مشرف عالم ذوقی
میرا اختلاف شخص سے نہیں/ نظریے سے ہے
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
اردو افسانے کو مغرب کی نقالی کے طور پر پیش کرنے کے تنقیدی رویّے نے ایک بیزار کن فضا پیدا کی اور اکثر و بیشتر نقاد اسی مغرب کی کسوٹی پر اردو فکشن کا جائزہ لیتے ہوئے اردو کی داستانی تہذیب کو مسخ کرتے ہوئے ہمارے سامنے آئے۔ آغاز میں اردو افسانے پر ایڈ گرایلن یو، گالز وروی، چیخوف، موپاساں اور اوہنری کی چھاپ ضرور نظر آئی مگر ایسا اس لیے بھی تھا کہ اردو افسانے نے ابھی ابھی شتر مرغ کی طرح ریت کے سمندر سے اپنا سر نکالنا شروع کیا تھا۔ لیکن سجاد حیدر یلدرم، سلطان حیدر جوش، راشد الخیری سے ہوتا ہوا افسانہ جب منٹو، بیدی، عصمت، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی، قرۃ العین حیدر، عزیز احمد، ممتاز شیریں اور انتظار حسین کے عہد میں سانس لیتا ہے توسماجی حقیقت نگاری کے کتنے ہی رنگ، نئی زندگی کے حقائق کا سامنا کرتے ہوئے کھلتے جاتے ہیں۔ کہانی ہندستان، تقسیم، غلامی اور حقیقت نگاری کے بطون سے جنم لے رہی تھی اور نقادوں کی مشکل یہ تھی کہ ان کے پاس چشمہ کل بھی مغرب کا تھا اور آج بھی مغرب کا ہے۔
اگست ۲۰۱۰ء کے اداریہ میں نئی نسل کے نقاد ابرار رحمانی نے ان افسانوں کے حوالے سے کچھ ایسی تاویلات پیش کی ہیں جن کا جواب دینا اب ضروری ہو گیا ہے۔ مجھے اس بات کابھی شدت سے احساس ہے کہ ان ۲۰۔۳۰ برسوں میں فکشن کی تنقید لکھی ہی نہیں گئی۔ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو بغیر پڑھے ہوا میں لظفوں کے کرتب دکھا رہے تھے۔ اس لیے ایسی مریضانہ اور بوجھل تنقید سے الگ کچھ نئے مکالموں کو زیر بحث لانا اب ضروری ہوگیا ہے۔
اداریہ میں قیصر تمکین کے ایک مضمون کا حوالہ ہے جس کا عنوان ہے۔ آج کا اردو افسانہ۔ سن تحریر ۱۹۳۶ء ۔ اس مضمون کو اداریہ کی بنیاد بناتے ہوئے ابرار رحمانی نے کچھ بنیادی سوال اٹھانے کی کوشش کی ہے۔
* کیا واقعی اردو افسانہ ترقی کے منازل طے کر رہا ہے؟ یا یہ آج بھی قیصر تمکین کے گنائے گئے ناموں عابد سہیل، جوگندر پال، جیلانی بانو اور اقبال متین تک آکر وہیں تھم گیا ہے۔۔۔
ابرار رحمانی آگے بجا طور پر یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ افسانوں کے ذخیرے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن یہ اضافہ ہے یا انبار؟ آج بھی پریم چند، منٹو، بیدی، عصمت، کرشن چندر ناقابل عبور چٹان کی مانند ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔
’’پریم چند کے بعد بھی جدید افسانہ نگاروں کا ایک قافلہ نظر آتا ہے جو اردو افسانے میں بیش بہا اضافے کرتا ہے لیکن اس کے بعد بیسویں صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی میں اردو افسانہ چیستانی رجحان کا شکار ہو کر اپنے وجود اور بقاء کی جنگ لڑتا نظر آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدو جہد میں اسے کامیابی ملتی ہے اور اردو افسانہ میں ایک بار پھر کہانی کی واپسی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ کھڑا نظر آتا ہے کہ کیا اردو افسانہ یا فکشن اپنے دور اول اور دور دوم سے آگے کی جانب گامزن ہوسکا۔۔۔؟‘‘
