فیاض ندیم
مسائل ہر معاشرے کا لازمی جزو ہوتے ہیں اور قومیں ان مسائل کا بہت گہرائی سے مطالعہ کرتی ہیں، اُن کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کرکے ان کے حل کے لئے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرتی ہیں۔ یہ مسلسل عمل ہے اور اسی تسلسل سے معاشرے بہتر سے بہتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اگر ہم اپنی تاریخ پر نظر دوڑائیں تومعلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں معاشرتی مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بگڑتے چلے گئے ہیں اور معاشرے کی بہت سی اچھی اقدار ماضی کا حصّہ بنتی چلی گئی ہیں۔ آج ہم جس ماحول میں زندہ ہیں، اسے جتنی بھی اچھا کہنے کی کوشش کر لیں، اس کا کوئی بھی جزو ایک مثالی معاشرے کی تصویر پیش نہیں کر رہا۔ یہاں تعلیم، غربت، برداشت، رواداری، امن، باہمی عزّت و تکریم ، کوئی بھی پہلو مثبت تبدیلی پیش کرتا نظر نہیں آ رہا۔
ہم ان مسائل کی جڑ شہنشاہی اور نو آبادیاتی تاریخ میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسی کوئی بھی کوشش ایک انسانی اور جیتے جاگتے انسانی معاشرے کے ساتھ زیادتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ قوموں کے مجموعی رویوں اور قدروں پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے، لیکن یہ اثرات منفی سے زیادہ مثبت ہوتے ہیں اور معاشرے اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ جب ہم ایک تحریکِ آزادی سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں، تو ایسی کوئی بھی وجہ کا اب تک موجود رہنا از خود ایک بڑا مسئلہ ہے اور آزادی کے ستر سال گزرنے کے بعد بھی ایسی وجہ کا وجود ہماری قومی حیثیت پر سوالیہ نشان ہے۔ آزادی کے حصول کا مقصد ہی یہ تھا کہ ہم نے اُن مسائل کی صحیح طور پر نشان دہی کر لی ہے اور ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے ان مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ آزادی حاصل کر کے ہم ایک مہذب قوم کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں اور ایک مثالی معاشرہ ہمارا نصب العین ہے۔ اور اگر ابھی تک ہم یہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہیں یا اُن کے حل کی طرف صحیح سمت کا تعین نہیں کر سکے تو ہمیں ان پہلووں پر توجہ دینا ہوگی جہاں جہاں سوالیہ نشان ہیں۔ آزادی کے ستر سال گذرنے کے بعد اب تک تقریباََ ڈیڑھ نسل اپنی زندگی گذار چکی اور تیسری نسل جوانی میں قدم رکھ چکی ہے۔ آزادی کے باوجود اور کسی بھی بادشاہی اور نو آبادیاتی قوت سے آزاد ہو کر بھی اگر معاشرتی مسائل جوں کے توں ہیں یا مزید گھمبیر ہوئے ہیں تو اس کا مطلب ظاہر ہے ہم اپنی منزلوں کا تعین صحیح طور نہیں کر سکے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کی تربیت کی بنیادیں ہی نہیں بنا سکے۔ میرے خیال میں ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے۔
ہماری آنے والی نسلوں کی تربیت بہت ہی خود غرضانہ بنیادوں پر ہوتی ہے۔ قومی سطح پر تو کوئی تربیتی پالیسی موجود ہی نہیں اور جو پالیسی ہے، اسے قومی پالیسی ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ اس میں چند لوگوں، اداروں اور طبقوں کی خودغرضانہ خواہشوں کی ترجمانی کے سوا کچھ نہیں ، اور انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک مستقبل کے معماروں کی تربیت کو ہم خود غرضیوں کی نظر کرتے چلے جاتے ہیں۔ میرا تعلق تعلیم و تربیت کے شعبے سے ہے اور میں بہت وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بچے کی پیدائش سے لے کر اس کی تربیتی عمر کی تکمیل تک وہ بہت ہی خود غرض ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ والدین سے لے کر یونیورسٹی تک، گلی محلے کے ماحول سے شہری نظام تک، مسجدو مدرسے سے لے کر سکول و کالج، اسے ہر جگہ ایک خود غرض، شخصی اور سطحی قسم کی تعلیم و تربیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ عملی میدان میں قدم رکھتا ہے تو معاشرے کو وہی کچھ سود سمیت لو ٹانا شروع کر دیتا ہے، جو حصولِ شعور کی عمر میں اسے معاشرہ اور اس کا تربیتی نظام عطا کرتا ہے۔ اس طرح سطحی سوچ، خود غرضی، غیررواداری، نفرت اور توہینِ انسانی جیسی خصوصیات معاشرے کا حصہ بنتی چلی جاتی ہیں۔
