(عظیم نور)
بچپن میں اگست کے مہینے میں میری امی میری سفید شلوار قمیض سیا کرتیں۔ میں چودہ اگست کو نیا سوٹ پہنتا،پاکستانی جھنڈیوں والے بیج لگاتا اور گلیوں بازاروں میں پاکستان کی آزادی کا جشن مناتا، لیکن چودہ اگست کا اصل مزہ تو رات کو آتا جب ہم بہن بھائی عشاء کی نماز کے بعد اپنی دادی کے آس پاس بیٹھ جاتے اور وہ ہمیں آزادی کی کہانی سناتیں۔
’’پتر میرا گاؤں تھا رامداس، میں آٹھ سال کی تھی، میری اماں اور میرا ابا۔ میرا ایک بھائی تھا اڑیل جوان۔ لمبا قد چٹا سفید۔ بالکل تیرے جیسا۔۔۔ ابا پھیری لگاتا تھا، میں اماں کے ساتھ گھر کا کام کرتی، ایک دن ابا واپس آیا تو بتایا غدر پڑ گیا، سکھ مسلمانوں کو مار رہے ہیں۔ ہم صبح تڑکے دریا پار چلے جائیں گے۔ ساری رات میری اماں ہمارا سامان مختلف گٹھلیوں میں بند کرتی رہی۔ صبح ہوئی نکلنے لگے تو ابے نے دیکھا گھر کے پاس بوہڑ کے نیچے ماکھا سنگھ اپنی کرپان نکال کر تیز کر رہا ہے۔ ہم نے اندر سے کنڈی لگا لی ۔ کافی دیر بعد وہ وہاں سے اٹھ کر کہیں چلا گیا، ہم سب نکلے اور بھاگتے بھاگتے گرتے اٹھتے دریا کے کنارے پہنچ گئے۔ ایک بیڑہ میں عورتوں کو بٹھا کر لے جایا جا رہا تھا، ابے اور ویر نے مجھے اور اماں کو اس میں بٹھا دیا۔ بیڑہ ادھ دریا پہنچا تھا کہ سکھوں کے ایک جتھہ نے کنارے کھڑے لوگوں پر حملہ کر دیا، ہم دریا کے دوسرے کنارے پہنچے ۔ میں اور میری اماں دو دن کنارے بیٹھے رہے لیکن۔۔۔ لیکن ابا آیا نا میرا ویر۔ پھر اس دوپہر میرا ابا آیا۔ جسم پر ایک پھٹی تہبند۔۔۔ مجھے گلے لگایا اور بہت رویا، اس کا جوان بیٹا کھو گیا تھا۔ جب حملہ ہوا تھا تب سبھی بھاگے تھے، کوئی ادھر کوئی اُدھر۔۔ کچھ لڑے، کچھ مارے گئے۔ میرا ویر کدھر گیا کسی کو کچھ علم نہیں تھا۔۔ ہم تینوں نے ویر کی تلاش شروع کی، لیکن کچھ پتا نا چلا، پھر ایک بیڑے میں ہمارے گاؤں کے کچھ لوگ آئے۔ ان میں سے ایک نے کہا، چاچا ہم نے تیرے پتر کی لاش دیکھی تھی۔۔۔۔ جوان بیٹے کی موت کا یقین میرا ابا کیسے کر لیتا، اس نے ویر کو بہت ڈھونڈا، لیکن ویر کہیں نا ملا۔۔ دو تین سال بعد کسی نے میرے ابے کو بتایا کہ میں نے تیرے پتر کو ملتان دیکھا تھا، ابا اسی وقت ٹرین بیٹھ گیا اور ملتان چلا گیا۔ملتان کے گلیاں بازار پھرتا رہا، ہر دربار پر گیا۔ لیکن ویر نا ملا۔ تین ماہ بعد واپس آ گیا ۔۔‘‘
یہ واقعہ سناتے بی بی جی( میری دادی ) کا چہرہ آنسوؤں میں تر ہو جاتا، امی ہمیں بہت ڈانٹتیں اور ہم دل سے عہد کرتے کہ آئندہ کبھی یہ قصہ نہیں سنیں گے۔ میں جانتا ہوں دادی نے ساری عمر ہر نماز کے بعد اپنے ویر کو دیکھنے کی دعا مانگی ہے، وہ ایک ہفتے میں کم از کم دو دفعہ قرآن مکمل کرتی تھیں اور اس کا ایصالِ ثواب اپنے ویر کو کرتیں۔۔ لیکن ان کی آنکھیں 1947ء کے غدر کے بعد کبھی اپنے ویر کو نا دیکھ سکیں ۔ ان کی آنکھیں اپنے ویر کے انتظار میں ہی ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں۔۔۔۔
