(عطیہ داؤد)
میری نظر میں فیمنزم کیا ہے ؟ یہ سوال میرے لیے ایسا ہے کہ جیسے پوچھا جائے کہ تمہارا نام عطیہ کیوں ہے ! جیسے پہلی بار میں نے اپنے نام پکارے جانے پر آنکھ اٹھا کر پکارنے والے کی طرف دیکھا ہو گا لیکن وہ وقت اور وہ گھڑی میری یاد میں محفوظ نہیں ہے۔ اسی طرح سے یہ سوچ جس کو فیمنزم کہتے ہیں،مجھے یاد نہیں کہ کب اور کیسے پہلی بار میں نے اس کو محسوس کیا ہو گا۔اپنی عورت ہونے پر بڑائی کا احساس، لڑکی کی حیثیت کو کم تر کرکے پیش کرنے پر میرے اندر احتجاج کا امڈآنا، اپنے مؤقف پر ڈٹ کر کھڑے ہو جانا، یہ میرے مزاج کا حصہ رہے ہیں،مزاج کیسے بنتا ہے اس کو تو نفسیاتی ماہرہی بیان کر سکتا ہے۔
فیمنزم کیا ہے،اب تو میں یہ جان چکی ہوں لیکن سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں مولا ڈ نو لاڑک کے ملاؤں کا محلہ (ملن جو پاڑو) کے گاؤں میں رہنے والی،حافظ داؤد کی بچی ہرگز نہیں جانتی تھی۔میں اپنی ماں کی گود میں تھی،جب کسی عورت نے ان سے پوچھا تھا کہ تم نے اس کا رشتہ اب تک طے کیا ہے یا نہیں ؟ اس عمر میں جب ماں سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس کو اسکول میں داخل کرایا ہے یا نہیں۔میرے جسم میں ایک جھر جھری سی آئی تھی اور تڑپ کر میں نے اس بے رحم کو دیکھا تھا،پھر جب میں نے ماں کو دیکھاتو ان کی آنکھوں میں غصہ تھااور اماں نے جواب دیا تھا۔’’ میری بچی شہر میں جا کر پڑھے گی اور وہیں رہے گی تب اس کی مرضی ہوگی کہ جس سے چاہے شادی کرے یا نہ کرے ‘‘ یہ جواب ایک ایسی عورت کا تھا جو کہ علم کے نام پر ایک لفظ بھی نہیں پڑھی،کبھی اسکول کی شکل بھی نہیں دیکھی اور یہاں تک کہ مذہبی تعلیم بھی نہیں لی،قرآن نہیں پڑھا،فقط نماز پڑھنا سیکھ لی تھی۔میری ماں بہت ہی گم گو ہے ایک تو وہ بات کرتی ہی کم ہے اور پھر بات کرتے ہوئے الفاظ اس کے منہ میں ہی اٹک جاتے ہیں،وہ ٹھیک طرح سے اظہار نہیں کر پاتی۔تیرہ سال کی بچی جس کی منگنی بچپن میں کر دی گئی ہو،سکھیوں کی چھیڑ چھاڑ کے دوران ہی جب وہ من ہی من میں اپنے منگیتر کو چاہنے لگی ہو اور پھر اچانک اس کو معلوم ہو کہ منگنی ٹوٹ گئی اور اب اس کی شادی اس کے دادا کی عمر کے آدمی سے ہو رہی ہے جو کہ اس کے پھوپھا تھے اور ان کی بیٹیاں کچھ عمر میں بڑی اور کچھ ہم جولیاں تھیں۔تو پھر ایسی عورت کے پاس بولنے کے لئے رہ بھی کیا گیا ہوگا۔ وہ کیوں کہ بولتی کم تھیں اس لئے ان کی آنکھوں میں سماج کے ان رسومات کے خلاف نفرتیں بھری پڑی ہوتی تھیں اس لئے تو میں جب بھی کوئی ایسا کام کرتی تھی جو کہ گاؤں کی اور لڑکیاں نہیں کر سکتی تھیں،جو فقط لڑکوں کے لئے وقف تھیں،جب میں کرتی تھی تو اماں کی آنکھوں میں جیت نظر آتی تھی۔میری عمر کی اور لڑکیاں جس زمانے میں گھر کا کام کاج کرتی تھیں میں محلے کے لڑکوں کے ساتھ جنگل میں لکڑیاں جمع کرنے جایا کرتی تھی۔میں جب چھ سال کی تھی تو ابا کا انتقال ہو گیا،مجھ سے آٹھ سال بڑی ایک بہن تھی اس سے تین سال بڑا ایک بھائی اور اس سے بھی تین سال بڑا،سب سے بڑا بھائی تھا۔ وہ تینوں ایک ساتھ پلے بڑھے،جب میری عمر کھیلنے کودنے کی تھی تو بھائی شہر پڑھنے اور نوکری کرنے جا چکے تھے،بہن کا بیاہ ہو چکا تھا میری بہن نارمل نہیں تھی مگر پھر بھی ان کی شادی کرا دی گئی۔ یہ فیصلہ میری بڑی بہنوں نے لیا تھا۔بھائی گھر میں نہیں تھے اس لئے مجھے تمام وہ کام کرنے کا موقعہ ملتا رہا جس سے مجھ میں اعتماد پیدا ہوتا گیا کہ میں ہر وہ کام کر سکتی ہوں جو لڑکے کرتے ہیں۔ دوسری جماعت میں پڑھتی تھی تو جب یہ نظم پڑھنے لگی تو وہ نظم میرے دماغ میں ہتھوڑنے برسانے لگی۔