اب ایک نظر قیصر تمکین (مرحوم) کے مضمون پر ڈالتے ہیں۔
نئے ادیبوں نے اپنے دوں کے مسائل کا جو حل پیش کیا۔ اس کے سلسلے میں شدت نے بڑھ کر انتہا پسندی کا روپ اختیار کر لیا۔ پھر افسانوی دنیا میں اس دور کے خاتمے کے لیے ایک عجیب جمود یا تعطل پیدا ہو گیا۔
یہاں دو باتیں خاص ہیں۔
۱۔ نئے ادیب اپنے دور کے مسائل کا عکس پیش کر رہے تھے۔
۲۔ اور ان کے بعد کی افسانوی فضا میں جمود یا تعطل پیدا ہو گیا تھا۔
تمکین بھی اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ یہ سب افسانہ نگار (اُس عہد کے) زندگی اور سماج کے اس جانے پہچانے رنگ و آہنگ کے ترجمان تھے جو مغرب میں موپاساں، چیخوف اور فلابیر کی تخلیقات کی شکل میں حیات جاوید حاصل کرچکا تھا۔ اس دور میں بلراج مین را، عبد اللہ حسین، جوگندر پال، رتن سنگھ جیسے نام سامنے آچکے تھے۔
قیصر تمکین آگے لکھتے ہیں۔ اکثر فنکاروں کے یہاں وجودیت کی پرچھائیں ملتی ہے۔ جو سارتر اور کامو کے ذریعہ ہمارے ادب میں چور دروازے سے آئی ہے۔
ظاہر ہے پریم چند کے بعد ادب میں چور دروازے سے ہی سہی، لیکن آنے والی تیز رفتار تبدیلیوں کے دورازے کھل گئے تھے اور ان تبدیلیوں کو محسوس کرنے والے بھی تھے۔ مغرب کے چور دروازے سے کہانی ہماری زبان کا حصہ بن رہی تھی، لیکن اس کے لیے سماجی حقیقت نگاری کی زمین ہندستانی مسائل نے فراہم کی تھی اور مشکل یہ تھی کہ نقاد ان کہانیوں کو مغرب کی کسوٹی پر ہی پرکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اب ایک اور بیان دیکھتے ہیں۔
ابھی حال میں میرٹھ یونیورسٹی کے چار روزہ ادبی فیسٹیول کے پہلے دن شمس الرحمن فاروقی نے اعلان کیا۔
۸۵ کے بعد افسانہ لکھا ہی نہیں گیا۔
ابرار رحمانی کا سوال ہے کہ کیا اردو فکشن دور اوّل یا دور دوم سے آگے ترقی کرسکا ہے؟
کم و بیش ان دونوں سوالوں کی نوعیت ایک ہی ہے۔ اور مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہے کہ فکشن کے نقادوں نے ۸۰ء کے بعد کے افسانوں کو کبھی سنجیدگی سے پڑھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔
اردو افسانے کی بات کیجئے تو عام نقاد پریم چند کے بعد کچھ ناموں پر آکر ٹھہر جاتے ہیں۔ منٹو، کرشن چندر، بیدی، عصمت ۔ آگے بڑھیے تو کچھ اور نام راستہ روک لیتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی، غلام عباس، قرۃ العین حیدر، ممتاز مفتی۔ کچھ اور آگے بڑھیے تو بلراج مین را، سریندر پرکاشن، اقبال مجید، جوگندر پال، جیلانی بانو۔ قمر احسن، اکرام باگ، سلام بن رزاق، عبد الصمد، شوکت حیات، حسین الحق، شموئل احمد، صغیر رحمانی، خورشید اکرم، نسیم بن آسی، غضنفر، بیگ احساس، مشتاق احمد نوری، ذکیہ مشہدی، شفق۔
