپنے کورسز مکمل کئے تھے۔ معروف امریکی ماہر تعلیم ابراہام فلیکزنر (Abraham Flexner)نے 1928 ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں اپنے ایک لیکچر میں دعویٰ کیا کہ خط وکتابت کے ذریعے دی جانے والی تعلیم میں شرکت کو تعلیمی تسلسل کی قیمت پر فروغ دیا گیاہے۔ 1930ء تک کالجز اور یونیورسٹیوں کے بہت سے منتظمین کی ڈاک کے ذریعے تدریس میں دلچسپی نہیں رہی تھی جس سے فاصلاتی تعلیم کا جنون مدھم پڑ گیا۔
آج کے دور میں کیا حالات مختلف ہیں؟ کیا ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ انقلابی فاصلاتی تعلیم کے وعدے نبھائے جاسکیں۔ ہم تاحال اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ بڑے جوش سے آغاز کرنے والے موکس یہ بھول گئے ہیں کہ وہ ابھی نومولود ہیں۔ بلکہ اس نئے موڑ پر اس نئے طرز تعلیم کے خوبیاں اور خامیاں جانچی جارہی ہیں۔
موکس(MOOCs)کا عروج
سٹینفورڈ یونیورسٹی میں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)کا فری آن لائن کورس متعارف کروانے والے پروفیسر سباسٹین تھرون (Prof. Sbastian Thrun) کہتے ہیں کہ جب میں نے آن لائن کورس شروع کرایا تو مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ پینتالیس سالہ روبوٹکس کے ماہر سباسٹین کا خیال تھا کہ اس کی کلاس میں چند سو انڈر گریجویٹ داخلہ لے لیں گے۔ جس سے ثابت ہو گا کہ نیٹ پر کتنے لوگ اس طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ وہ اور ان کے معاون پروفیسر پیٹر ناروگ (Peter Norvig) سلیکون ویلی کے معروف لوگوں میں شمار ہوتے تھےجنہوں نے سٹینفورڈ یونیورسٹی میں تدریس کے ساتھ گوگل پر بڑے اعلیٰ تحقیقی مقالے لکھے۔ جب پروفیسر سباسٹین تھرون یہ تصور کر رہے تھے کہ ان کی کلاس میں داخلہ 10,000 کے قریب ہو گا تو دراصل ان کی توقع سے کہیں زیادہ لوگوں نے داخلہ لیا۔ اکتوبر 2011ء میں کلاس کاآغاز ہوا تو 1,60,000 لوگوں نے داخلہ لیا۔ اس تجربے نے پروفیسر سباسٹین تھرون کی زندگی ہی بدل کررکھ دی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ “میں اب سٹینفورڈ یونیورسٹی میں مزید نہیں پڑھا سکتا”۔ انہوں نے روبوٹکس کے ماہرین اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر تعلیمی کمپنی اُڈاسٹی (Udacity)کا آغاز کیا۔ یہ مشترکہ کمپنی اپنے آپ کو 21ویں صدی کی یونیورسٹی کہتی ہے اور یونیورسٹی آف ورجینیا کے علاوہ دیگر سکولوں مثلاً رٹگر (Ritger)کے پروفیسرز کو انٹرنیٹ پر اوپن کورسز پڑھانے کیلئے ادائیگیاں کررہی ہے۔ آن لائن کورسز کیلئے وہ مصنوعی ذہانت (AI) کلاس کی ٹیکنالوجی استعمال کررہے ہیں۔ اُڈیسٹی میں پڑھائے جانے والے کورسز میں ریاضی اور کمپیوٹر سائنس شامل ہیں۔پروفیسر سباسٹین تھرون کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کی روائتی ڈگری کا طریقہ اب فرسودہ ہو چکا ہے۔ وہ اب تاعمر تعلیم کی نئی قسم متعارف کروا رہے ہیں جو جدید مارکیٹ کیلئے مناسب ترین ہوگی۔