میرے میٹھے مور بھیا،
تم پرواری بہن سدا
جب ابا کا انتقال ہوا تو میں چھ سال کی تھی، اس وقت اماں کی گود میں لیٹی ہوئی تھی کہ اس وقت کچھ عورتیں اماں کی ناک میں سے کیل اتارنے لگیں،مشکل سے پکڑ کر اتاری گئی،میرے گالوں پرگیلے گیلے آنسو میری ماں کے تھے،جوان کی آنکھوں سے ٹپکے تھے۔ میں یہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اماں کے آنسو کی اصل وجہ کیا ہو گی۔ اس طرح سے بے دردی سے ان کی ناک کی کیل اتارنا یا پھر اس لئے کہ ان کی لمبی اور پتلی سی ناک پر وہ خوب جچتی تھی۔ تھوڑی دیر کے لئے میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں کہ ان کا درد دیکھا نہیں جا رہا تھا، لیکن جیسے ہی آنکھیں کھول کر میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا تو مجھے ان کا چہرہ بہت سونا سونا سا لگا اور اجنبی بھی،مجھے پھر ان کا یہ چہرہ دیکھنے کے کئی دنوں کے بعد جا کر عادت ہوئی۔ان کی رنگ برنگی نگوں والی کیل پر ہی میں نے رنگوں کی پہچان سیکھی تھی کبھی اماں خود آئینہ ہاتھ میں تھامے اور کبھی میری بہن مجھے ان رنگوں کے نام بتاتی تھی۔پہلے میں نیلے اور ہرے رنگ میں فرق محسوس نہیں کر پاتی تھی اور کچھ دن ہی ہوئے تھے کہ میں نے ان رنگوں کو اچھی طرح پہچان لیا تھا،میں نے ان ہی دنوں میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ ایسی کوئی چیز نہیں پہنوں گی جو کسی اور سے منسوب ہو ،میرا اس پراختیار بھی نہ ہو۔
جنگل سے لکڑیاں کاٹنے تو سب بچے جاتے تھے، میں بھی جاتی تھی لیکن اس زمانے میں گاؤں کے سنسان اورگھنے پیڑوں والے قبرستان کی اونچی دیواروں کے اندر دروازہ کھول کر جا کر لکڑیاں کاٹنا،گاؤں کے بڑے لڑکے تو کیا پہلوان بھی ہمت نہیں کرتے تھے لیکن میں جلتی ہوئی دوپہر میں سنسان راستوں سے چلتی ہوئی اکیلی جاتی تھی اور لکڑیاں کاٹ کر گھر لے آتی تھی،میں جان بوجھ کر ایسا وقت چنتی تھی اس وقت اگر کوئی ملتا تو اس کی آنکھوں میں حیرانی اور تعجب دیکھ کر مجھے اپنی برتری کا احساس ہوتا تھا۔جتنا ان آنکھوں میں خوف ہوتا اتنا ہی میرا اپنے اوپر اعتماد گہراہوتا تھا اور یہ سب مجھے اس لئے مل ر ہاتھاکہ میں لڑکی تھی،اور یوں مجھے عورت کے وجود پر اعتماد ہوتا چلا گیا،اس سے پیار ہوتا چلا گیا۔میرے دوست لڑکوں کوجب استاد سے یا ان کے والدین سے ڈانٹ پڑتی تو کہتے تھے عطیہ لڑکی ہو کر بھی یہ سب کر سکتی ہے تو تم کچھ نہیں کر سکتے ! میں پڑھائی میں بہت اچھی تھی۔ہمارے گاؤں کے لڑکے قریبی شہر دربیلو میں آٹا پیسنے کی مشین سے گندم پسوانے بڑی سی پوٹلی سر پر رکھ کر جاتے تھے ۔وہ شہر ہمارے گاؤں سے کوئی تین یا چار کلومیٹر دور تھا۔ایک دن کوئی عورت اماں سے ہمدردی کرنے لگی،تم تو خود ہی چکی سے آٹا پیستی ہو اگر عطیہ بیٹا ہوتی تو اتنا آٹا تو پسوا کر لا سکتی تھی۔ دوسرے دن میں اپنے سر پر پانچ یا شاید دس کلوگندم لے کر اپنے خالہ زاد کے ساتھ جو مجھ سے عمر میں چھوٹا تھا،شہر کی طرف چل پڑی اور آٹا پسوا کر لے آئی،واپسی پر میرا کزن تو تھکن سے چور چور تھا اور میں احساس برتری سے سرشار۔