ممکن ہے ان میں کچھ لوگ ۸۰ سے پہلے آچکے ہوں لیکن یہ لوگ ۸۰ کے بعد بھی فعال رہے اور لگاتار اپنی کہانیوں کے ذریعہ سرخیوں میں بنے رہے۔تو گویا ۸۰ کے بعد لکھا ہی نہیں گیا؟
فاروقی کا معاملہ مختلف اور پیچیدہ ہے۔ اس لیے، فاروقی صاحب کی گفتگو کے آئینہ میں اردو کے اس افسانوی سفر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
* ادب کی خوبصورتی اور خوبی کا معیار ادب ہی کو ہونا چاہئے
* تاثراتی تنقید لچر ہے۔
* بیدی نے عورت پر جو لکھا ہے، اس میں عورت کی امیج اسٹیریو ٹائپ ہے۔
بیدی صاحب کے تمام افسانوں میں (برے افسانوں میں، اچھے افسانوں میں، سب میں) جہاں وہ سنجیدگی سے نثر لکھنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ وہ فارسی آمیزی کا نہایت بھونڈا مظاہرہ کرتے ہیں۔
بیدی کی زبان بہت ہی ان گڑھ ہے۔
کھول دو منٹو کا نہایت لغو افسانہ ہے۔ تھرڈ گریڈ بلکہ فورتھ گریڈ۔
(انٹرویو۔ شہزاد منظر)
فاروقی نہ پریم چند کو پسند کرتے ہیں، نہ منٹو بیدی ، کرشن چندر، عصمت کو۔ ہر جگہ ان کی پسند کا معیار مختلف ہے۔ ادب میں سب سے پہلی قدر حسن اور جمالیاتی قدر ہوتی ہے۔
در اصل ۸۰ کے بعد افسانہ نہیں لکھا گیا، یہ فقرہ گوگول کے اور کوٹ کی طرح فاروقی کے ’جدید ذہن‘ سے برا مد ہوا ہے۔ اور شاید اسی لیے ادب میں نئے طوفان برپا کرنے کی غرض سے ۶۵۔۱۹۶۶ء میں شب خون رسالے کی پالیسی سامنے آگئی۔ جدیدیت کا فروغ۔ اور اس فروغ کے لیے، دو کالم کے ذریعہ فاروقی نے ادب پر ہلّہ بول دیا۔ مرضیات جنسی کی تشخیص اور بھیانک افسانہ۔ اب افسانہ سماجی قدروں اور مسائل سے نظریں چرا کر مرضیات جنسی کی تشخیص میں پناہ لیتے ہوئے بھیانک ہو چکا تھا یہ منٹو کی کہانیوں کی طرح چونکانے والا معاملہ تھا۔ اس میں اگر نیا کچھ تھا تو یہ، کہ فاروقی نے اس عہد کے فنکاروں کو اس پس منظر میں جدیدیت کے سبز باغ دکھا دیئے تھے۔
شاید اب افسانے کے نئے مزاج پر نئے تجزیے کی ضرورت ہے اور معافی کے ساتھ کہ پریم چند کے بعد جمود اور تعطل کی فضا جہاں قائم ہوئی، وہ وہی دور تھا، جہاں فاروقی نے ۱۹۶۶ء میں بہت سوجھ بوجھ اور اسٹریٹجی کے ساتھ شب خون کا اجراء کیا۔ جاگیردارانہ نظام سے باہر نکل کر ایک ہونہار ذہین نوجوان کچھ نیا کرنا چاہتا تھا۔ وہ مغربی ادب کا مطالعہ کرتا ہے۔ پھر غالب کو پڑھتا ہے۔ ۔۔۔ داستانوں کو۔ وہ جانتا ہے، داستان سے غالب تک تفہیم و تنقید کے لیے اگر اس نے اپنے لیے نئے راستوں کا انتخاب نہیں کیا تو وہ بہت سے لوگوں کی طرح بھیڑ میں شامل ہو جائے گا۔یہاں زبردست مطالعہ، اردو زبان و ادب کے ساتھ کھلواڑ کا مطالبہ کر رہا تھا۔شاید اسی لیے نئے افسانوں کی تلاش کرتے ہوئے وہ بھیانک افسانوں کی سرنگ میں بھی اترتے چلے گئے۔ اور پھر افسانہ نگاروں کا ایک ایسا قافلہ سامنے آیا جو سچ مچ بھیانک کہانیوں (جدید، تجریدی) کے خالق بن گئے تھے۔اور جب انہیں ہوش آیا تو ان میں سے کئی زندہ رہتے ہوئے بھی گمنامی کی گود میں چلے گئے۔ مثال کے لیے قمر احسن اور اکرام باگ