اُڈاسٹی ان متعدد کمپنیوں میں سے ایک ہے جو موکس کیلئے بڑھتی ہوئی دلچسپی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔اپریل میں سٹیفورڈ یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس شعبے میں تھرون ہی کے دوساتھیوں ڈیفنی کولر(Daphne Koller) اور اینڈریو این جی(Andrew Ng)اُڈاسٹی کی طرح کورسیرا(Coursera)کمپنی کا آغاز کیا۔ کورسیرا کو لاکھوں ڈالر سرمائے سے شروع کیا گیا۔ اُڈاسٹی کے برخلاف کورسیرا نے بڑی یونیورسٹیوں کے ساتھ مل کر تعلیمی کورسز کاآغاز کیا۔ جہاں تھرون چاہتے ہیں کہ وہ روایتی یونیورسٹیوں کا متبادل لوگوں کو فراہم کریں وہاں کوہلر اور اینڈریوایک ایسا سسٹم بنانا چاہتے ہیں جس میں سکول انٹرنیٹ پر اپنی کلاسز کا آغاز کریں۔ کورسیرا کے شراکت داروں میں پرنسٹن یونیورسٹی ، سٹینفورڈ ، پین (Penn)، یونیورسٹی آف مشی گن شامل ہیں اورآیندہ گرمیوں میں وہ 29 سکولوں کے ساتھ بھی معاہدہ کرنے والی ہے۔ کورسیرا پہلے ہی شماریات سے لے کر عمرانیات تک 200 کورسزمتعارف کرواچکی ہے۔
دوسری طرف ایم آئی ٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی مل کر مئی میں ایڈ ایکس(EdX)کمپنی بنارہے ہیں جہاں سب افراد کیلئے غیر منافع بخش ٹیوشن فری کلاسز ہوں گی۔ اس کے لئےایڈ ایکس نے اوپن سورس استعمال کراتے ہوئے ایم آئی ٹی پر تدریسی پلیٹ فارم متعارف کروایا ہے۔ جس کے تحت طلباء کیلئے ویڈیو اسباق اور مختلف موضوعات پر بحث و مباحثہ کے فورم فراہم کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ سائنس طلباء کیلئے ورچوئل لیبارٹریز ہوں گی جہاں سے طلباء کمپیوٹر پر کئے گئے مصنوعی تجربات کی ورچوئل ویڈیو دیکھ سکیں گے۔ گزشتہ گرمیوں میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا نے ایڈ ایکس میں شمولیت اختیار کی اور اس نے وہاں پر ریاضی سے لے کر انجنئیرنگ تک کی 7 کلاسوں کا اجراء کیا۔ ایڈ ایکس کو متعارف کروانے والے ایم آئی ٹی کے کمپیوٹر سائنس اور مصنوعی ذہانت کے شعبے کے سابق ڈائریکٹر اننت اگروال ہیں۔ اُڈاسٹی، کورسیرا اور ایڈایکس نے فاصلاتی تعلیم کیلئے اپنی خواہشات کو محدود نہیں کیا۔ انہیں یقین ہے کہ آن لائن تعلیم کالج کے طلباء لئے بھی یکساں طور پر مفید ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ ورچوئل کلاس روم کے ساتھ حقیقی کلاس کو ملا دیا جائے تو تعلیم مزید پھیلے گی۔ اگروال کہتے ہیں کہ ہم نئے سرے سے تعلیم کا ڈھانچہ بنا رہے ہیں۔
پروفیسر روبوٹ
ان اعدادوشمار سےظاہر ہوتا ہے کہ آن لائن کورسز کا تصور کوئی نیا نہیں ہے۔ فینکس (Phoenix) اور ڈیورائی (DeVry) نے ہزاروں کورسز متعارف کروائے ہیں۔ بہت سے کالجز نے طلباء کو کریڈٹ پر آن لائن کورسز کی بھی اجازت دے رکھی ہے۔ پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ مُوکس کیا مختلف پیش کرتے ہیں۔ پروفیسر سباسٹین تھرون کے خیال میں یہ طلباء کو مصروف رکھتے ہیں۔ بہت سی آن لائن کلاسز میں طلباء کو ویڈیو لیکچر دیئے جاتے ہیں۔ تھرون کا کہنا ہے کہ اس فارمیٹ میں بڑی خامی ہے۔ عام طور پر کلاس روم کے لیکچر بہت بور ہوتے ہیں اور ریکارڈ کئے گئے لیکچر میں طالب علم کم دلچسپی لیتاہے۔ مُوکس پروفیسر کے ویڈیو لیکچرز فراہم کرتے ہیں جو موضوع کے تصور کو واضح کرتے ہیں۔ پروفیسر سکرین پر مشقیں اور سوالات بھی شامل کرتے ہیں۔
