ہمارا قومی خواب : ایک جائزہ (۲)
از، اجمل کمال
(گذشتہ سے پیوستہ)
کیا آپ کو یہ سب دیوانے کا خواب لگتا ہے؟ خیر، آپ کو جو لگتا ہے لگتا رہے، سچ یہ ہے کہ یہ ہمارا دینی اور قومی خواب ہے، اور اس کی تعبیر پانے کی کوششیں نہ صرف مقامی کفار اور نام نہاد مسلمانوں کے خلاف قتال فی سبیل اللہ کے بڑھتے ہوے مبارک رواج میں دیکھی جا سکتی ہیں بلکہ پاک فوج کے دفاتر کے باہر درج ’’ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے اعلانات، ہمارے اسلامی ایٹم بموں اور فاتح مومن حملہ آوروں کے متبرک ناموں پر رکھے ہمارے میزائلوں کے ناموں میں بھی۔ اور ہماری درسی کتابوں میں بھی۔ اور اردو بازار اور کتاب میلوں میں شوق سے خریدی اور پڑھی جانے والی کتابوں میں بھی۔ آپ آنکھیں بند کر کے اس خواب سے لاعلم رہنا چاہیں تو آپ کی مرضی— ملکی صورت حال کا تو اس سے کچھ بگڑنے سے رہا۔
اشتیاق احمد ہی کی مثال لے لیجیے جو پاکستان کے نوعمر پڑھنے والوں کے لیے سینکڑوں ولولہ انگیز اور نہایت مقبول ناول تحریر کر چکے ہیں۔ آپ شاید اس حقیقت سے بھی لاعلم ہوں کہ ان کے ناول کا آخری صفحہ ننھے مجاہدوں کو بیرونی اور مقامی کفار — عیسائیوں، ہندوؤں، احمدیوں (’’قادیانیوں‘‘)، شیعوں — اور ان کے سازشی ساتھیوں کے ناپاک عزائم سے آگاہ کرنے کے لیے وقف رہتا ہے۔
ہمارے تخلیقی ادیب، نقاد، دانشور اور اساتذہ — اور ان کے عقیدت مند پڑھنے والے، یعنی ہم — اس بات پر بجا طور پر حیرت اور صدمے سے دوچار ہیں کہ یہ ہمارے معاشرے کو کیا ہوتا جا رہا ہے، ہمارے ہاں کسی کی جان و مال محفوظ کیوں نہیں رہی، وغیرہ وغیرہ۔ بلاشبہ ہمیں حیران اور دل گرفتہ ہونے کا پورا حق ہے۔ بک فیئر میں کھڑے ہو کر دیکھیں تو یہ سب دانشور (اور ہم سب قارئین) ایک ایسی احمق اقلیت دکھائی دیتے ہیں جو قتال اور غلبے کے قومی خواب سے بےنیاز اپنے ہی کسی دیوانے خواب میں مبتلا ہے اور قتال کا ہدف بننے کی منتظر ہے۔
اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود ہمارے تخلیقی ادب — خصوصاً اردو ادب — میں ہمارے قومی خواب کے بیشتر حصوں کی تائید کی گونج صاف سنائی دیتی ہے۔ قتال میں ہلاک ہونے سے پہلے یہ مان لینے میں آخر کیا حرج ہے کہ اس قومی خواب کی امانت ہمارے مقبول عام ادیبوں، سیاست دانوں اور فوجی فیصلہ سازوں کے ہاتھوں میں ہمارے مایۂ ناز ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں ہی نے سونپی تھی جنھیں ہم بجا طور پر اپنے قوم کا ضمیر کہتے ہیں؟ مثلاً یہی خیال کہ برصغیر کے مسلمان کسی اور متبرک مقام سے کفار کی اس ناپاک سرزمین میں آئے تھے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں نوے فیصد سے زیادہ کہیں باہر سے نہیں آئے، یہیں کے رہنے والے ہیں جنھوں نے برضاورغبت یا حالات کی مجبوری سے اسلام قبول کیا تھا۔ لیکن اس خیال کی شدومد سے ترویج کرنے کے نتیجے میں دیسی چیزوں کو بجا طور پر تحقیر کی نظر سے دیکھا جانے لگا: دیسی (ہندوانہ) رسم و رواج، دیسی تہوار (جیسے بسنت)، ادب اور شاعری کی دیسی اصناف، ادبی تنقید کی دیسی روایتیں، دیسی رہن سہن، ہر چیز۔ یہاں تک کہ مذہب کی دیسی شکلیں رفتہ رفتہ قبرپرستی اور بدعت کہلائی جانے لگیں اور جب اللہ نے مجاہدوں کو توفیق دی تو داتا دربار، اور عبداللہ شاہ غازی اور رحمٰن بابا کے مزار اور وہاں حاضری دینے والے بدعتی بم دھماکوں میں اڑائے جانے لگے۔ اور ہندی، بنگالی، پنجابی، سندھی جیسی دیسی، کفرآلود زبانیں بھی اسی تحقیر کا ہدف بننے لگیں جو ان کا حق تھا۔
اردو کے بیشتر جغادری نقاد ابھرتے ہوے ادیبوں کو یہی تلقین کرتے رہے (اور اب تک کرتے ہیں) کہ اردگرد پھیلے ہوے معاشرتی فساد سے پریشان ہو کر اپنی تخلیقی عظمت کو بٹہ نہ لگائیں اور روایتی آفاقی اور جدید ذاتی موضوعات پر توجہ مرکوز رکھیں ورنہ ان کے ادب کے صحافت کے اندھے کنویں میں جا گرنے کا خطرہ ہے۔ پچھلے چند برس سے داستانِ امیرحمزہ (بشمول طلسم ہوشربا) کی عقیدت مندانہ مدح سرائی کا سلسلہ جاری ہے، جس کے بنیادی موضوعات میں مسلمان فاتحین کا کفار کی سرزمینوں پر ایک ایک کر کے غلبہ پانا، میلوں ٹھیلوں اور عیش و عشرت میں مگن کفار کا قتال کرنا اور ان کے سر قلم کرنا، ان کے سرکش سرداروں کو بزورِ شمشیر مشرف بہ اسلام کرنا اور ان کی حسین چالباز عورتوں کو مجاہدینِ اسلام کے حرم میں داخل کرنا شامل ہے۔ دائرۃٔ اسلام میں داخل کیے جانے والے کم ذات مقامیوں کو عیاروں کا روپ دے کر ان سے قتال فی سبیل اللہ کا کام لیا جاتا ہے۔ داستانوں کی یہی موضوعاتی روایت بعد میں اسلامی تاریخی ناولوں کی شکل میں ڈھلتی ہے جن کا نقطۂ عروج حضرت نسیم حجازی کے ایمان افروز اور غلبہ و قتال سے بھرپور مقبول عام ناولوں میں سامنے آتا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جنرل ضیا الحق شہید کے اسلامی دورِ حکومت میں اردو کے مایۂ ناز ادیبوں نے نسیم حجازی کے چیدہ چیدہ ناولوں کی ڈرامائی تشکیل پی ٹی وی پر فخریہ پیش کی تھی۔ کیوں؟ تاکہ جہاد و قتال فی سبیل اللہ کا کلچر قوم کے مزاج کا حصہ بنایا جا سکے، اور کیوں؟ اسی کی برکت ہے کہ اب نجی ٹی وی چینلوں پر زید حامد جیسے مقدس کردار (علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ساتھ) نسیم حجازی کو اپنا آئیڈیل ادیب قرار دیتے ہیں اور غزوۂ ہند اور اس سے آگے کی فتوحات کی نوید مسرت سناتے ہیں۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ اردو کے ایک نسبتاً کم معروف ادیب سید انیس شاہ جیلانی نے اپنے ہندوستان کے سفر کی روداد کا عنوان سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان رکھا تھا؟ چلیے یہ نہیں تو اتنا تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ٹی وی اور فکشن کی دنیا کی زمانۂ حال کی نہایت معروف لکھاری عمیرہ احمد کے شاہکار ناول پیرِ کامل کا مسلمان ہیرو کس طرح ’’قادیانی‘‘ ہیروئن کو راہِ راست پر لا کر دائرۂ اسلام میں داخل کرتا ہے؟