منٹو بیدی، کرشن، عصمت کے افسانے فاروقی کو زیادہ پسند نہیں۔ قرۃ العین حیدر گوارہ ہیں۔ تو کیا فاروقی کی پسند ۶۶ سے ۸۰ کے درمیان لکھنے والے رہے، جن میں کچھ کی شمعیں تو کب کی گل ہوگئیں جو جدیدیت سے دامن بچا نہیں سکے۔ اور جنہوں نے خود کو جدیدیت سے دور کر لیا ۔ وہ آج بھی زندہ ہیں۔ اور شاید اسی لیے ۸۰ کے بعد بیانیہ کی واپسی کا اعلان کا بھی جدید اذہان کو ناگوار گزرا جبکہ یہ بہت سوجھ بوجھ کے ساتھ لیا جانے والا فیصلہ تھا۔ کہانی نئی فکر کے ساتھ واپس آئی تھی۔
میں زہرہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
اردو افسانے کے تاریخ کوئی بہت زیادہ پرانی نہیں۔ اس کو آسانی سے مختلف ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اردو افسانے کا آغاز۔ سن ۱۹۰۰ء سے لے کر ۱۹۳۶ء۔ ۱۹۳۶ء سے ۱۹۶۵ء۔ ترقی پسند تحریک ۱۹۶۶ء سے ۱۹۸۴۔ یعنی لگ بھگ ۱۸۔۲۰ سال کا عرصہ آپ ان جدید لہروں کے نام کر سکتے ہیں جب اردو افسانہ غیر تسلی بخش علائم اور استعاروں میں گم ہوگیا تھا۔ اس طرح ۸۰ سے ۹۰ تک کی دنیا کو آپ کنفیوژن یا جدیدیت سے باہر نکلنے کے محرکات اور عوامل سے وابستہ کر سکتے ہیں ۔ ۲۰۔۱۸ برسوں کی اردو کی افسانوی فضا جارج آرویل کے ناول ۱۹۸۴ء سے کم بھیانک نہیں تھی۔ شاید اسی لیے کہانی کی واپسی کا شور اٹھا جسے ’ادب کا معیار ادب ہی ہونا چاہئے‘ جیسی آواز بلند کرنے والے آسانی سے ڈائجسٹ نہیں کرسکے۔ اور بلا شک و شبہ نئی فضا، نئی دنیا ، نئے مسائل میں غوطہ لگانے والے افسانہ نگاروں نے ان تمام اختلافات کے باوجود پیچھے مڑکر نہیں دیکھا اور لایعنی جدیدیت، الفاظ کی بے معنی تکرار، غیر منطقی رویوں سے الگ کھلی فضا میں سانس لیتے ہوئے اپنی تحریروں کے لیے نئے راستے منتخب کیے۔
دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی۔ ممکن ہے ایک ادبی مضمون کے لیے یہ محاورہ کچھ زیادہ آپ کے گلے سے نیچے نہ اترے۔ لیکن شاید اب اس محاورے کی ادائیگی ضروری ہوگئی ہے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہے کیا مثال کے لیے جب کوئی یہ کہتا ہے کہ سن ۱۹۸۰ء یا ۱۹۸۵ء کے بعد کہانی نہیں لکھی گئی تو عام قارئین بھی ۲۰۔۳۰ برسوں کی کہانی کا موازنہ اردو افسانے کی پچھلی کہانیوں (کم و بیش ۷۵ سال کا عرصہ) سے کرنے لگتا ہے۔ اور یہاں نقاد چند موٹے موٹے نام گنواتے ہیں۔ جیسے پریم چند، منٹو، بیدی، عصمت ، ممتاز مفتی یا پھر سریندر پرکاش، بلراج مینرا۔ یا پھر کچھ نقاد قرۃ العین حیدر کے نام کے آگے اور پیچھے اردو کے کسی بھی نام کو دیکھنا یا رکھنا مناسب نہیں سمجھتے۔ بلا شک و شبہ قرۃ العین حیدر کی عظمت سے چنداں انکار نہیں مگر افسانہ صرف قرۃ العین حیدر تک آکر ٹھہر نہیں جاتا۔ مثال کے لیے آپ اپنی ایک فہرست بنائیے۔ اور ایسے مشہور افسانہ نگاروں کی کم از کم تین بڑی کہانیوں کے نام لکھ لیجئے۔
