ہمارا قومی خواب : ایک جائزہ (۱)
از، اجمل کمال
اگر آپ کو پچھلے ایک دو برس میں کراچی میں منعقد ہونے والے دو میلوں، کراچی لٹریچر فیسٹول اور کراچی انٹرنیشنل بک فیئر میں شرکت کرنے کا اتفاق ہوا ہے تو شاید آپ نے محسوس کیا ہو کہ یہ دونوں ذہنی اعتبار سے دو مختلف دنیاؤں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ غور سے دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں دنیائیں ایک دوسرے سے مختلف ہی نہیں بلکہ بےنیاز بھی ہیں، اس حد تک بےنیاز کہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتی تک نہیں، ایک دوسرے کو جاننے یا آپس میں مکالمہ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ صورت حال اس گہری تقسیم کی نشان دہی کرتی ہے جو ہمارے آج کے پاکستانی معاشرے میں پائی جاتی ہے اور روزبروز خطرناک بلکہ ہلاکت خیز حد تک مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔
کراچی لٹریچر فیسٹول ایسے ادیبوں اور ان کی کتابوں کو سامنے لاتا ہے جن کے ذریعے سے مقامی ادبی سرگرمی کو کتابوں کی اشاعت اور فروخت کے بین الاقوامی منظرنامے سے جوڑا جا سکے۔ سرحد کے اُس پار جےپور لٹریچر فیسٹول جو اس سے چند برس پہلے شروع ہوا تھا، اس کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے یہ ادبی میلے عام طور پر اس تنقید کا ہدف بنتے ہیں کہ ان میں مقامی ادیبوں کی انگریزی میں لکھی گئی تحریروں کی زیادہ تشہیر کی جاتی ہے اور مقامی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں اور ان کے لکھاریوں کی کم۔ کراچی کے ادبی میلے کے منتظمین کو غالباً اس تنقید کا احساس ہے، جس کا پتا اس بات سے چلتا ہے کہ اس میں ہر سال اردو ادب پر پہلے سے زیادہ توجہ دی جانے لگی ہے۔ تاہم دوسری (’’علاقائی‘‘ کہلانے والی) زبانوں — سندھی، پنجابی، سرائیکی، بلوچی اور پشتو — پر توجہ اب بھی اتنی کم ہے کہ اسے محض خانہ پُری سمجھا جا سکتا ہے۔ مرکزی اہمیت بہرحال انگریزی ہی کو حاصل رہتی ہے۔
انگریزی کا بڑا قومی اخبار ڈان ہر اتوار کو کتابوں اور ادیبوں کے بارے میں اپنا خاص میگزین ’’بُکس اینڈ آتھرز‘‘ شائع کرتا ہے۔ اس کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک اس کے دو صفحے اردو کتابوں پر تبصروں کے لیے وقف ہوتے تھے۔ جب سے انتظار حسین کا کالم اخبار کے صفحوں سے اس میگزین میں منتقل کیا گیا ہے، اردو کتابوں پر تبصرے کے لیے ایک ہی صفحہ رہ گیا ہے، جو پاکستان بھر کی اردو اشاعتی سرگرمی کا غور سے جائزہ لینے کے لیے بہت کم ہے۔ دیگر زبانوں کی کتابوں کا ذکر تو اس میگزین میں شاذونادر ہی ہوتا ہے۔
دوسری طرف کراچی بک فیئر کو دیکھنے سے — اس کے باوجود کہ اس کے نام کے ساتھ ’’انٹرنیشنل‘‘ کا سابقہ لگا ہوا ہے— پاکستان میں ہونے والی اشاعتی سرگرمی کی زیادہ سچی تصویر سامنے آ سکتی ہے، بشرطےکہ کوئی دیکھنے اور غور کرنے پر آمادہ ہو۔ بک فیئر کا اہتمام ہر سال پاکستان کے ناشر اور کتب فروش اپنے جائز کاروباری مفادات کے زیراثر تجارتی بنیاد پر کرتے ہیں۔ یونیورسٹی روڈ پر واقع ایکسپو سنٹر میں لگنے والے اس کتاب میلے میں جانے والے کو ایک سامنے کی حقیقت کا فوری طور پر ادراک ہو جاتا ہے: کہ وہاں سجائی، بیچی اور خریدی جانے والی کتابوں کی اکثریت ذہنوں کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے والے سیاسی نظریے سے تعلق رکھتی ہے جس کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی شدت پسندانہ مذہبی نوعیت ہے۔ جہاں تک ’’علاقائی‘‘ کہلانے والی زبانوں کا تعلق ہے، وہ منظر سے قریب قریب غائب محسوس ہوتی ہیں۔ بظاہر ان سے دلچسپی رکھنے والے خریداروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ ان میں اس غالب مذہبی سیاسی نظریے کی ترویج اس شدت سے نہیں پائی جاتی جیسے اردو کتابوں میں ملتی ہے۔ لیکن یہ محض ایک اندازہ ہے۔