میں تمام عمر اس نا حق خون پر کڑھتا رہا، لیکن کچھ ماہ پہلے میں نے غدر کا ایک اور واقعہ سنا۔۔
میں اکثر شام کو شاہ جی کے ڈیرے چلا جاتا ہوں، اکثر دوستوں کی بیٹھک اور دنیا سے الگ ایک محفل۔۔ خیر۔۔ شاہ صاحب کے ڈیرے پر ایک بابا ملنگ ہے جو اب تارک الدنیا ہے، میں جب بھی اس کے پاس بیٹھتا وہ مجھے بڑے پیار سے ملتا، سفید داڑھی اور سبز پگڑی اور مسکراتا چہرہ، اور معرفت کی باتیں۔ وہ مجھے ولی ہی لگتا۔۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا بابا جی غدر دیکھا تھا، بولے ہاں ماشٹر جی۔۔ اور پھر ہمارے شہر میں ہونے والے غدر کے وہ واقعات سنانے لگے جو اس سے پہلے سن چکا تھا، میں نے ان کی بات کو کاٹ دیا، بولا بابا۔ ’’تو نے بھی کوئی ہندو مارا تھا؟ بابا بولا ہاں! میں تب تیرہ چودہ سال کا تھا، میں نے ایک ہندو مارا تھا، لیکن میرے وڈے ویر نے تین ہندو مارے تھے۔‘‘ میں اٹھ کر بیٹھ گا، ’’کیا بابا؟ کیسے؟ کون تھا وہ؟‘‘
’’اوہ ماشٹر جی اس کی بازار میں دکان تھی کھل چوکر کی۔ میں اس سے ادھار کھل لایا کرتا تھا، ہمارا کھاتا چلتا تھا اس کے ساتھ۔ مونجی گندم کی کٹائی پر کھاتہ صاف کرتے تھے۔ غدر سے تین دن پہلے اس سے کھل لے کر آیا تھا میں۔ پھر غدر پڑ گیا، لوگوں نے ہندوؤں کو مارنا شروع کر دیا۔ ماشٹر جی تہاڈے گھر کے سامنے جو منڈی ہے نا، اس میں کتنے دن تک آگ لگی رہی تھی۔ ہوا کچھ یوں کہ سب ہندو بھاگ گئے، میں آ رہا تھا باہر سے، یہ سالا میں نے دیکھ لیا چھپا ہوا تھا بیلے میں۔ میں جوان تھا چڑھ دوڑھا اس پر۔ آپ کو تو پتا ہے ہندو ہوتے بہت ڈرپوک ہیں، بڑا چلایا لیکن کون سنتا۔ درانتی میرے پاس تھی، وہ ہی مار مار کے مار دیا حرام خور کو‘‘۔
’’بابا جی اس کی کوئی اولاد بھی تھی؟‘‘ تین بیٹیاں تھیں اس کی، رج کے جوان۔ پر تہانوں تے پتا اے ماشٹر جی اے ہندو بڑی سیانی قوم اے، پہلے ہی بھجوا دیا تھا اس نے انکوـ” میں نے اس کی بات کو کاٹ کر پوچھا۔۔ بابا جی اس نے کبھی آپ کو سودا دینے سے انکار کیا ہو؟اوہ نہیں یار۔ کاروبار تھا اس کا ایسے ہی ہوتا ہے۔ تو کیوں مارا اسکو؟ بس وہ ادھر مار رہے تھے، ہم ادھر۔۔ حساب برابر۔ کبھی دکھ ہوا اس کو مارنے کا۔نا پتر، دکھ کس بات کا۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر وہ چائے پینے لگا۔ مجھے پہلی دفعہ وہ نا معصوم لگا نا ہی ولی۔ میں سوچتا رہا کہ کیا یہ میری دادی کے بھائی کے قتل کا بدلہ ہو سکتا تھا؟ ہر گز نہیں۔ کیا میری دادی کے ویر اور اس ہندو بنیے کے قتل کا کوئی وکیل نہیں؟ اگر اس کی بیٹیاں دریا پار چلی گئیں تو وہ سای عمر میری دادی کی طرح اپنے باپ کی راہ نہیں تکتی ہونگی؟ اور ہم کب تک نفرت کی اس بھٹی کو ایندھن فراہم کرتے رہیں گے۔۔ شاید قیامت کے روز لگنے والی کچہری ہی اس کا فیصلہ کرے گی۔