پروفیسر نارویج ( Norvig)نے اس سال اُڈاسٹی میں کمپیوٹر کلاسز پڑھائی ہیں۔ وہ موکس کا عام کالجز اور یونیورسٹیوں سے ایک اور فرق بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آن لائن تعلیم کی معیشت ڈرامائی انداز میں بڑھی ہے۔ کلاوڈ کمپیوٹنگ نے سستے داموں بہت بڑی مقدار میں ڈیٹا کو محفوظ کرنے اور اسے آن لائن چلانے کی سہولت فراہم کی ہے۔ اسباق اور سوالنامے یو ٹیوب اور دیگر پاپولر میڈیا پر فری دستیاب ہوتے ہیں۔ فیس بک کی طرح کے سوشل نیٹ ورک ڈیجیٹل کیمپس بناتے ہیں جہاں طلباء اسٹڈی گروپ بنا کر ایک دوسرے سے سوالات اور ان کے جوابات لے سکتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں آن لائن کلاسز میں کثیر جہتی میڈیا کلاسز کی فیسیں کم ہوئی ہیں جس سے یہ ممکن ہوا ہے کہ طلباء کی بہت بڑی تعداد بغیر ٹیوشن فیس کے تعلیم حاصل کرسکے۔
اسے ایک اتفاق ہی سمجھیں کہ ایڈ ایکس، کورسیرا اور اُڈاسٹی کمپنیوں کو کمپیوٹر سائنسدان ہی چلارہے ہیں۔ مُوکس نے عہد کر رکھا ہے کہ وہ کم فیس اور اعلیٰ معیار کی کالج تعلیم فراہم کریں گے۔ اس عہد کو پورا کرنے کیلئے مُوکس کو بڑے پیمانے پر ڈیٹا پراسیسنگ اور مشین لرننگ میں جدید ترین تحقیق سے فائدہ اٹھانا ہو گا جس سے کمپیوٹرز مطلوبہ کاموں کو فوری طور پر کرنے کے قابل ہو جائے۔ ہزاروں طلباء کو ایک ہی وقت میں ایک ہی کلاس پڑھانے کیلئے اعلیٰ پیمانے کے خودکار نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ عام کالجوں میں ٹیسٹوں کے نمبر دینا، کلاسیں پڑھانا، بحث و مباحثے کا اہتمام کرنا وغیر ہ جیسے کام پروفیسرز یا ان کے معاونین سرانجام دیتے ہیں جبکہ ویب پر ایسے کام کمپیوٹرز پر سرانجام دیئےجاتےہیں۔ اس کے علاوہ کلاس روم میں طلباء کے رویئے کا جائزہ لینے کیلئے ایڈوانس سوفٹ وئیر کی ضرورت پڑتی ہے۔ طلباء کے ڈیٹا کو مختلف طریقوں سے جائزہ لینے کیلئے الگورتھم استعمال کیا جاتا ہے۔ کمپیوٹر پروگرامرز کو امید ہے کہ وہ الگورتھم کے استعمال سے تدریسی حکمت عملیاں اور گہرائی تک تعلیمی عمل کو جانچ سکیں گے۔ جس کی مدد سے ٹیکنالوجی کو مزید شفاف بنایا جائے گا۔ مُوکس کے بانیوں کو یقین ہے کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنیکس اعلیٰ تعلیم کو صنعتی دور سے ڈیجیٹل دور میں لے جائے گی۔
مُوکس کی خواہشات اور ارادے بہت وسیع ہیں۔ تھرون(Thrun)، کالر (Koller)اور اگروال (Agarwal)، تینوں کا کہنا ہے کہ وہ ابھی صرف اپنے کورسز سے ڈیٹا اکٹھا کرکے اس کا تجزیہ کررہے ہیں ، ابھی اس منظم انداز میں استعمال نہیں کیا گیا۔ کمپنیوں کو طلبا اور اساتذہ کیلئے قابل قدر معلومات کی فراہمی میں کچھ وقت لگے گا۔ آپ نے آج اگر کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے فوائد کا جائزہ لینا ہے تو کمپیوٹر ماہرین کے ایسے چھوٹے گروہوں کو دیکھیں جو چھوٹے تعلیمی اداروں ،اکیڈمی ٹیسٹ اور تدریسی عملے کیلئے بڑی محنت سے تعلیمی مواد کو کمپیوٹر کوڈ میں لارہے ہوتے ہیں۔