خاندان میں بلکہ گاؤں بھر میں فقط میں ہی ایک بچی تھی جس کا عقیقہ نہیں ہوا تھا،بہن بھائیوں میں عمر کے فرق کی وجہ سے میرے لئے یہ الگ ہی انتظام ہونا تھا ،باپ کا انتقال ہو چکا تھا۔ کچھ عرصہ تو اس لئے نہیں ہوا کہ سکت نہیں تھی پھر اماں کو سب نے کہناشروع کر دیا کہ عقیقہ تو کسی بھی طرح کرنا ہی ہو گا۔پہلے تو مجھے بھی شوق ہوا مگر جب میں نے سنا کہ کوئی عورت اماں سے باتیں کر رہی تھی، یہ بھی اچھا ہے کہ لڑکی ہے لڑکا ہوتا تو دو بکرے کرنا پڑتے۔میں نے جب اماں سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ لڑکے کے لئے دو اور لڑکی کے لیے ایک بکرا عقیقہ کی رسم کے لئے فرض ہے۔ تو پھر میں نے واضح الفاظ میں اماں سے کہا کہ اگر کرنے ہیں تو دوبکرے کرو ورنہ ایک بکرا تو میں کرنے ہی نہیں دوں گی۔گھر سے بھاگ جاؤں گی۔اماں میرے مزاج سے واقف تھیں وہ جانتی تھیں جو کہہ سکتی ہوں وہ کر بھی سکتی ہوں۔ انہوں نے عقیقہ کیا ہی نہیں۔ اور اب تک کہتی ہیں کہ تمہیں دمہ کی بیماری اس لئے ہی لگ گئی ہے۔ اس وقت میں نے اس بات پررضا مندی کر لی تھی کہ میرا عقیقہ نہ ہی ہو مگر اس وقت دل میں سوچا تھا جب میری بیٹی ہو گی تو میں گاؤں والوں کو دکھاکر رہو ں گی کہ کیوں لڑکی کے لئے دو بکرے قربان نہیں کئے جا سکتے۔میں ڈنکے کی چوٹ پر ان کا عقیقہ کروں گی۔آج یہ سوچ کر مسکرا دیتی ہوں ،اپنے بچپن کی اس ضد کو عملی جامہ پہنانے کا اب میں سوچ بھی نہیں سکتی کیوں کہ اس کی میرے لئے اب اہمیت ہی نہیں ہے اور نہ میری بیٹیوں کو میری طرح قدم قدم پریہ ثابت کرنے کی کوئی ضرورت باقی رہ گئی ہے۔
انیس سو چھیاسٹھ میں میری بھتیجی پیدا ہوئی،مجھے بہت خوشی ہوئی،میں نے اماں سے کہا کہ مٹھائی کیوں نہیں بانٹتے، ان کی جگہ بھابھی کی خالہ نے مجھے جھڑکتے ہوئے کہا کہ لڑکی پیدا ہونے کی خوشی نہیں منائی جاتی،کیوں کہ فقط طوائف کے ہاں بیٹی پیدا ہونے پر کوٹھے پرہی خوشی منائے جانے کا رواج ہے،میں طوائف کے نام سے واقف نہیں تھی مگر مجھے یہ جواب بہت برا لگا تھا۔میرے پاس ایک ر وپیہ جمع تھا اس کی دکان سے شیرینی لے آئی اور بچوں میں بانٹنا شروع کی تو عورتیں ہنسنے لگیں تو میر ی خالہ مجھے تنقید سے بچانے کے لئے ان سے صفائی پیش کرنے لگیں کہ اصل میں بچی کو پیدا ہونے کے بعد تھوڑا سا بخار ہو گیا ہے،ا س لئے ہی اس کا صدقہ اتارنے کے لئے یہ مٹھائی بانٹی جارہی ہے۔
میں نہیں جانتی تھی کہ اس گاؤں سے دور بڑے شہروں میں یا اور ملکوں میں ان ہی حقوق کے حاصل کرنے کے لئے ایک منظم جدوجہد چل رہی ہے۔میں نے کسی بھی عورت کو بے پردہ نہیں دیکھا تھا اور نہیں معلوم تھا کہ عورت کے لئے ایسی بھی دنیا ہو گی مگر میں خود کو جوان عورت کے روپ میں گاؤں کی گلیوں میں آزاد جسم اور ذہن کے ساتھ گھومتا ہوا پاتی تھی۔بچوں کے ساتھ کھیلوں میں میں نے خوب بغاوتیں کیں اور بہت اچھے اور پیارے دوست گنوائے۔گھر گھر کھیلتے ہوئے جب پہلی بار میں نے کہا تھا کہ میں گھر کے کام کے علاوہ بازار سے سودا سلف لینے بھی جاؤں گی تو تمام بچے چونک پڑے تھے،حالاں کہ کھیل میں یہ سب جھوٹ میں ہی ہوتا تھا۔پھر بھی وہ لوگ اس کو قبول نہیں کرپا رہے تھے۔پہلے تو مجھے خوب سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن جب میں اپنی بات پر اڑی رہی تو پھر کسی نے یہ تجویز پیش کی :’’ ٹھیک ہے ! تو پھر تم اس کھیل میں ادا ( بھائی )بن جاؤ ‘‘۔ میں نے پر زور الفاظ میں احتجاج کیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا،میں ادی (عورت) ہی بنوں گی لیکن پردہ بھی نہیں کروں گی اور بازار سے سامان بھی میں خود لے آؤں گی۔