والدین بچے کی پہلی تربیت گاہ ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں والدین کبھی بھی بچے کی ایک معاشرے کا اچھا فرد بننے کے لئے تربیت نہیں کرتے، بلکہ ان کی ساری تربیت کا دارومدار اُن کی خود غرضانہ خواہشوں پر ہوتا ہے۔ وہ بچے کو اپنی آخری عمر کا اثاثہ تصّور کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر اس کی تربیت کرتے ہیں۔ ان کا سارا زور اسی خواہش پر ہوتا ہے کہ بچہ بڑا ہو کر ڈاکٹر، انجیئر یا فوجی بن جائے تاکہ بڑھاپے میں اُن کو سنبھالنے کے لئے مضبوط ہاتھ میسر ہوں۔ ظاہر ہے ہمارے معاشرے میں یہ خواہش بری بھی نہیں ہے، کیونکہ یہاں بڑھاپے میں انسان بہت بے سہارا ہو جاتا ہے اور سٹیٹ اسے کوئی سپورٹ مہیا نہیں کرتی۔ لیکن اس خواہش کے حصول کے لئے ہم بچے میں کون کون سی منفی خصوصیات کی ترویج کرتے چلے جاتے ہیں، اس سے مکمل طور پر بے خبر رہتے ہیں۔ والدین بچے کو کبھی نہیں سکھائیں گے کہ اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا ہے، گلی محلے میں دوستوں بزرگوں، اور ہم عمروں کے ساتھ عزت و تکریم کا رشتہ قائم کرنا ہے، یہاں تک کہ بہن بھائیوں کے ساتھ کیا تعلق قائم کرنا ہے۔ وہ بچے کو ہر وقت ایک مقابلے کی فضا میں رکھتے ہیں اور اس مقابلے میں جیت کے حصول کے لئے ہر انسانی قدر ثانوی سطح کی ہو جاتی ہے۔ مقابلے کی یہ فضا بچے سے قربانی، رواداری، ایثار، تکریم کا ہر جزبہ چھین لیتی ہے جو مہذب معاشرے کا خاصا ہوتا ہے۔
گھر کے بعد ہمارے زیادہ تر بچے مسجدوں میں قرآنِ پاک کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یا ان کے لئے گھروں میں ہی اسلامی تعلیم کا انتظام ہوتا ہے۔ یہاں بھی خود غرضانہ رویے بچے کی تعلیم و تربیت کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ والدین اپنے بچے کو اپنے مسلک کی مسجد، مدرسے یا مولوی صاحب سے ہی قرآنِ پاک کی تعلیم دلوائیں گے۔ یہاں مولوی صاحب بھی خود غرضی کی بھیانک مثال قائم کرتے ہیں۔ وہ اپنے مسلک کے علاوہ ہر دوسری فکر کے خلاف بچے میں نفرت اُنڈیلتے چلے جاتے ہیں۔ اپنے مسلک سے وفاداری کی تعلیم اس خود غرضی کا شاخسانہ بن جاتی ہے ۔ معاشرتی تنوع میں جہاں ایک کھلی سوچ، اور قبولیانہ ذہنیت کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں ایک مذید کٹڑ عقیدہ پرست انتہا پسند کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
ہمارے قومی تعلیمی نظام میں خود غرضی ایک بڑے عنصر کے طور پر موجود ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے ہمارے ہاں قومی سطح کی کوئی تربیتی پالیسی سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور جو پالیسی ہے اس پر مخصوص اداروں، لوگوں اور طبقوں کی خود غرضیوں کو پالیسی کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ تعلیمی نظام کی عملی سطح پر کارگذاروں کی خود غرضیاں مجموعی تربیتی عمل پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
ہمارے ہاں سکولوں کا نظام کسی مہذب معاشرے کے بر عکس بہت ہی پیچیدہ اور خود غرض طبقوں میں بٹا ہوا ہے۔ یہاں ایک طرف مہنگے پرائیویٹ سکولز ہیں، جن میں وسائل بھی مناسب حد تک موجود ہیں اور ان تک رسائی صرف محدود معاشرتی طبقے کو حاصل ہے، جس کا تناسب ایک فی صد سے زیادہ نہیں۔ دوسری طرف وسائل سے محروم سرکاری سکولز ہیں جن میں ہمارے 80 فی صد بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان ایسے پرائیویٹ سکولز کی بھی بھر مار ہے، جن کے پاس نہ تو وسائل ہیں، نہ تربیت یافتہ قومی سوچ اور شعور کے اساتذہ اور نہ ہی کوئی مناسب چیک اینڈ بیلنس کا نظام۔ اس کے علاوہ بچوں کی ایک بڑی تعداد دینی مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔
ان سب اداروں کے اپنے اپنے خود غرضانہ مقاصد ہیں۔ اور ان میں سے کوئی بھی سسٹم ایک متحدہ معاشرتی نظام کی تعلیم کا انتطام نہیں رکھتا۔ مہنگے پرائیویٹ سکولوں میں وہ طبقہ اپنے بچے بھیجتا ہے، جو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ ان کے بچے عام بچوں کے ساتھ میل جول رکھیں۔ اور ان اداروں کے اخراجات بھی اسی مقصد کے لئے اتنے زیادہ رکھے جاتے ہیں تا کہ ان سے کم تر طبقوں کے بچے ان سکولوں تک پہنچ ہی نہ پائیں۔ اسی وجہ سے کم تعداد کے باوجود ان سکولوں میں وافر مقدار میں فنڈز موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان سکولوں سے فارغ التحصیل طلبا میں خود غرضی کی ایک انتہائی شکل موجود ہوتی ہے اور یہ بچے اپنے معاشرے میں باقی سماجی اکائیوں سے نفرت سیکھتے جاتے ہیں اور کبھی بھی ان کے لئے عزت و تکریم ان کی فطرت کا حصہ نہیں بن پاتی۔
سرکاری سکولوں میں گو کہ مخصوص خود غرضی کا کوئی پہلو نہیں ہوتا اور عام طور پر معاشرے کے پسے ہوئے طبقے ہی ان میں اپنے بچوں کو حصولِ علم کی غرض سے بھیجتے ہیں، لیکن یہاں پر تعلیمی عمل سے منسلک لوگوں کی ذاتی خود غرضیاں پورے تعلیمی و تربیتی عمل کی تباہی کا باعث بنتی ہیں۔ زیادہ تر اساتذہ مناسب مانیٹرننگ سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے سست، کاہل اور اپنے فرائض سے لاتعلق رہتے ہیں اور تعلیمی عمل میں جس گرم جوشی، سرگرمی اور فعالیت کی ضرورت ہوتی ہے اس کا فقدان رہتا ہے۔ لہٰذا ان اداروں سے فار غ التحصیل طلبا کسی بھی قسم کی معاشرتی تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔ یہاں سوائے سطحی باتوں، جھوٹی تاریخ اور کھوکھلی قدروں سے آشنائی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ چونکہ معاشرے کا بڑا حصہ انہی سے وجود میں آتا ہے، لہٰذا معاشرے میں عام دانش کی کمی رہتی ہے۔ یہیں سے سطحی سیاست، سطحی قومیت اور سطحی معاشرت جنم لیتی ہے۔
گلی محلوں کے پرائیویٹ سکولز آنے والے دنوں میں ہمارے معاشرتی نظام میں تخریب کی بڑی وجہ ثابت ہونے والے ہیں، بلکہ بہت حد تک اس کے اثرات ظاہر بھی ہو رہے ہیں۔ ان کے لئے ابھی یہ کہنا ہی کافی ہے کہ ان کے مالکان کے پاس وسیع تعلیمی اختیارات موجود ہیں۔ یہاں تک کہ پرائمری اور مڈل سطح کے سلیبس کا انتخاب بھی خود کرتے ہیں اور ان مالکان کے پاس وسائل کی بھی شدید کمی ہوتی ہے۔ آپ اسی سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان مالکان کو کیسے کیسے اور کون کون استعمال کر سکتا ہے۔ پرائمری اور مڈل سطح کی تعلیم ہی بچے کے ذہن میں وہ بیج بوتی ہے جو جوانی تک تناور کانٹے دار درخت بن جاتا ہے۔ لہٰذا ہمارے معاشرے کا ایک بڑا حصہ ایسے تعلیم کے ٹھیکیداروں کی خود غرضانہ خواہشوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔
کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر خود غرضی کے مزید پہلو طالب علم کی تربیت کا حصہ بنتے ہیں۔ یہاں پر مضامین کے چناؤ سے لے کر ریسرچ جیسی اعلٰی سرگرمی خود غرضی کے اصولوں پر ہی عمل میں لائی جاتی ہے۔ اس خود غرضی میں والدین، اساتذہ، بچے کی سابقہ تربیت، وسائل کا فقدان، غربت، سٹیٹس کو اور مقابلے کی انتہائی بد صورت فضااپنا اپنا حصہ ڈالتی چلی جاتی ہے۔ ان تمام پہلووں پر بحث مضمون کی طوالت کا باعث ہوگی، لیکن اہلِ نظر سے کچھ پوشیدہ نہیں، لہٰذا نشان دہی کافی ہے۔ دینی مدرسوں یا یونیورسٹیوں کی تو بنیاد ہی مسلکی خود غرضیوں پر ہوتی ہے۔
ایسی تعلیم سے گزر کر جب ایک شخص معاشرے کے عملی میدان کا حصہ بنے گا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ معاشرے کو کیا دے گا۔ وہ اپنے جائز ناجائز مقاصد کے لئے ہر جائز ناجائز طریقہ اختیار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گا۔ یہاں تک کہ اپنے گھر سے کوڑا بھی باہر گلی میں پھنکنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرے گا۔ ہمارے معاشرے کا یہی مسئلہ ہے۔ اسی وجہ سے یہاں انتہا پسندی ہے، زندگی اور انسانیت کے ساتھ منفی رویہ ہے، رشوت و حرام خوری ہے، انسان کی عزت و حرمت کا فقدان ہے، فکر و عمل میں سطحیت ہے اور تخریب ہے۔ ایسے معاشرے میں خود غرضی کو چھوڑ کر اگر کوئی عبدالستار ایدھی بن جائے تو وہ باقی لوگوں سے اتنا مختلف ہو جاتا ہے کہ ایسا معاشرہ اس کے لئے نوبل پرائز کا مطالبہ کرنے لگتا ہے۔