معروف تعلیمی فلاسفر ڈیوڈ کنٹز(David Kuntz)نے 1994ء میں فلسفہ کی ڈگری حاصل کی اور لا سکول ایڈمشن کونسل کیلئے نظریہ علم پر کام شروع کیا(یہ وہ تنظیم ہے جس نے ایل ایس اے ٹی کے امتحانات کا طریقہ وضع کیا ہے) بعد میں کنٹز نے ایجوکیشنل ٹیسٹنگ سروس(Educational Testing Service)میں شمولیت اختیار کرلی جو ایس اے ٹی (SAT)کالج ایڈمشن ٹیسٹ لیتا ہے۔ ای ٹی ایس کمپیوٹر پر مختصر مگر جامع ٹیسٹ تیار کرنے اور گریڈنگ کا نظام وضع کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ ڈیوڈکنٹز اور دیگر ماہرین تعلیم کے سامنے ایک بڑا حل طلب سوال موجود ہے کہ کس طرح سوفٹ وئیر کے ذریعے اسباق میں موجود لفظوں کے مفاہیم کا شعور، تعلیم کا فروغ، طلباء کے اسباق سمجھنے کی صلاحیت کوبڑھایا جائے؟
تین سال پہلے ک ڈیوڈ کنٹر نے مین ہٹن (Manhattan)میں نئی کمپنی نیوٹن میں بطور تحقیقی سربراہ کے شمولیت اختیار کی۔ کمپنی حالات سے مطابقت پیدا کرنے والی تعلیم (Adaptive Learning)میں خصوصی مہارت رکھتی ہے۔ ہدایتی سوفٹ وئیر تیار کرنے والی کمپنیوں میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ارون سپین آف(Irvin Spinoff)کی ایلکس (ALEKS)کمپنی، کارنیگی میلن (Carnegie Mellon) کی اوپن لرننگ انی شی ایٹو(Open Learning Initiative) کمپنی اور خان اکیڈمی (Khan Academy)کی طرح نیوٹن کمپنی بھی آن لائن تدریسی نظام بنارہی ہے جو طلباء کو فرداً فرداً تعلیم دے۔ کنٹز کا کہنا ہے کہ ایسے پروگرام بہتر کام کررہے ہیں۔ مثلاً سوفٹ وئیر کے ذریعے الجبرا پڑھانے کیلئے متبادل تعلیمی نظریات بھی دیئے جاتے ہیں اور جب بہت سے طلباء پروگرام کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیںتو ان تعلیمی کارکردگی کو مدنظر رکھ کرسوفٹ وئیر کوبہتر بنایا جاسکتا ہے۔ مُوکس ماہرین کا کہنا ہے کہ سوفٹ وئیر میں جتنا زیادہ ڈیٹا ہو گا اتنا ہی طلباء کیلئے ان کے ماحول سے مطابقت پیدا کرنےوالی تعلیم کے ذریعے طلباء کو درست معلومات فراہم کی جاسکتی ہیں۔
نیوٹن (Newton)کمپنی نے کالج میں داخلہ لینے والے طلباء کیلئے ریاضی کے اصلاحی کورس کا آغاز کیا ہے۔ اس کی ٹیکنالوجی کو ٹیکسٹ بک شائع کرنے والے بہت بڑے ادارے پیئرسن (Pearson) کی معاونت حاصل ہے۔ لیکن کینٹز کو یقین ہے کہ ہم ابھی ایسا سوفٹ وئیر بنانے کی ابتداء میں ہیں۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ ڈیٹا کا گہرائی سے تجزیہ کرنے اور مشین لرننگ تکنیکوں کے پروگرام کے ذریعے مطابقت پیدا کرکے خودکار نظام کے تحت ہر طالبعلم کو ذاتی حیثیت میں توجہ دی جائے گی۔ ابتدائی درجے میں طالب علم مختلف مرحلوں سے گزر کر اپنی مرضی اور ارادے پر انحصار کرتاہے جس کے بعد طالب علم کو نئے موضوع پر جانے کیلئے مزید ہدایات دی جاتی ہیں۔ کنٹز کا کہنا ہے کہ ہر طالب علم اس کیلئے مختلف راستہ اپناتاہے۔ اگلے درجے پر نیوٹن کمپنی نے طالب علم کو خودکار طریقے سے مٹیریل کی فراہمی کا منصوبہ بنایا ہے۔ بہت سے ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ مختلف طلبا اپنی استعداد کے مطابق مختلف طریقے سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مثلاًکچھ طلبا ٹیکسٹ پڑھنا پسند کرتے ہیں، کچھ متعلقہ تعلیمی مواد پر مظاہرہ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ طالب علم کیلئے کورس کے ہر مرحلے پر تدریس کا طریقہ کار بدل جاتاہے۔ کسی ایک لیکچر کیلئے ویڈیو کا طریقہ شاید بہترین ہے جبکہ تحریری مشقیں اگلے مرحلے کیلئے شاید بہتر ہوں۔ کنٹز نے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کی کہ کمپیوٹر باالآخر مکمل تعلیمی ماحول فراہم کرنے کے قابل ہوجائے گا۔