کچھ دن انہوں نے بائیکاٹ کیا، لیکن پھر کچھ میرے دوست ایسے تھے جنہوں نے میرا ساتھ چاہتے ہوئے میری یہ شرط مان لی تھی اور پھر ایک دن میں نے نیا جھگڑا شروع کیا،جب اپنے کزن کے ساتھ جھوٹ موٹ کی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اعلان کیا کہ گاڑی میں ہی چلاؤ ں گی اور وہ میرے سر پر کوئی چھوٹاسا پتھر مار کر چلا گیا۔ اس کزن کی میری ساتھ خوب بحثیں ہوتی تھیں کیوں کہ تقریباًہم عمر تھا اور ہم ایک ہی جماعت میں پڑھتے تھے مگر عمر میں میں بڑی تھی۔وہ ہر ممکن کوشش کرکے یہ مجھ پر واضح کرنا چاہتا تھا کہ لڑکے مضبوط اور اعلیٰ نسل کے ہوتے ہیں۔ایک دن لکڑیاں کاٹتے ہوئے اس نے مجھ سے کہا میں تو بڑا ہو کر پاکستان کا صدر بن جاؤں گا تم کیا بنو گی ؟ میں نے کہا میں بھی صدر بنوں گی۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا نہیں تم صدر نہیں بن سکتیں، پھر اس نے مجھے نام گنوائے کہ پاکستان میں کوئی عورت صدر بن ہی نہیں سکتی،فاطمہ جناح نے بھی تمہاری طرح کوشش کر کے دیکھی اس کا انجام دیکھ لیا نا۔مجھے بہت غصہ آیا۔ تن من میں آگ بھڑک اٹھی،مگر کیا کرتی اس سے زیادہ اس معاملے میں میری معلومات تھی ہی نہیں جو اس کو منہ توڑ جواب دے سکتی۔اور پھر اچانک میرے ذہن میں آیا اور میں نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا :میں ! میں تو سرکار بنوں گی،سرکار؟!! سرکار کیاہوتا ہے،میرے کزن نے پوچھا ! میں نے کہا :سرکار ہوتا نہیں بلکہ ہوتی ہے۔تم نے سنا نہیں ہے،لوگ کہتے رہتے ہیں، سرکار یہ کر لے گی،وہ کر لے گی۔ یہ تونہیں کہتے کہ سرکار یہ کرتا ہے یا وہ کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سرکار عورت ہوتی ہے اور طاقت میں وہ صدر سے بھی بڑی ہی لگتی ہے۔میرا کزن لا جواب ہو گیا۔
گاؤں کے اسکول میں فقط پانچویں تک ہی تعلیم دی جاتی تھی، اس لئے چھٹی جماعت میں پڑھنے کے لئے نواب شاہ میں اپنی بہن کے پاس چلی گئی اور تعلیم جاری رکھی،چھٹیوں میں گاؤں چلی جاتی تھی،مجھے بہت برا لگتا تھا بلکہ بے عزتی محسوس ہوتی تھی جب کوئی لڑکا خاص طور پر مجھے چھوڑنے جائے یا لینے آئے اور وہ بھی میری ہی عمر کا ہو۔ میں اکیلی سفر کیوں نہیں کر سکتی ؟یہ سوال میرے اندر بغاوت کی چنگاری کو بھڑکا رہا تھا اور پھر ایک دن ضد کر کے اماں کو راضی کر کے
اکیلی سفر کو چلی۔کوئی دس یا گیارہ سال عمر ہو گی۔اماں اس شرط پر راضی ہوئیں کہ اس اسٹیشن تک محلے کا ایک لڑکا مجھے چھوڑنے جائے گا ۔ٹکٹ خرید کر کے ٹرین میں بٹھا دے گا۔میں چپ ہو گئی۔گاؤں سے اسٹیشن دور تھا اور وہ بھی سنسان اور ویران روڈ پر۔ پورے دن میں ایک ہی بار یہ ایک ٹرین جاتی تھی،گاؤں کو پار کیا۔میں اس کے ساتھ چلتی جا رہی تھی،مجھے بہت برا لگ رہا تھا۔ میرا ہی ہم عمر اور وہ بھی سب سے زیادہ بدھو،بے وقوف ڈرپوک لڑکا تھا اور اس وقت میرا رہنما بن کر میرے آگے آگے چل رہا تھا۔ میرے اندر غصہ ابھرنے لگا۔اس کو راستہ بھی ٹھیک سے معلوم نہیں تھا اور وہ ڈر بھی رہا تھا پھر بھی سب کہہ رہے تھے کہ غفور،عطیہ کوچھوڑنے جا رہا ہے۔یہ سوچ کر مجھے بہت غصہ آنے لگا اور میں نے اس کو للکارا کہ میں اکیلی ہی جاؤں گی تم بھاگو یہاں سے۔وہ تو خوش ہو گیا،معاوضہ تو وہ لے ہی چکا تھا اس نے میر ابکسہ وہیں رکھا اور بھاگ گیا۔ٹین کا بکسہ میں نے اپنے سر پر رکھا اور چل پڑی۔ اسٹیشن کی طرف فخر سے سینہ تانے ہوئے۔چنڑ گاؤں کو پار کرتے ہوئے کھیت میں کام کرنے والے کسی شخص نے مجھے جاتا ہوا دیکھا تو آواز دی اور تھوڑی دیر میں ہی میرے سامنے بھی آگیا۔