منٹو: (موتری، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ٹھنڈا گوشت)، بیدی (لاجونتی، اپنے رکھ مجھے دے دو۔۔۔) یا جو کہانی بھی آپ کو پسند ہے اور اس کے بعد عصمت ، کرشن چندر سے قرۃ العین حیدر تک۔
یعنی ایسے نام جہاں آکر ہمارا معصوم نقاد خاموش ہوجاتا ہے کہ بس یہی ہماری کہانیاں ہیں۔ اور ان کے بعد اردو کہانیاں سرے سے لکھی ہی نہیں گئیں۔ (خالد جاوید اور صدیق عالم کے لیے بھی یہ بری خبر ہے کہ جب ۸۵ء کے بعد کہانیاں کھی ہی نہیں گئیں تو ظاہر ہے اس فہرست میں انکا نام بھی شامل ہے)
اب یہی فہرست ۸۰ یا ۸۵ کے بعد افسانہ نگاروں کی ترتیب دیجئے۔ ساجد رشید (ریت گھڑی، پناہ، ایک چھوٹا سا جنم)، سلام بن رزاق (اندیشہ، شہر گریہ، استغراق)، اشرف (آدمی، ڈار سے بچھڑے۔ لکڑ بگھا سیریز) شوکت حیات (سورج مکھی، گنبد کے کبوتر، کوّا)، غضنفر (تانا بانا، سانڈ، سرسوتی اسنان)، مشتاق احمد نوری (لمبے قد والا بونا)، حسین الحق (سدھیشور بابو حاضر ہوجائیں اور کئی کہانیاں) سہیل وحید (پرستش برق کی، کچّی پونی)، صدیق عالم (الزورا) اس طرح صرف ہندستان کی ۸۵ء کے بعد کی فہرست بنائیں تو بیگ احساس سے غزال طارق چھتاری، نسیم بن آسی، ترنم ریاض (ساحلوں کے اس طرف، اماں) یہ تنگ زمین) ، رحمن عباس، معین الدین جینا بڑے، خورشید اکرم، مشتاق احمد نوری، رضوان الحق تک آپ آسانی سے تین سے زائد ایسی کہانیاں نکال سکتے ہیں جن پر دنیا جہاں کے صفحے لکھے جاسکتے ہیں۔ یہ صرف نام نہیں ہیں میرے لیے۔ان تمام، کہانیوں کا تجزیہ کرنا میرے لیے آسان ہے۔ منٹو کی تمام کہانیاں پڑھ جاءئے، ان میں کم و بیش ایک ہی طرح کا رنگ ہے۔ انتشار اور خوف سے جنمی کہانیاں جو اس وقت ملک کی تقدیر بن چکی تھیں۔ بیدی کی ’تہہ داری‘ پرجتنے صفحے سیاہ کیے گئے، یہ میرے لیے حیرت کا مقام ہے ہاں بیدی نے کچھ اچھی کہانیاں ضرور دی ہیں، لیکن اسی سطح پر میری نسل کے بیشتر افسانہ نگاروں کی ایسی منتخب کہانیوں کا تجزیہ کیجئے تو یہاں زیادہ وسیع دنیا نئے اسلوب اور رنگ و آہنگ کے ساتھ آپ کا استقبال کرتی ہوئی ملیں گی۔غضنفر کی حالیہ کہانی سرسوتی اسنان،الٰہ آباد سنگم کے بہانے آج کے اس المیہ کو رقم کرتی ہے جہاں دہشت کی فضا میں ہم زندگی سے دور ہوتے چلے گئے ہیں۔استری پرش یا نسائی ادب کی بات آتی ہے تو ترنم ریاض ساحلوں سے اس طرف جیسا ناقابل فراموش افسانہ لکھ جاتی ہیں جہاں ایک بالکل نئی عورت ایک نئی تہذیب ہمارے سامنے ہے۔ ساجد رشید سے حسین الحق ، شموئیل احمد ، بیگ احساس تک کہانی ہر بار نئے سرے سے خود کو دریافت کر رہی ہے۔ احمد صغیر جب رات لکھتے ہیں تو یہ ساری دنیا ایک ایسے تاریک نظام کا حصہ لگتی ہے جہاں کچھ بھی باقی نہیں ہے سوائے جنگوں کے۔ شموئل احمد کی کہانیوں میں منٹو سے الگ کی ایک بے رحم دنیا آپ کو نئے تناظر میں دیکھنے کو ملے گی۔ میرا کہنا ہے کہ یہ تجزیے اگر اسی نوعیت کے اور اسی سنجیدگی سے کیے جائیں جہاں نقادوں نے منٹو کو منٹو اور بیدی کو بیدی بنایا تو کوئی عجب نہیں کہ یہاں بھی کہانیوں میں شاید اس سے کہیں بڑی دنیائیں اُنہیں نظر آجائیں، جسے فکشن کے نقادوں کے نہ دیکھنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ (یہاں تذکرے صرف ہندستان کے شامل ہیں۔ ایسی ایک بڑی آبادی پاکستان میں بھی ہے جہاں حمید شاہد، مبین مرزا، آصف فرخی، طاہرہ اقبال اور اسد محمد خاں بھی ۸۵ء کے بعد نئے اسلوب اور نئے مزاج کی کہانیاں لکھ رہے ہیں۔ ناول کی بات کریں تو لہو کے پھول (حیات اللہ انصاری، خوشیوں کا باغ (انور سجاد) ، درد کے پھول (فضل کریم فضلی)، صدیوں کی زنجیر (رضیہ فصیح احمد) سے لے کر انور سن رائے (چیخ)، اشرف شاد (بے وطن، وزیر اعظم، صدر اعلیٰ) ،عاصم بٹ (دائرے)، ترنم ریاض (مورتی)، خالدہ حسین (کاغذی گھاٹ) ، محمد علیم (میرے نالہ کی گمشدہ آواز)، غضنفر (پانی) شموئل (ندی) ایک لمبا سفر ہے۔ کس کا نام نہیں لیجئے۔ اگر آپ اردو کے افسانوی سفر کو ادوار میں تقسیم کرتے ہیں تو ہردور میں آپ کو بمشکل ۱۲۔۱۰ ہی بڑے نام ملیں گے۔ ۸۵ کے بعد کے اس سفر میں آپ کو ۱۲ سے کہیں زیادہ نام ملیں گے جن کے پاس اچھی اور بڑی کہانیوں کا اثاثہ موجود ہے۔ (ہاں مجھے اس بات کا یقین ضرور ہے کہ اگر چیخوف، موپاساں، اوہنری جیسے ادیب اردو میں ہوتے تو یہ لوگ کبھی فاروقی کی پسند نہیں بنتے۔ کیونکہ یہاں بھی کہانی کا عمل ادب کو ادب کی آنکھ سے دیکھنے والا عمل نہیں ہے۔ یہاں مضبوط بیانیہ ہے اور زندگی کے مسائل ہیں جس سے جدیدیت کا نعرہ بلند کرنے والے ہمیشہ آنکھیں چرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
اور آخر میں ابھی حال میں Google پر انسائیکلوپیڈیا آف اردو لٹریچر کی ایک دلچسپ تفصیل دیکھنے کو ملی اس تفصیل کو اردو کو کئی ویب سائٹس اور بلاگرس نے بھی www.karnatakaurduaacademy اپنے اپنے بلاگ اور سائٹس پر جگہ دی ہے اس میں پریم چند سے لے کر اب تک کے (سن ۲۰۰۹ء) ۲۵ ناموں کو صدی کے افسانہ نگار کے طور پر پیش کیا گیا۔ ان ناموں کو غور سے دیکھئے)
پریم چند ، راجندر سنگھ، بیدی، منٹو، احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد ، بانو قدسیہ، بھوپندر ناتھ کو شک فکر، غلام عباس، ممتاز مفتی، مسعود مفتی، منشا یاد، رشید امجد، حمید شاہد، قیصر تمکین ، ساجد رشید، مشرف عالم ذوقی، خالد جاوید، آصف فرخی، مبین مرزا، اے خیام، طاہرہ اقبال، محمد الیاس، نیلوفر اقبال، حامد سراج، بیگ احساس۔
اگر اس فہرست پر جائیے تو ۸۵ کے بعد ابھرنے والے ناموں کو دیکھنے کے لیے آپ کو کسی عینک کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
۸۵ کے بعد کہانی نہیں لکھی گئی کا سیدھا جواب ہے کہ ۸۵ کے بعد اردو فکشن کے سنجیدہ اور ایماندار نقاد سامنے نہیں آئے۔
اب سنجیدگی اور دریا دلی سے ان کہانیوں پر مکالمہ شروع ہونا چاہئے۔