کیمپس میں ڈیٹا کا ذخیرہ
یہ بات درست ہے کہ اگر کمپیوٹر اساتذہ کا متبادل بنتے ہیں تو بہت سے مزید لوگ تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ ایک تحقیق کے مطابق آن لائن تعلیم بھی وہی نتائج طلبا کو فراہم کر رہی ہے جو عام سکول، کالجزیا یونیورسٹیاں فراہم کرتی ہیں۔ تھرون کہتے ہیں کہ ابھی تو ہم نے آئس برگ کے کنارے کو دیکھا ہے۔ انہیں اور دیگر کمپیوٹر سائنسدانوں کی دلچسپی آن لائن کلاسز کے حوالے سے ڈیٹا کا بے پناہ ذخیرہ کرنے میں ہے جو موثر مشین لرننگ کیلئے ضروری ہوتاہے۔ ڈیفنی کالرکہتی ہیں کہ ان کی کمپنی کورسیرا کا سسٹم ڈیٹا کا بہت بڑا ذخیرہ جمع کر کے اس کا تجزیہ کرتی ہے، ڈیٹا کے ہر حرف کو جانچا جاتاہے۔ حتی ٰ کہ جب کوئی طالبعلم کسی ویڈیو کو روکتا یا اس کی سپیڈ بڑھاتا ہےتو کورسیرا کا سسٹم اسے بھی نظر انداز نہیں کرتا۔ یہی کچھ اس وقت ہوتاہے جب طالبعلم سوالوں کا جواب دیتاہے، اسائنمنٹ کرتاہےاور کسی فورم پر اپنی رائے پیش کرتاہے۔
وہ سکالر جو مُوکس کو نہیں مانتے خبردار کرتےہیں کہ کالج تعلیم اہم عنصر طالبعلم اور استاد کا براہ راست تفاعل ہے جو مشینوں کے ذریعے نہیں ہو سکتا خواہ پروگرامنگ کتنی بھی حساس کیوں نہ ہو۔
ڈیفنی کالرکہتیہیں کہ طالبعلم کے افعال اور رویوں سے متعلق چھوٹی سے چھوٹی چیزتفصیل اور مختلف علمی پہلوئوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ماضی میں طلبا کے جو پہلو چھپے رہتے تھے انہیں اب ظاہر کرکے ان کا تجزیہ کیا جاسکتاہے۔ اس سے طلبااور اساتذہ کو براہ راست فائدہ ہوتاہے۔ پروفیسرز کو کلاس میں ہونے والی سرگرمیوں کے بارے میں روزانہ کی رپورٹ ملتی رہتی ہے جس سے وہ طلباکی کامیابی کیلئے اہم نکات کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔ مُوکس کا سوفٹ وئیر طلباکو درست سمت میں لے کر جاتاہے۔
اگروال کہتے ہیں کہ ایم آئی ٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی دونوں ایڈ ایکس کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرکے تعلیمی تحقیق کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ سکالرز پہلے ہی سسٹم سے طلبا کا ڈیٹا حاصل کرکے ان کی تعلیمی صورتحال کا تجزیہ کرنا شروع کرچکے ہیں اور جیسے جیسے کورسز میں طلباء کے داخلے بڑھتے جائیں گے اس میں تحقیق کے امکانات مزید روشن ہوتے جائیں گے۔اگروال کا اندازہ ہے کہ ایڈ ایکس کا ڈیٹا بنک استعمال کرکے مزید فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ مثلاً مشین شاید اس قابل ہو جائے کہ وہ طلباء کی آن لائن نقل مارنے کے رحجان کا پتہ چلا سکے۔
