محمد شاکر عزیز
اطلاقی لسانیات کا بڑا حصہ زبان کی تعلیم دینے پر مشتمل ہے اور اس زبان سکھانے کے علم کا نوے فیصد انگریزی زبان سکھانے کا مضمون ہوتا ہے۔ ہم اسے اصطلاحی زبان میں ای ایل ٹی یعنی انگلش لینگوئج ٹیچنگ کہتے ہیں۔ انگریزی بطور دوسری زبان TESOL اور انگریزی بطور غیرملکی زبانTEFL وغیرہ بھی اسی شاخ کے نیچے آتے ہیں۔
ہمیں زبان پڑھانا سکھایا جاتا ہے جیسے بی ایڈ اور ایم ایڈ والوں کو پرائمری کے بچے پڑھانا سکھایا جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں ہمیں زبان یا انگریزی زبان سکھانے کے لیے بطور استاد تیار کیا جاتا ہے ۔ ہمارا نصاب یعنی ماسٹرز کا دو سالہ اور بی اے آنرز کا چار سالہ کورس اسی پر مشتمل ہوتا ہے۔
اس ساری تمہید کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ یعنی پاکستانی میں انگریزی تعلیم ۔۔ پاکستان میں انگریزی تعلیم اور ہمارے بچوں کا انگریزی کا معیار اتنا برا کیوں ہے؟ اس سارے کو کچھ نکات کی صورت میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ یہ یاد رہے کہ میرا مقصد یہاں انگریزی کی وکالت کرنا نہیں بلکہ انگریزی تعلیم کے سلسلے میں درپیش مشکلات کا ذکر کرنا ہے۔ یہ ایک خالصتًا تکنیکی معاملہ ہے اس سیاسی معاملے سے الگ جس کے تحت ہم انگریزی کے اپنے ملک میں سٹیٹس پر سوال اٹھاتے ہیں اگرچہ یہ شک بھی انگریزی تعلیم کے غیر معیاری ہونے کی بڑی وجہ ہے۔
ہمارے ہاں انگریزی کے اساتذہ ہی تیار نہیں کیے جاتے۔ جو لوگ انگریزی پڑھاتے ہیں وہ مضمون کے ماہر نہیں ہوتے۔ یاد رہے انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنا اور اطلاقی لسانیات میں ماسٹرز کرنا ایسا ہے جیسے فزکس اور کیمسٹری دو الگ چیزیں۔
ہمارے ہاں ادب کی زبان کو ہی اصل زبان سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ ادب زبان کا ایک اُسلوب ہوتا ہے مکمل زبان ہیں۔ اردو کی کتابی اور عمومی زبان آپ کے سامنے ہے۔ بامحاورہ اور روزمرہ کی زبان ہمارا معمول ہے لیکن لکھی اور بولے جانے والی زبان نیز ادب اور عام آدمی کی زبان میں بہت سے فرق ہوتے ہیں جو ہمارے بچوں کو سکھائے ہی نہیں جاتے۔ آج بھی دو صدیاں پرانے ناول اور کہانیاں ہمارے انگریزی نصاب میں اس غرض سے شامل ہیں کہ یہ بچوں کو انگریزی سکھائیں گی۔ کونسی انگریزی؟ وہ جو ڈیڑھ سو سال پہلے لکھی جاتی تھی؟
ہمارا انگریزی نصاب انتہائی فرسودہ اور سالخوردہ ہے۔ جیسا کہ اوپر ایک مثال دی گئی اس کے علاوہ بھی ہمیں پرائمری سے لے کر اعلٰی سطح تک نصاب میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ پرائمری سطح پر ہمیں نصاب کو سائنسی بنیادوں پر بہتر کرنے کی ضرورت ہے جبکہ اعلٰی سطح پر ہمیں متعلقہ فیلڈ کے مطابق انگریزی نصاب تیار کرنے کی ضرورت ہے جیسے انجنئیرز کو درکار انگریزی وکیل کو درکار انگریزی سے بہت مختلف ہوگی اور ایک بزنس مین کو درکار انگریزی ان دونوں سے مختلف۔