کتابیں خریدنے اور پڑھنے کے شوقین عام لوگ، یعنی ہم اندازہ لگانے سے زیادہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ بےپناہ تخلیقی صلاحیت رکھنے والے ہمارے ادیب — اردو، انگریزی یا کسی اور زبان میں لکھنے والے — جو لٹریچر فیسٹول جیسی ادبی تقریبوں میں اسٹیج سے تقریریں کرتے ہیں، وہ تو ہمیں اس صورت حال کے بارے میں کچھ بتاتے نہیں۔ یا شاید انھیں بھی معاشرے میں پائی جانے والی اس تقسیم کا کچھ اندازہ نہ ہو۔ یا وہ اسے اہمیت ہی نہ دیتے ہوں۔
شکاگو یونیورسٹی میں پچاس برس برصغیر کے کلچر اور اردو زبان و ادب کی تعلیم دینے والے پروفیسر چودھری محمد نعیم نے پچھلے دنوں اپنے انگریزی بلاگ پرایک دلچسپ سوال اٹھایا ہے۔ پاکستان کے ایک بڑے میڈیا ادارے کے انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون میں ایک اداریہ لکھا گیا جس کا موضوع یہ تھا کہ کیا دولتِ اسلامی عراق و شام (داعش) کی حمایت کرنے والے پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ اداریے میں بجا طور پر اسلام آباد کی لال مسجد اور جامعۂ حفصہ کا ذکر کیا گیا تھا۔ پروفیسر نعیم نے اداریہ نگار کی جرأت کی داد دینے کے بعد یہ سوال اٹھایا کہ انھیں اپنے ہی ادارے کے اردو اخبار ایکسپریس میں چھپنے والے وہ مقبول عام کالم کیوں دکھائی نہیں دیے جو اوریا مقبول جان کے تحریرکردہ ہیں اور جن میں داعش کی کھلم کھلا حمایت ظاہر کی گئی ہے؟ کیا انگریزی اخبار کے اداریہ نگار اپنے ہی ادارے کے اردو اخبار کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے؟
کچھ عرصہ پہلے پروفیسر نعیم ہی نے ایک چشم کشا مضمون ’’لشکر کی مائیں‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا (آج شمارہ 61)جو لاہور کے ایک اشاعت گھر دارالاندلس کی تین جلدوں میں شائع کردہ کتاب ہم مائیں لشکرِ طیبہ کی کے تفصیلی تعارف اور تبصرے پر مشتمل تھا۔ اس کتاب میں ان نوجوان مجاہدوں کا احوال ان کی ماؤں کی زبانی درج کیا گیا ہے جنھوں نے قتال فی سبیل اللہ کے سلسلے میں اپنی جان دی۔ یہ احوال کتاب میں آنے سے پہلے لشکرِ طیبہ کے رسالے مجلہ الدعوہ میں قسط وار شائع ہوے تھے۔ 1998 سے 2003 تک کے عرصے میں اس کتاب کی تین جلدوں کے کئی ایڈیشن شائع ہوے (جن میں سے ہر ایڈیشن گیارہ سو کی تعداد میں چھپا) اور پڑھنے والوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
ہمارے سینئر اور ابھرتے ہوے ادیبوں میں سے کتنے ہوں گے جنھوں نے کبھی اس کتاب، یا اس جیسی بےشمار دوسری مطبوعات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی؟ اور کتنوں نے لٹریچر فیسٹول میں اپنی باتیں غور سے سننے والے اپنے مداحوں کو معاشرے میں ہونے والی اس ہلچل کے بارے میں آگاہ کرنے کی کوشش کی؟ شاید کسی نے بھی نہیں۔ ادبی نقاد صرف ان کتابوں پر توجہ دیتے ہیں جو ان کے نزدیک اعلیٰ ادب کے دائرے میں آتی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں اردو، ابلاغ عامہ، سماجیات وغیرہ کے شعبے صرف نظریۂ پاکستان کی ترویج میں مصروف رہتے ہیں، چنانچہ پاکستانی سماج میں ہونے والی یہ گہری تبدیلی ان کی تحقیق کا موضوع بھی نہیں بنتی۔ ممکن ہے وہ اس تمام بکھیڑے سے لاعلم رہنا ہی مناسب سمجھتے ہوں۔
