ہم تو مدارس کو روتے رہے یونیورسٹیوں والے بھی بس
(تنویر احمد تہامی)
قلم، کاغذ کے سینے پہ کیا تحریر کرے کہ قلم خود دم بخود ہے کاغذ خود ششدر ہے۔ اس کراۂ ارض پہ بربریت کی وہ داستان رقم ہو گئی مگر نہ زمین پھٹی نہ آسمان ہی ٹوٹا. جس واقعہ پر آنکھ سے لہو ٹپکنا تھا وہاں پانی تک نہ بہا۔ آنکھیں پتھرا سی گئی ہیں، دل مردہ سا لگنے لگا ہے. ماورائے عقل ہے یہ بات کہ غم ہے، غصہ ہے، تاسف ہے، بے حسی ہے کہ کیا ہے. کھلی آنکھوں حقیقت دیکھ کر بھی انجان بننے کو جی چاہ رہا ہے. جی چاہتا ہے کہ جو دیکھا ہے جو سنا ہے جو جانا ہے وہ سب جھوٹ ہو، ایک بھیانک خیال ہو، ایک ڈراؤنا خواب ہو. ابھی آنکھ کھلے اور لاحول واللہ پڑھ کر سب ٹھیک ہو جائے، راوی چین ہی چین لکھ دے. مگر حقیقت تو یہ ہے کہ حقیقت سے فرار ممکن نہیں. جو دیکھا ہے وہ سچ ہی تو ہے جو جانا ہے وہ سچ ہی تو ہے. میرے دیس کے لوگوں کا خون سستا تو تھا ہی اب قلی طور پہ بے وقعت ہو گیا ہے. میرے دیس میں قانون کمزور تو تھا ہی اب مکمل طور پہ دم توڑ چکا ہے۔
میں مشال خان کو نہیں جانتا تھا. میں نہیں جانتا تھا کہ اس کے نظریات کیا تھے. میں نہیں جانتا کہ درحقیقت اس کا قصور کیا تھا. وہ تو جب اسے اس کے کردہ یا ناکردہ گناہ کی سزا سرِعام مل چکی تو میں نے اسے جاننے کی کوشش کی. اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس نے اپنی فیس بک ٹائم لائن پر گستاخانہ مواد پوسٹ کیا تھا. اور یہی اسکا جرم ٹھہرا تھا۔
مگر جب میں نے اس کی ٹائم لائن کھولی تو مجھے ایسی کوئی چیز ایسی کوئی بات ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملی جس سے گستاخی کا شائبہ بھی ہو۔ مجھے تو زندگی سے بھرپور ایک ہنستے مسکراتے نوجوان کی تصاویر ملیں. اور ملا اس کا وہ گیان جو اس نے اندر ہی اندر سے کھوج کر نکالا تھا. کہیں وہ اس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ میں اپنی تاریکی سے آگاہ ہوں تو کہیں وہ آگہی کو سنبھالنے کیلئے دعاگو ہے۔ کہیں وہ انسانوں کو بلا امتیاز جینا سکھا رہا ہے تو کہیں کسی غزل کے اشعار گنگنا رہا ہے. مجھے کچھ بھی تو ایسا نہیں ملا کہ جس سے یہ نتیجہ نکلے کہ ہاں مشال خان گستاخ تھا۔
مگر ان خود ساختہ عاشقوں کے ہاتھ نجانے ایسا کیا لگ گیا تھا کہ جس وہ انسانیت کے درجۂ آخری سے بھی نیچے اتر گئے. نجانے ایسی کون سی بات تھی جس نے ان کے ایمان کو اس قدر گرما دیا کہ جس کے ابال سے انسانیت بھسم ہو گئی. صاحب ہم تو مدارس کے باسیوں کی شدت پسندی کو روتے تھے مگر یہاں تو معاملہ ہی الگ نکلا. یہاں تو وہ طبقہ کارفرما تھا جسے قوم کی کریم کہا جاتا ہے. جو جدید علوم سے آراستہ ہے. جو تہذیب کی بنیادیں درست کرنے والا ہے. مگر انہوں نے تو بدتہذیبی کو بھی شرما دیا۔ ان کی درندگی کے سامنے تو درندے بھی پانی بھرتے نظر آرہے ہیں. نہ ثبوت نہ گواہ نہ مقدمہ نہ ملزم کو صفائی کا موقع. یہ کس اسلام کے نام لیوا ہیں؟ یہ کیسا انصاف کیا گیا ہے؟ مشال خان اگر گستاخ تھا تو بھی کس قانون اور کس شریعت نے اس ہجوم کو حد قائم کرنے کا حق دیا؟ گستاخ کیلئے قانون موجود ہے سزا موجود ہے انصاف کیلئے ادارہ موجود ہے. مگر ایسی بربریت کی گنجائش کہیں بھی موجود نہیں۔
مجھے یاد آرہا ہے میرے آقا صلٰی اللہ علیہ وسلم کا مکہ کی گلیوں میں چلنا اور اس بڑھیا کا آپ ص پر بلاناغہ کوڑا پھینکنا. اور اس کی غیر حاضری پر میرے آقا کا اس کی خیریت دریافت کرنے تشریف لے جانا. گستاخ تو وہ بھی تھی. پھر مجھے یاد آرہا ہے وہ واقعہ جب میرے نبی صلٰی اللہ علیہ وسلم پر اوجھڑی ڈالی گئی. گستاخی تو وہ بھی تھی. مگر جب صحابہ نے بدلے کی بات کی تو جواب آیا “اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو”. اب ایسا بھی نہیں کہ گستاخ کو سزا ہی نہ دی جائے مگر سزا صرف ریاست دے سکتی ہے فرد نہیں. اسی لئے آقا نے مکہ میں فرد کی حیثیت سے کوئی سزا نہیں سنائی. مگر مدینہ میں گستاخ یہودی کو قتل کرنے والے کو جنت کی بشارت دی سربراہِ ریاست کی حیثیت سے۔
مشال خان گستاخ تھا یا نہیں، میں نہیں جانا۔ مگر جو سزا اسے ملی وہ قطعاً درست نہیں. اور جنہوں نے سزا دی ان کے ایمان پہ تو کیا بات کرنی کہ ویسے بھی یہ اپنا کام نہیں مگر وہ انسان تو کم از کم نہیں ہیں۔