میں نے اپنا تعارف کرایا۔ وہ ابا کو جانتا تھا۔اس نے حیرت سے کہا تم اکیلی ہی جا رہی ہو ۔میں نے بہت اعتماد کے ساتھ جواب دیا کہ شہر میں پڑھتی ہوں تو جانا ہی پڑتا ہے،اور کئی بار اکیلی جا چکی ہوں۔اس شخص کو حیران چھوڑ کر میں آگے نکل گئی۔اسٹیشن پر پہنچ کر میں ٹکٹ لینے کے لئے کھڑکی کے پاس گئی،وہاں عورتوں کے لئے الگ کھڑکی نہیں تھی،کیوں کہ شاید اس سے پہلے کسی عورت نے ٹکٹ خود تو نہیں لیا ہو گا۔بکسہ نیچے رکھ کر کھڑکی سے پتلی کلائی اندر ڈالتے ہوئے پیسے دیتے ہوئے میں بہت نے فخر سے سرشار لہجے میں کہا’نواب شاہ کے لئے آدھا ٹکٹ …….. وہ بہت بری طرح سے چونکا،میں نے دوبارہ دہرایا تو اس نے میری طرف ٹکٹ بڑھاتے ہوئے کہا کون ہو تم،اکیلی کیسے جا رہی ہو ؟ میں نے کہا میں جار ہی ہوں تو کیا ہوا !! تھوڑے سے لوگ ٹرین کا انتظار کر رہے تھے جب ٹرین آئی تو خوشی سے میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔اس اسٹیشن پر میں نے کئی بار اپنی فیملی کے ساتھ سفر کیا تھا،کوئی ویٹنگ روم نہیں تھا، پٹڑی کی دوسری طرف پیڑ کی چھاؤں میں بکسے کے اوپر یا پھر کسی پتھرکے اوپر یا کپڑا بچھا کر عورتیں سفید جالی کے برقعے میں لپٹی ہوئی اسٹیشن کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھی ہوئی ہوتی تھیں۔ کئی بار یہ خوف میری رگوں کو چھوتا ہوا میری آنکھوں میں بھی لہرایا تھا کہ کیا کسی دن میں بھی ایسے ہی سفید برقعے میں لپٹی ہوئی کہیں کونے میں بیٹھی ہوئی اپنے بچوں کی منتیں کر رہی ہوں گی کہ جا کر اپنے ابا سے پوچھ لو کہ ریل کب آئے گی۔لیکن آج اپنے ہاتھ میں آدھا ٹکٹ تھامے ہوئے مجھے لگا کہ میں اس چنگل سے آگے نکل چکی ہوں۔ٹرین آئی اور میں خود اپنے پاؤں سے چلتی ہوئی اس میں سوار ہوئی،عورتیں اکثر ریل کو دیکھ کر گھبرا جاتیں تھیں۔ بوکھلاہٹ میں ان سے چلا بھی نہیں جاتا تھا، موٹی جالی سے کیا نظر آتا ہوگا ؟ مردان کو بازو سے پکڑ کر تقریباً گھسیٹتے ہوئے ریل میں چڑھاتے تھے اور جب میں ریل میں بیٹھ چکی تو تھوڑی دیر میں ٹکٹ چیکر آیا،جس عورت سے وہ کہتا کہ ٹکٹ تو وو جواب دیتی مردانہ ڈبے میں ہے، میری طرف دیکھ کر اس نے کہا آپ کا ٹکٹ بھی مردانہ ڈبے میں ہے ؟ میں نے فخر سے سینہ تان کر کہا نہیں میرا ٹکٹ میرے پاس ہے،اور میں اکیلی سفر کر رہی ہوں۔ یہ الگ بات کہ عورتوں نے مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی تھی۔اسٹیشن پراتری، ٹکٹ چیکر کو خود ٹکٹ دیا،ٹانگہ لیا،دروازے پرپہنچ کر میں نے پرس میں سے ٹکٹ نکالا اور بہت فخر سے اس کو خود پیسے دئیے،مجھے اس سفر سے بہت خوشی اور اعتماد ملا تھا، حالانکہ اس کی قیمت مجھے مہنگی پڑی تھی،بہنوئی سے ڈانٹ پڑی تھی۔
مجھے کیا معلوم تھا کہ اپنی جن خواہشات کے لئے میں لڑ رہی ہوں،مخالفت سہہ رہی ہوں، یہ فیمنزم کہلاتا ہے۔کیوں کہ شہر میں آکر مجھے اس کی مخالفت زیادہ بھگتنی پڑی۔و جہ یہ بھی ہو گی کہ میں ٹین ایج میں داخل ہو کر بڑی بچی یا لڑکی نظر آنے لگی تھی۔
اس وقت انٹر نیٹ اور الیکٹرانک دور میں بھی میرے گاؤں کی کسی بھی بچی یاعورت سے جا کر یہ سوال کیا جائے کہ فیمنزم کیا ہوتا ہے تو جواب میں فقط حیرت سے پھٹی ہوئی آنکھیں نظر آئیں گی اور انہوں نے اب تک اس لفظ کو کبھی سنا بھی نہیں ہو گا،تو انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اس گاؤں میں پرورش پانے والی بچی کے لئے کیا یہ گمان کیا جا سکتا ہے ؟ لیکن پھر بھی میرے وہ جذبات،احساسات،میرا احتجاج،میرے خواب،سپنے،میری لڑائیاں اور وہ دکھ سب کے سب ایسے تھے جس کے لئے میں نے اب سنا ہے کہ اس کو ہی فیمنزم کہتے ہیں۔