برصغیر کی مسلمان صحافت اور سیاست کے کارنامے بھی بجا طور پر سنہری حروف میں لکھے جاتے ہیں۔ دیسی عوام کی دیسی زندگی کی مشکلات کو درخورِ اعتنا نہ جان کر آفاقی اور بین الاسلامی موضوعات کو ترجیح دینا ان کارناموں میں بجا طور پر شامل ہے۔ اس کی صرف ایک مثال کافی ہو گی: مولانا ابوالکلام آزاد (1888-1958) نے 1912 میں کلکتہ سے اپنا جریدہ الہلال جاری کیا۔ اپنے زمانے کی جدیدترین طباعتی ٹیکنالوجی سے مزین یہ رسالہ اپنے قارئین کو بلقان اور طرابلس کی ان جنگوں کا احوال سناتا تھا جو ترکی کی اسلامی خلافت عثمانیہ اپنے نوآبادیاتی مقبوضات کو اس زمانے کی یورپی نوآبادیاتی طاقتوں سے بچانے کے لیے لڑ رہی تھی۔ کلکتہ اور بنگال کو چھوڑیے، انگریزوں کے زیرتسلط ہندوستان کا ذکر بھی الہلال میں اگر آتا تھا تو صرف اس فخریہ اعلان کی صورت میں کہ ہندوستان کے مسلمان بین الاقوامی اسلامی خلافت کی بقا کے لیے کٹ مرنے کو ہمہ وقت تیار ہیں (بالکل اسی طرح جیسے آج پاکستانی مسلمان حضرت ابوبکر البغدادی کی اسلامی خلافت کے لیے دوسروں کی اور اپنی جان قربان کرنے پر آمادہ ہیں)۔ الہلال کے ساتھ ساتھ مولانا ظفر علی خاں کی زیرادارت لاہور سے شائع ہونے والا جریدہ زمیندار بھی اسی موقف کی ترجمانی کرتا تھا۔
خیر، ترکوں نے توہمت ہار کر اتاترک کی قیادت میں ’خلافتِ اسلامیہ‘ ہی کو لپیٹ دیا، کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ لیکن اس وقت تک برصغیر میں ان مقتدر اور روشن دماغ صحافیوں کی چھیڑی ہوئی دھن (’’جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘) پر یہ بانسری تحریک خلافت (1919-1922) کی صورت میں بج اٹھی تھی۔ خلافت کے المناک خاتمے کے بعد یہ تحریک تو ختم ہو گئی لیکن اس سے ہندوستانی مسلمانوں میں جو جذبۂ جہاد بیدار ہو چکا تھا، اس سے اگلے دو عشروں کے دوران مسلمان قوم کا سیاسی تشخص پیدا کرنے میں بڑی مدد ملی۔ (جنگِ طرابلس ہی کے ذیل میں اقبال نے فرمایا: ’’فاطمہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے‘‘۔) اسی جذبۂ جہاد کی بدولت کفار کے جمہوری دیوِ استبداد کے دستِ قاتل کو جھٹک کر آزادی کی نیلم پری پاکستان کی صورت میں حاصل کی گئی جو رہتی دنیا تک نہ صرف قائم رہنے بلکہ لال قلعے اور اللہ نے چاہا تو باقی دنیا پر سبز پرچم لہرانے کے لیے وجود میں آیا ہے۔