مُوکس کی کارکردگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے کمپیوٹر پر بنے مراکز اور طے شدہ اہداف بڑے واضح ہیں۔ وہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ مشینیں مصنوعی ذہانت کو استعمال کرکےطلباء کے رحجانات کا درست اندازہ کریں لیکن مُوکس کے بارے میں گرمجوشی کو بے یقینی کی فضا دھندلا دیتی ہے۔ جو لوگ مُوکس کی کارکردگی کے بارے میں شبہ میں مبتلا ہیں ان کا کہنا ہےکہ مشینی شعور دراصل ابھی تک محض نظریہ کی حد تک ہی ہے۔اگر مصنوعی ذہانت کی تکنیکس سے درست تعلیمی اور تدریسی مقاصد بھی حاصل ہوتے ہوں تب بھی ان کا نفاذ اور فائدہ بہت محدود ہے۔ مشین پر ہدایات سیٹ کرکے طلبا کی تعلیمی حالت کو سمجھنا اور ان کی رہنمائی کرنا مختلف ہے جبکہ کلاس روم میں استاد کے بدلتے ہوئے ماحول، حالات اور طلبا کے براہ راست سوالات اور ان کی الجھنیں سلجھانا دوسری بات ہے۔
e-institutions
امریکی ریاست الی نوائس (Illinois) کے ویٹن کالج(Weaton College)کے انگلش کے پروفیسرایلن جیکبز(Allen Jacobs)نے بھی فاصلاتی تعلیم کے بارے میں اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ اپنی ایک ای میل میں انہوں نے لکھا ہے کہ کالج کے طالبعلم کے تعلیمی مسائل کلاس میں زیادہ بہتر انداز میں حل کئے جاسکتے ہیں۔ طلباء سے جو کلاس میں بات چیت ہوتی ہے وہ انٹرنیٹ کلاسز میں اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک لوگوں کو لکھنے کی تمام تکنیکس میں مہارت حاصل نہ ہو۔ کمپیوٹر سکرین کالج کے کلاس روم کے عکس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
کلاس روم کا تصور بدلنا
مُوکس کے بنانے والے اور حامیوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ کمپیوٹرز کلاس روم کی جگہ لے لیں گے لیکن وہ یہ رائے دیتے ہیں کہ اس سے کیمپس میں طلباء کیلئے رہنمائی اور ہدایات کی نوعیت بدل جائے گی اور اس سے طلباء کو تعلیمی معاملات میں زیادہ سے زیادہ مصروف رکھنے اور اہلیت میں اضافہ کرنا ممکن ہو جائے گا۔ طلباء کا کلاس میں جانا، لیکچر سننا، اپنی اسائنمنٹ بنانے میں مصروف ہوجانا ایک روائتی طریقہ ہے جو فاصلاتی تعلیم سے بدل جائے گا۔ طلباء اپنے لیکچر اور تعلیمی مواد آن لائن حاصل کر کے ان کا مطالعہ اور تجزیہ کرسکیں گے (جیسا کہ چند مڈل اور ہائی سکولوں نے خان اکیڈمی کے ویڈیوز استعمال کرکے ایسا کیا ہے) ۔اس طرح جب طلباء اپنے کلاس روم میں اکٹھے ہوتے ہیں تو وہ مختلف موضوعات پر اپنے پروفیسرز کے ساتھ زیادہ گہرائی سے بحث کرسکیں گے۔ اس طرح یہ بدلتا کلاس روم طلباء اور اساتذہ کیلئے بہت فائدہ مند رہتاہے۔
ان تمام مثبت باتوں کے باوجود مُوکس کے بارے میں بہت سے شبہات موجود ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ مُوکس میں داخلہ لینے والے طلباء اپنا تعلیمی دورانیہ مکمل نہیں کر پاتے۔ ناروگ(Norvig)اور تھرون (Thrun)کی مصنوعی ذہانت کی کلاسز میں 1,6000افراد نے داخلہ لیا تھا لیکن صرف 14فیصد نے کورس مکمل کیا۔ ایم آئی ٹی میں داخلہ لینے والے 1,55000طلباء تھے جن میں سے صرف 23000نے کورس مکمل کیا۔ جبکہ ان میں سے بھی 7000یا صرف5فیصد طلباء نے کورسز پاس کئے۔ طلباء کی آن لائن کلاسیں چھوڑنے کی شرح کو روکنا خاصا مشکل ہے۔ مُوکس کو لازماً طلباء کی بہت بڑی تعداد کو داخلہ لینے اور اپنے کورسز مکمل کرنے کی طرف مائل کرنے کی بھرپور کوشش کرنا ہے۔ یونیورسٹیوں نے مُوکس کی کارکردگی پر جو سوال اٹھایا ہے وہ اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا مُوکس اپنا عروج قائم رکھ سکیں گے۔
Courtesy: technologyreview.pk