اپنی ماں سے الگ نواب شاہ میں ایک بہن کے پاس رہتی تھی،ان کے علاوہ میری دو اور بہنیں بھی اپنی فیملی کے ساتھ وہیں آباد تھیں۔میری ایک بہن بہت رجڈ مذہبی اور تنگ نظر تھیں، میری معاشی ذمہ داری تو ایک بہن پر تھی یا بھائی پر تھی لیکن میں ملکیت اپنی تینوں بہنوں کی بن گئی تھی۔جب مجھے پہلی بار پیریڈ شروع ہوئے تو تینوں بہنوں نے ایک جگہ جمع ہو کر اس کاسوگ منایا،مجھے دیکھتی جاتیں اور روئے جا رہی تھیں،کہ ابھی اس گھڑی سے ہمارے مرحوم والد کے لئے عذاب شروع ہو گیا،جب تک میری شادی نہیں ہو گی تب تک ان کی پاک روح تڑپتی رہے گی۔جب کہ میری بھانجیاں مجھ سے عمر میں بہت بڑی تھیں۔ ان میں سے کسی کی بھی شادی نہیں ہوئی تھی۔میری تنگ نظر بہن کے حکم پرمیرے لئے ایک بہت ڈارک گرین کلر میں موٹے کپڑے کا ایپرن سلوایا گیا۔جس کو میں نے کئی دنوں تک پہنا،اس کو پہن کر بہت گرمی لگتی تھی اور وہ رنگ مجھے بہت برا لگتا تھا۔ایک سال وہاں پڑھنے کے بعد میری فیملی حیدر آبا دشفٹ ہو گئی اور پھر میرے دوسرے نمبر بھائی نے زبردستی مجھے برقعہ پہنا دیا۔ کالے رنگ کے ریشمی برقعے کی موٹی جارجٹ کے نقاب سے آسمان صاف دکھائی نہیں دیتا تھا اور دنیا بہت دھندلی نظر آتی تھی، دو کمروں کا ایک چھوٹا سا کوارٹر تھا جس میں ہم رہتے تھے اور اس گھر میں میری پسندیدہ جگہ باہر کھلنے والی کھڑکی تھی۔بھائی ناراض ہوتا تھا،اماں کہتی تھی جب بھائی گھر آتا ہے تو تم اس کھڑکی میں کیوں کھڑی ہو جاتی ہو۔اس وقت ہٹ جایا کرو مگر ایسا کرنا مجھے یاد ہی نہیں رہتا تھا،کیوں کہ کھڑکی میں سے جھانکنے کو میں کوئی بری بات یا جرم تصور نہیں کرتی تھی،اس زمانے میں ہمارا وہ گھر تھا بھی بہت سنسان جگہ پر۔کبھی کبھار وہاں سے کوئی آدم کی اولا دگزرتا ہو گا۔مجھے تو بس کھڑکی سے نظر آنے والی روشنی اور آسمان ہی اچھا لگتا تھا۔کوئی دو سال تک میں کالے نقاب کے پیچھے سے گھٹ گھٹ کر دنیا کو دیکھتی رہی۔۱۹۷۶ء میں میرا بڑا بھائی ہمیں کراچی لے آیا، بڑا بھائی روشن خیال تھا،اس کا اشارہ پاتے ہی میں اپنا برقعہ وہیں پھینک آئی تھی۔کراچی کی بس میں بنا برقعے کے کھڑکی سے جھانکتے رہنا مجھ بہت اچھا لگا،کھلی آنکھوں سے کرا چی کو دیکھا تو مجھے کراچی سے پیار ہو گیا۔کراچی آتے ہی میری ماں اور بھابھی نے بھی برقعہ ترک کر دیا تھا اور پھر پورے خاندان کی عورتوں نے ہی رفتہ رفتہ پردہ ترک کر دیا۔نقاب کے پیچھے سے دنیا کو دیکھنے کی گھٹن میں اب تک محسوس کر سکتی ہوں۔ کراچی نے بھی کھلے دل سے مجھے قبول کیا اور اس کے لمبے اور وسیع راستوں پر میں اپنی مرضی سے چلتی رہی۔ گاڑیوں کے دھوئیں اور لوگوں کے بے پناہ ہجوم اور بھیڑ کے درمیان میں نے خود کو آزاد پایا،بسوں کے گیٹ کے پائیدان پر لٹکتے ہوئے سفر کیا اور خود کو محفوظ سمجھا۔میرا مطالعہ بہت کم تھا مگر جتنا مجھے موقعہ مل سکا تھا وہ میں نے کیا تھا۔ کراچی کے اوائلی دنوں میں مجھے میری دوست ثروت سلطانہ ملی جس کی اپنی اور اس کے بھائی نعمان جو این ای ڈی میں پڑھاتے تھے،ان کے گھر کی لائبریری کو میں نے اپنے سینے کے اندر اتار لیا،پیاس کم ہونے کے بجائے جب اور بڑھی تو پھر میں نے شہر کی لائبریری کا رخ کیا،ثروت کے توسط سے میں سارہ شگفتہ،شیما کرمانی اور احمد سلیم سے ملی،احمد سلیم سے مجھے بہت کتابیں پڑھنے کو ملیں او ر شیما میرے لئے پہلی ایسی رول ماڈل تھی جس کو اس کی زندگی میں میں نے اس طرح سے جیتے ہوئے دیکھا جس کا سپنا میں نے گاؤں میں دیکھا تھا۔