کیا میری ماں ابھی تک مشال کی ماں سے زیادہ خوش نصیب ہے ؟
(اسد علی طور)
مجھے مشال کی ماں میں اپنی ماں بار بار نظر آتی ہے۔۔۔ مشال کی بدنصیب ماں کا یہ جملہ میرے دماغ پر ہتھوڑے برسا رہا ہے کہ “میں نے جب مشال کا ہاتھ چوما تو اس کی ساری انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں”۔۔۔ ذرا سوچئیے تو ہم نے ایک ماں کے ساتھ کیا کردیا؟ اس کا گبھرو پتر گھر آیا بھی تو ہجوم کے ہاتھوں ایک پامال لاشے کی صورت میں۔۔۔پامال لاشے کی صورت میں؟ مجھے رہ رہ کر شعیہ مسلمانوں کی مجالس میں مصائب بیان کرتے ہوئے ذاکر کا ایک جملہ یاد آتا ہے کہ جب امام حسن علیہ سلام کے صاحبزادے علی اکبر علیہ سلام کا سر نیزے پر شام کے بازاروں میں پھرایا جارہا تھا تو ایک بڑھیا نے دیکھ کر کہا تھا “ اے اللہ اس کی ماں آج یہ منظر دیکھنے کے لیے زندہ نہ ہو۔” مجھے اپنی ماں یاد آتی ہے جس کو میں نے آج تک صرف ایک غم نہیں دیا کہ میں اس کی زندگی میں ابھی تک مرا نہیں! ورنہ کیا نہیں کر رکھا میں نے زمانہ طالب علمی میں آئے روز لڑ کر گھر آتا تھا یا اپنا خون شرٹ پر لگا ہوتا تھا یا کسی دوسرے کا اور وہ جائے نماز پر بیٹھ کر گھنٹوں روتی۔۔۔ نوکری لگی تو ہر بار روکنے کے باوجود استعفیٰ دیا۔۔۔ کئی سالوں سے شادی کا بولتی ہے لیکن نہیں کرتا۔۔۔ رشتے داروں سے ملنے کا کہتی ہے تو انکار کردیتا ہوں۔ نماز کی پابندی کی تلقین کرتی ہے مگر یہ بھی نہیں کرسکا۔
اس ملک کے حکمرانوں، ریاستی اداروں کے سربراہوں، دانشوروں، علماء، سیاستدانوں، اساتذہ، عدلیہ کے عہدیداروں، صحافیوں، اشرافیہ یعنی سماج کے ہر بااثر طبقے کو اپنے ہاتھوں پر مشال کا خون تلاش کرنا ہوگا۔۔ ہم سب کے ہاتھ مشال کے خون سے رنگے ہیں۔۔ ہم مشال کی ماں کے مجرم ہیں۔۔۔ ہم نے ایک ماں کا بچہ مار دیا۔ اب ہم اس کو شہید کہہ کر اپنے جرم سے بری الزمہ نہیں ہوسکتے۔
وزیراعظم کو ہی لیجئے نوازشریف صاحب کی طرف سے تین دن تک تسلی کرنے کے بعد کہ مشال پر الزام میں کسی قسم کی حقیقت نہیں مذمتی بیان جاری ہوا ورنہ پچھلے چند ماہ سے ان کی روشن خیالی کی تقریریں ہمارے کانوں میں کیا کیا رس نہیں گھولتی رہیں۔
سپہ سالار کو لیجئے۔۔۔ کیا انہوں نے خفیہ ادارے کے سربراہ کو بلا کر ان سے استعفیٰ طلب کیا کہ آپ کے ادارے نے ریاستی پالیسیوں کے ناقدین پر توہینِ مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر یہ ہتھیار مخالفین پر استعمال کرنے کا بھیانک ٹرینڈ متعارف کروایا اور رزلٹ۔۔ ایک ماں آج اپنے بچے کی ٹوٹی انگلیاں چوم رہی ہے۔ جی ہاں ٹوٹی انگلیاں۔۔ کیا بلاگرز پر توہینِ مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والے اہلکاروں کا کورٹ مارشل ہوگا؟ کچھ تو کیجئے حضور قتل کرو ہو یا کرامات کرو ہو۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے سوموٹو نوٹس تو لے لیا لیکن کیا وہ اپنی آستینیں بھی ٹٹولنا پسند کریں گے کہ پچھلے دنوں اخبارات میں کس کیس نے توہین مذہب پر ہیڈ لائنز بنوا کر معاشرے میں ہیجان برپا کیا۔ جناب! منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے۔ ایک دکھیاری ماں کی داد رسی کریں۔
مفتی نعیم صاحب کی طرف سے مشال کو شہید قرار دینا لائقِ تحسین ہے۔۔ انہوں نے اے آر وائے نیوز پر ماریہ میمن کو انٹرویو میں ممتاز قادری کے عمل کی مذمت بھی کی۔۔ لیکن مفتی صاحب یہ مذمت کرتے ہوئے بھی آپ کو چھ سال کیوں لگے؟ خادم حسین رضوی کو ہم لوگ تو لگام ڈالنے سے رہے۔۔ مولانا طارق جمیل کو لیجئے وینا ملک کی طلاق پر ٹی وی اسکرینوں پر جلوہ گر ہونے والے مشال کے بعد سے ابھی تک لاپتہ ہیں۔۔ مولانا طارق جمیل صاحب خدارا وینا ملک سے توجہ ہٹا کر مشال کی ماں کے آنسو بھی دیکھ لیں۔۔ مولانا طارق جمیل صاحب نے اپنی ہی ایک دنیا بسا رکھی جس میں بسنے والے انکے “گلیمریس” خطبات سے محضوض ہوتے ہیں جس میں وہ معتقدین کو مختلف فلمی ستاروں سے اپنی ملاقاتوں کا احوال سناتے ہیں ہیں لیکن معاشرے میں جن مسائل نے بے چینی پیدا کررکھی ہے اس پر کردار ادا کرنے سے کتراتے ہیں۔ مولانا کے نام ایک شعر ہے
ہاں پھر تو یہ مانیں کہ وہ قائد ہے ہمارا
جو بر سرِ منبر ہے سرِ دار بھی ہو تو
ہمارے نام نہاد دانشور اینکر حضرات کو ہی لیجئے جنہوں نے بغیر ثبوت کے بلاگرز کی کیا کیا منجی اپنے پروگراموں میں نہیں ٹھوکی۔۔ کیا کسی میڈیا ادارے کے مالک میں غیرت ہوگی کہ ان پرنور چہروں کو باہر کا دروازہ دکھائے؟ خدا کو خوف کیجئے کن بندروں کے ہاتھ میں آپ نے استرا دے کر ٹی وی اسکرین پر بٹھا دیا ہے۔
جن طبقات کا ذکر کیا ہے اندازہ کریں یہ ہمیں کس جگہ لے آئے ہیں کہ ہم بحث کررہے تھے توہینِ مذہب کے قانون میں کافی سقم ہے اس میں ترمیم کی جائے تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہو لیکن آج ہم یہ منتیں کررہیں کہ بھائی 295-C لگا لو لیکن سڑک پر مت مارو۔ آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ میں حضرت محمدﷺ کے لیے جان دے تو سکتا ہوں لیکن لے نہیں سکتا۔۔ آپ بھی تھوڑا احساس کریں ہمارے آقاﷺ کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا گیا تھا وہ سب سے زیادہ افسردہ ہوں گے۔