ہمارا طریقہ تعلیم ستر برس پرانا ہے۔ ہمارے سکولوں میں بچوں کو انگریزی پڑھانے کے طریقے کو اصطلاحی زبان میں ہم گرامر ٹرانسلیشن میتھڈ کہتے ہیں۔ یعنی گرامر اور ترجمے کے ذریعے زبان کی تعلیم۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس میں مادری زبان کو واسطہ بنا کر تعلیم دی جاتی ہے جس کی وجہ سے بچے کی سوچ اور سیکھی جانے والی زبان میں مادری زبان واسطہ بن جاتی ہے۔ یہ سب ایسا ہی ہے جیسے اردو میں لکھی تحریر پہلے انگریزی میں ترجمہ ہو پھر کمپیوٹر کی زبان میں یعنی دوہری پروسیسنگ۔ اگر جدید طریقہ ہائے تعلیم استعمال کیے جائیں جن میں کمیونیکیشن سے پڑھانا بھی شامل ہے تو اس کو بہت بہتر کیا جاسکتا ہے۔ بطور پروفیشنل ہم جی ٹی ایم نہیں بلکہ مختلف طریقہ ہائے تعلیم کو ملا کر پڑھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یعنی جیسا منہ ویسی چپیڑ اور جیسا ماحول ویسا طریقہ تعلیم۔
جیسا کہ اوپر ایم اے انگریزی ادب کے بارے مین بات کی گئی کہ یہ لوگ انگریزی ادب تو پڑھا سکتے ہیں انگریزی زبان نہیں ایسے ہی ہمارے پرائیویٹ سکولوں میں میٹرک پاس استانیاں بچوں کی بنیاد کا بیڑہ غرق کر دیتی ہیں۔ نیم حکیم کے مشابہ یہ اساتذہ بچے کو وقتی رٹا لگوا کر اس سے انگریزی تو بلوا دیتے ہیں لیکن ذخیرہ الفاظ ہی زبان نہیں ہوتی زبان صوتیات یعنی فونیٹکس سے لے کر گرامر تک ہوتی ہے جس میں ذخیرہ الفاظ، الفاظ بنانے کے قوانین، جملہ بنانے کے قوانین، پیراگراف بنانے کے قوانین، معانی کا لیول اور اس سے بھی اوپر سیاق و سباق کے لحاظ سے معانی و مطالب اور پھر پورا پیغام بطور ایک یونٹ۔ ایسے ہی جیسے ایک خط اگرچہ جملوں پر مشتمل ہے لیکن وہ بطور ایک یونٹ بھی کام کرتا ہے اور بطور ایک اکائی ایک خاص مطلب و معانی بیان کررہا ہوتا ہے جو نچلے درجے کے تمام یونٹ آپس میں مل کر تشکیل دیتے ہیں۔ اس لیول کو ہم ڈسکورس کا نام دیتے ہیں۔ ان سب درجہ ہائے زبان کا جب تک استاد کو پتا نہیں ہوگا وہ کیسے زبان کوسکھا سکے گا۔
یہ غلط طرز فکر ہے کہ ہمیں ہر معاملے میں امریکیوں یا برطانویوں کی تقلید کرنی چاہیے۔ اس طرز فکر کی تلفظ سکھانے کے سلسلے میں انتہا پسندانہ انداز میں پیروی کی جاتی ہے۔ سرکاری سکولوں میں تو اکثر تلفظ ہوتا ہی غلط ہے لیکن نام نہاد انگریزی سکولوں میں بچوں کو انگریز بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ جبکہ بطور ماہر لسانیات ہم جانتے ہیں کہ مادری زبان کا اثر ہمیں کبھی بھی غیرملکی زبان ایسے سیکھنے نہیں دیتا جیسے اس کے اہل زبان وہ زبان بول سکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کو قبول کرنا چاہیے کہ بطور اردو بولنے والے ہم کبھی بھی تھیٹر کو ایسے نہیں بول سکتے جیسے انگریز بولتے ہیں۔ اس کے صوتیے غیرشعوری طور پر ہم اردو کے صوتیوں کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا گلہ اور منہ وہی صوتیے اور آوازیں نکالنے کا عادی ہوتا ہے جو ہماری مادری زبان میں ہوتے ہیں۔ اسی کی سادہ سی مثال انگریزی کے مصوتے یا واؤلز ہیں۔ انگریزی میں دو قسم کے مصوتے ہیں یک آوازی، دو آوازی۔ یک آوازی جیسے آ، او، ای اور دو آوازی ان یک آوازی مصوتوں سے مل کر بنتے ہیں۔ لفظ ڈے کے آخر میں سے ہم دو آوازی مصوتہ اڑا دیتے ہیں جبکہ اصل میں یہ ڈےای ہوگا آخر میں ایک دو آوازی مصوتے کے ساتھ۔
آخر میں ہمارا یہ المیہ کہ ہم آج تک انگریزی کا سٹیٹس متعین نہیں کرپائے جس کی وجہ سے نہ ہم انگریزی کو چھوڑتے ہیں اور نہ اپناتے ہیں اور نہ ہی اس کی تعلیم کو بہتر بناتے ہیں۔ اگر یہ فیصلہ ہوجائے کہ ہم نے اس زبان کی بطور غیرملکی زبان تعلیم دینی ہے تو پھر اس کے لیے پروفیشنل بھی تیار ہونے لگیں گے ایسے ہی جیسے کامرس اور کمپیوٹر سائنس کے پروفیشنل تیار ہوتے ہیں۔