یہاں تک پہنچنے کے بعد بھی میں اب تک فیمنزم کے لفظ سے واقف نہیں تھی۔میر ی ملاقاتیں لیفٹ کے لوگوں سے ہوئیں۔ڈی ایس ایف کے دوستوں سے ہوئیں،میں ان سے مکمل طور پر اتفاق کرتے ہوئے بھی کبھی ان کو جوائن نہیں کر سکی،اگر میرا سیاست میں کوئی نظریہ ہے تو فقط لیفٹ کی سیاست ہی ہو سکتی ہے،مگر پھر بھی میں اپنا آپ ان کو سونپنے کے لئے تیار نہیں ہو پائی کیوں کہ مجھے ان کے ہاں بھی تضاد نظر آیا۔جب کسی میٹنگ میں میں نے دیکھا کہ کچھ دوستوں نے کہا بھئی چائے تو تم لڑکیوں میں سے ہی کسی کو بنانی ہو گی۔میں نے اعتراض کیا تو سمجھایا گیا کہ نفسیاتی رویے ایک دم سے نہیں بدل سکتے۔عورت پرہونے والے کسی اہم واقعے پر کہا گیا کہ یہاں گھریلو اور کسی کی ذاتی زندگی کی باتیں نہیں ڈسکس کی جا سکتیں۔ تو پھر مجھے وہ لوگ اور وہ محفل بہت اجنبی لگی۔ احمد سلیم کے مشورے پر میں نے سندھی ادبی سنگت کا رخ کیا ۔اپنی نظمیں پیش کیں جن کو بہت سراہا گیا لیکن بھرپور تنقید بھی کی،کہ عطیہ کو اب ایک محدود دائرے سے باہر نکل جانا چاہیے۔ عورت کے محدود موضوع کے علاوہ اس کو اب انسانیت کی بات بھی کرنی چاہیے۔عورت کے تجربات ایک محدود موضوع ہوتا ہے۔
میں نے اس تنقید کے جواب میں کہا تھا۔ٹھیک ہے اگر یہ محدود موضوع ہے، مگر یہ میرے اند رکا سچ ہے۔تو اس لئے میرے لئے یہی بہت ہے۔فہمیدہ ریاض،کشور ناہید اور زاہدہ حنا کی تحریروں کو میں پڑھ چکی تھی مگر میرے دوستوں کی کوئی اچھی رائے ان کے لئے نہیں تھی۔ سنا تھا کہ انہوں نے بھی خود کو اپنی ذات تک ہی محدود کیا ہوا ہے۔ لیکن ان کی سیاسی سوچ کی وجہ سے ہی وہ لوگ قابل قبول حد تک تو گوارا ہیں مگر میں تو بالکل بے چاری تھی جس کو اس شاعری کے علاوہ اور
کچھ نہیں آتا تھا،عورت کے درد بیان کرنے کے علاوہ کچھ اور دماغ میں ہی نہیں سماتا تھا۔اس لئے مجھ سے ازراہ ہمدردی کرتے ہوئے مشورہ دیا جاتا تھا کہ بہن کو عالمی ادب کا مطالعہ کرنا چاہیے اور پھر جب کہ لینن نے کتاب ’’عورتوں کی نجات ‘‘ لکھ ہی دی ہے تو وہ عورتوں کے لئے ایک مکمل اور جامع کتاب ہے ۔اس کے بعد کچھ اور کہنے اور سننے کی ضرورت ہی نہیں اور پھر نیشنلسٹ سوچ رکھنے والے میرے دوست کہتے تھے جب شاہ عبداللطیف بھٹائی کا رسالہ موجود ہے، اس میں عورت کے تمام دکھ درد، احساس اور جذبات شامل ہیں تو پھر عورت کو کسی اور زاویے سے دیکھنے کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے ؟ مذہبی سوچ کے لوگ کہتے تھے کہ عطیہ کو قرآن شریف پھر سے اور ٹھیک طرح سے پڑھاؤ، اس میں ان تمام مسائل کا حل موجود ہے۔اس زمانے میں وہاں پر میرے علاوہ اور کوئی بھی عورت ریگولر نہیں شریک ہوتی تھی۔میری نظموں کو شہرت بھی ملنے لگی،میرے انٹر ویوز شائع ہونے لگے۔لوگ مجھے بطور شاعرہ پہچاننے بھی لگے لیکن مجھے اب تک یہ نہیں معلوم تھا کہ میں فیمنسٹ ہوں۔فیمنسٹ عورتوں کے لئے میں نے سن رکھا تھا کہ وہ کوئی اچھی عورتیں نہیں ہوتیں، ان کی نشانیاں جو مجھے رٹی ہوئی تھیں۔ اس لئے کہ مجھے باقاعدہ رٹائی گئی تھیں کہ وہ سگریٹ پیتی ہیں، سلیولیز ڈر یسز پہنتی ہیں،بال کٹے ہوئے ہوتے ہیں،کالا چشمہ پہن کر لمبی اور چمکتی ہوئی کار میں ہاتھ میں منرل واٹر کی بوتل پکڑ کر اخبار پڑھتی ہوئی نظر آتی ہیں۔خود اپنے شوہروں کے ساتھ ٹھاٹھ سے بڑے سے بنگلے میں سینکڑوں نوکروں کے سائے میں عیش و آرام سے زندگی بسر کرتی ہیں لیکن اوروں کے گھروں میں گھس کر ان کی زبردستی طلاق کراتی ہیں۔وہ خود بھی طلاق لینے میں دیر نہیں کرتیں اگر ان کے شوہر کی ہلکی سی چھینک بھی ان کو ناگوار گزرجائے تو طلاق لے کر پھر کسی اور سرمایہ دار سے شادی کر کے اس سے بھی زیادہ عیاشی کی زندگی گزارتی ہیں۔