جہاں تک دیسی زبانوں کا تعلق ہے، ان پر درآمدی زبان فارسی کا غلبہ اس وقت تک قائم رہا جب تک (1860 کی دہائی میں) اہلِ کتاب انگریز سامراجیوں نے تعلیم اور انتظامِ ملک کی اعلیٰ سطحوں پر انگریزی اور ادنیٰ سطحوں پر دیسی زبانوں کو رائج نہ کر دیا۔ جونہی حکمرانوں کی پالیسی بدلی، ہندوستانی مسلمانوں کے دانشور طبقے نے، جو خیر سے نسلی اور مالی اعتبار سے بھی اعلیٰ طبقہ شمار ہوتا تھا، جھٹ پٹ، محض دو پشتوں کے عرصے میں، ’’پڑھو فارسی، بیچو تیل‘‘ کہہ کر فارسی کو ترک اور انگریزی کو اختیار کر لیا۔ اردو کو بھی، اس کی دیسی اصل یعنی ہندی سے ناپسندیدہ عناصر چھانٹ کر درآمدی رسم الخط، فارسی و عربی لفظوں اور ترکیبوں کی کثرت اور دیسی الفاظ اور محاوروں کو ’’متروک‘‘ قرار دینے کے ذریعے قریب قریب غیرملکی شکل دے دی گئی تاکہ تازہ تازہ مسلمان ہونے والے کم ذات مقامی — جنھیں انگریزی پڑھانے کا، بقول سرسید احمد خاں، کوئی فائدہ نہیں مرتب ہونے والا — اسے اپنا کر دیسی، ہندوانہ اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ اس کے بعد ان کم ذاتوں کو دیسی اسکولوں، مدرسوں اور نسیم حجازیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ سپردم بہ تو مایۂ خویش را، تو دانی حسابِ کم و بیش را۔
رہے خود اعلیٰ ذات اور اعلیٰ طبقے کے دانشور— بلکہ اب تو وہ لوگ بھی جنھیں بجا طور پر تحقیر سے نودولتیے کہا جاتا ہے— تو ان میں سے بہت سوں کو آپ نے بمشکل چھپائے جانے والے فخر کے ساتھ یہ کہتے سنا ہو گا کہ مقامی انگریزی میڈیم اسکولوں اور ممتاز بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ ان کے بیٹے اور بیٹیاں اردو نہ لکھ پڑھ سکتے ہیں اور نہ بول پاتے ہیں (پنجابی، سندھی وغیرہ کا تو ذکر ہی کیا)۔ چنانچہ مستقبل میں پاکستان کا انتظام سنبھالنے کا عزم رکھنے والی یہ اعلیٰ نوجوان نسل ایک دوسرے سے صرف انگریزی ہی میں تبادلۂ خیال کرنے پر قادر ہے، اور اسے آج کل یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ کہیں ان سے پہلے طالبان، القاعدہ اور داعش ان کے ملک کا انتظام نہ سنبھال لیں۔
رہے اردو کے قومی خواب کے قیدی ادیب، صحافی، دانشور وغیرہ، تو وہ بیچارے — ہم جیسے اپنے قارئین کو ساتھ لے کر — کراچی لٹریچر فیسٹول میں بطور مقامی نمونۂ کلام شرکت کا اِذن پا سکتے ہیں اور بھولا سا منھ بنا کر تعجب کر سکتے ہیں کہ زمانہ ان سے پوچھے بغیر قیامت کی چال بھلا کیسے چل گیا۔ بک فیئر جیسے میلوں کی طرف نگاہ اٹھانے کی انھیں نہ ہمت ہوتی ہے اور نہ خواہش، جہاں خواجہ محمد اسلام، نسیم حجازی، اشتیاق احمد، اشفاق احمد اور عمیرہ احمد قومی خواب کی کشتی میں سوار، قبول عام اور بقاے دوام کے تلاطم خیز پانیوں میں رواں دواں ہیں اور داعش یا اس کے مقامی طالبان مجاہدین کی فاتحانہ آمد کے منتظر ہیں۔
اے آمدنت باعثِ بربادیِ ما