لاعلم رہنا، جیساکہ کسی نے کہا ہے، ایسا عمل ہے جس کا آدمی خود انتخاب کرتا ہے۔
لیکن ادیبوں، دانشوروں اور یونیورسٹی کے استادوں کی مرضی اپنی جگہ، یہ بات بہرحال حقیقت ہے کہ جہادی شہدا اور ان کی شہادت پر فخر کرنے والی ماؤں کی یہ کہانیاں شائع ہوئیں اور پڑھنے والوں نے انھیں شوق سے پڑھا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انھی اقدار کا سبق پڑھانے والی تحریریں شہدا کی سبق آموز کہانیوں کے منظرعام پر آنے سے پہلے سے لکھی اور پڑھی جا رہی ہیں۔ یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب شمالی ہندوستان میں پرنٹنگ پریس کا کاروبار شروع ہوا تھا۔ یہ لٹریچر، چاہے اسے ادب کہا جائے یا کچھ اور، لکھنا پڑھنا سیکھنے والے بالغوں اور نوعمروں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کرتا رہا ہے اور ہمارے ملک میں اس کے پڑھنے والوں کی تعداد اور اس پر ہونے والا اثر متواتر بڑھتا رہا ہے۔ نظریۂ پاکستان تک محدود رکھی جانے والی درسی کتابوں کا تو اب خاصا ذکر ہونے لگا ہے، لیکن ان کے ساتھ ساتھ ان مقبولِ عام کتابوں نے بھی پاکستان کے عام پڑھنے والے کے ذہن کو اس سانچے میں ڈھال دیا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کی دنیا کا تصور انھی کی روشنی میں کرتا ہے۔
اگر آپ کراچی کے اردو بازار میں کتابوں کی دکانوں کا چکر لگائیں، یا صدر کے علاقے کے نیوز اسٹالوں پر نظر دوڑائیں تو ایسے مقبول لکھنے والوں کی ایک نامکمل سی فہرست تیار کر سکتے ہیں جن کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھی جاتی ہیں: نسیم حجازی، طارق اسمٰعیل ساگر، عنایت اللہ (جن کا ناول بی آر بی بہتی رہے گی بہت مشہور ہوا)، خواجہ محمد اسلام (موت کا منظر اور حسن پرستوں کے انجام کا منظر کے مصنف)، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، محمد الیاس، عمیرہ احمد… یہ کتابیں اپنے پڑھنے والوں کو کیا بتاتی ہیں؟ آئیے ان بنیادی خیالات کا ایک ادھورا خاکہ بنانے کی کوشش کریں جن پر یہ کتابیں یقین رکھتی بھی ہیں اور پڑھنے والوں کو یقین کرنے پر آمادہ بھی کرتی ہیں۔
مسلمان برصغیر میں (عرب، ایران، افغانستان، وسط ایشیا یا توران یا ماورألنہر، اندلس، بلقان یا کہیں اور سے) آئے تاکہ کفر کے اندھیروں میں ڈوبی اس سرزمین میں اسلام کی روشنی پھیلائیں اور یہاں حکمرانی کریں۔ ان کی (یعنی ہماری) حکمرانی ہندوستان پر ایک ہزار سال تک بزورِ شمشیر بڑی شان و شوکت سے قائم رہی۔ اس کے بعد— چونکہ ہم رفتہ رفتہ اسلام اور جہاد فی سبیل اللہ سے دور ہو گئے تھے — انگریز سامراج نے ہمیں تخت سے اتار کر ہندوستان پر قبضہ کر لیا اور حکمرانی کرنے لگا۔ جب خدا خدا کر کے اہلِ کتاب انگریزوں کے جانے اور ہندوستان کا تخت ہمیں لوٹانے کا وقت آیا تو مکار مقامی کافروں نے (جو آبادی کے تین چوتھائی حصے پر مشتمل تھے) جمہور کی حکمرانی کا راگ چھیڑ کر ہمیں ایک بار پھر ہمارے حکمرانی کے ازلی و ابدی حق سے محروم کرنے کی سازش کی۔ آخر ہم مسلمان اللہ کے حکم سے دنیابھر پر غلبہ پانے اور راج کرنے کے لیے ہی تو پیدا ہوے ہیں۔ لیکن ہم نے ہندوستان کو تقسیم کر کے کافروں کی اس سازش کو ناکام بنا دیا اور پاکستان حاصل کر لیا، جو ہم اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام کا قلعہ ہے اور جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے لیے وجود میں آیا ہے۔ اسی جہاد و قتال کو جاری رکھ کر ہم ایک دن لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرائیں گے اور پورے برصغیر جنوبی ایشیا، افغانستان، وسط ایشیا اور پھر اللہ نے چاہا تو پوری دنیا پر غلبہ حاصل کریں گے۔ لیکن بیرونی دشمن کفار ہمارے اندرونی دشمنوں (یعنی ہماری مذہبی اور فرقہ وارانہ اقلیتوں اور ان سے ہمدردی رکھنے والے گمراہ نام نہاد مسلمانوں) کے ساتھ مل کر ہمارے اس اسلامی اور قومی فریضے کو ناکام بنانے کی مذموم سازشیں جاری رکھے ہوے ہیں۔ ان سازشوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو (اور خصوصاً اپنی لڑکیوں اور عورتوں کی زندگیوں کو) اسلام کے سانچے میں ڈھالیں، عقائد کو راسخ کریں اور بیرونی اور خاص کر اندرونی دشمنوں کی سازشوں سے آگاہ رہیں۔ انشااللہ ایک دن ہم اپنے دشمنوں پر غالب آئیں گے، لیکن اس فتح کے لیے ہمیں اپنے اندرونی دشمنوں کا بڑی تعداد میں قتال کرنا ہو گا اور خود اپنی جان و مال کا نذرانہ بھی پیش کرنا ہو گا۔ بےشک اللہ کا دین غالب آنے والا ہے اور ہم ساری دنیا پر حکمرانی کرنے والے ہیں۔
(جاری ہے)
اجمل کمال صاحب نے ادبی دانشوری کی فکری ناکامی کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے. یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو ادب تنقیدی تھیوری اور ادبی شعریات کے مباحث سے باہر نہ ہوسکا, یہ معاشرہ کی بدلتی ہوئی صورت حال سے باخبر ہے نہ غیر محسوس طریقے سے پروسے جانے والے فسطائی ادب پر کسی ادیب کی نظر جاتی جو نوجوان اذہان کو زہرآلود کررہا ہے. مذہبی اخلاقیات اور شہادت کی عظمت کی شیرینی میں ملفوف لٹریچر تازہ ریڈیکل عناصر کو خلق کرنے میں بےحد کامیاب ہے. ماضی کے مباحث کہ ادب سماج پر اثرانداز ہوتا ہے یا نہیں جدیدیت کی تحریک کی تعبیروں میں بے معنی ٹھہرے. ترقی پسند تحریک کے دنیا کو بدلنے کے عزائم خواہ کتنے ہی تمسخرآمیز رہے ہوں لیکن اس میں ایک اہم بات پوشیدہ تھی جس کا تعلق ادب اور انسانی ذہن سازی سے تھا. اجمل کمال اپنے اس فکرانگیز مضمون میں دانشوری کی سماجی ذمہ داریوں کی طرف ہی اشارہ کررہے ہیں. سوال یہ ہے کہ التمش, عمیرہ احمد یا اشفاق احمد وغیرہ کا لجلجا تصوف اور بنیاد پرست ادب عوامی اذہان کو متاثر کرسکتا ہے تو ایسے ادب کے مضر اثرات کی فہم رکھنے والے ادیبوں کے خیالات فروغ کا کیوں نہیں ہوسکتا؟ یہاں اجمل کمال کا وہ بنیادی نکتہ بہت اہم ہوجاتا ہے کہ اس قسم کے ریڈیکل ادب کو ہمارے ادیبوں میں پڑھتے کتنے لوگ ہیں اور اگر پڑھ بھی لیتے ہیں تو اس پر غوروفکر کرکے اس کے تباہ کن نتائج کا اندازہ کتنے لوگ قائم کرتے ہیں. یہ بات ہندوستان کے حوالے سے بھی درست ہے کہ اردو جرنلزم اسلامی نعروں کے سوا کچھ نہیں. یہ اخبارات اسلام, اسلامی عظمت, مسلمانوں کا شاندار ماضی, شہادت کی اہمیت, مسلمانوں پر مظالم, روزے کی برکت اور کتے کی ناپاکی حدیث و سائنس کی روشنی میں جیسے موضوعات سے باہر نہیں نکلتے. اردو اخبار پڑھنے والا یا تو مذہبی غرور کے نشے میں بدمست ہوجاتا ہے یا کافروں کو نیست ونابود کردینے کو ضروری خیال کرتا ہے. میرے خیال میں یہ بہت ضروری ہے کہ فکشن, شاعری اور تھیوری زدہ تنقید سے باہر نکل کر اردو کی نام نہاد دانشوری کو اپنے آس پاس کی صورت حال کا غور جائزہ لینا چاہئے اور سماج کی مثبت ذہن سازی کی فکر بھی کرنی چاہئے.