اور پھر ایک دن میں اپنے ہاتھ میں سندھی اخبارات کا بنڈل تھامے ہوئے، عورتوں پرہونے والے ظلم کو مارک کئے ہوئے وومن ایکشن فورم کی میٹنگ میں پہنچ گئی،جاتے ہی اپنے اندر کا تمام غصہ ان کے اوپر نکالا،وہ ہی الفاظ دہرائے جو مجھے رٹے ہوئے تھے۔نزہت قدوائی میری طرف دیکھ کر مسکرائیں اور انیس ہارون نے بہت محبت اور نرمی سے ان باتوں کا جواب دیا۔ وہ خواتین مجھے بے حد اپنی لگیں اور پھر مجھے ان کے روپ میں میرے اپنے اندر ایک نئی طاقت کا احساس ہوا اور ایک نئی روشنی کو میں نے اپنے اندر محسوس کیا۔میں نے محسوس کیا کہ یہ عورتیں تو میرے پچپن کے سپنوں کی سکھیاں ہیں۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے میری نظموں کو سب سے پہلے زاہدہ حنا نے سراہا تھا،وہ سندھی ادبی سنگت میں بلائی گئیں تھیں۔لیکچر دینے کے لئے، پھر مجھے اپنے ہاں ہونے والی ادبی نشست میں بلایا تھا۔اس زمانے میں فہمیدہ ریاض ملک بدر تھیں۔وہ نئی نئی واپس آئیں تو میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ ہمیں ہر حال میں ان کو اکھٹے بیٹھ کر سننا چاہیے اور ملنا چاہیے۔میں ان کے پاس پہنچ گئی، دل میں ڈر بھی رہی تھی کہ ایک نئی کچا پکا لکھنے والی چلی ہوں تن تنہا ان کے گھر اور بلانے جارہی ہوں اپنے ایک چھوٹے سے مکان میں، جہاں آٹھ دس لوگ مشکل سے بیٹھ سکتے ہوں گے۔کوئی ان کے شایان شان تقریب نہیں،میں نے سوچا کہ وہ ڈانٹ کر بھگا دیں گی۔جب جھجکتے ہوئے میں نے ان کو کہا،اپنے ساتھیوں کے نام لئے تو انہوں نے کہا کل کیوں ؟ آج کیوں نہیں ! نزہت قدوائی نے مجھے پہلی بار اپنے گھر پر ہونے والی ایک تقریب میں بلایا۔یہ بارہ فروری کا دن تھا، پاکستانی عورت کی جدوجہد کا دن۔میں نے وہاں بھونڈی آواز میں ٹوٹی پھوٹی اردو میں اپنی نظمیں پڑھیں،میں نے تمام دوستوں کے چہرے پر بے پناہ خوشی دیکھی۔مگر فہمیدہ ریاض کا چہرہ میں نہیں بھول سکتی۔انہوں نے پھر بہت پیار سے میر ی نظموں کو اردو میں ترجمہ کیا۔اس کے بعد کشور ناہید نے میری نظموں کو سن کر خوشی کا اظہار کیا،وہ جتنی صاف گو ہیں اس لئے اعتبار ہو رہا تھا کہ اگر میری نظم کو اس قدر غور سے سن کر تعریف کر رہی ہیں تو یقیناًصحیح ہی کر رہی ہوں گی۔اس ہی زمانے میں آصف فرخی سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے میری نظموں کا انگلش میں ترجمہ کیا۔دانیال نے وہ کتاب چھپوائی،اس کتاب کے دیباچے میں آصف فرخی نے میرے لئے لفظ استعمال کیا تھا فیمنسٹ۔جو کہ اپنے لئے مجھے اچھا لگا تھا۔اس کے بعد جب اس کتاب پر مختلف لوگوں نے تبصرے کئے اور تمام نقادوں نے یہ لکھا کہ عطیہ فیمنسٹ شاعرہ ہے۔تو پھر مجھے بھی یقین ہو گیا کہ اچھا تو میں فیمنسٹ ہوں۔مجھے اس لفظ پر کوئی اعتراض نہ ہوا۔میں جس طرح سے سوچتی ہوں، جو محسوس کرتی ہوں، جو عملی طور پر کرتی ہوں، جس طرح میں جیتی ہوں،اس کو اگر فیمنسٹ کہا جائے تو مجھے کیا۔اگر اسی کو فیمنزم کہتے ہیں تو پھر سر آنکھوں پر۔