قاسم یعقوب
ہم کسی بھی مسئلے کو مسئلہ نہیں سمجھتے۔میں خود اسی سوچ میں ہوں کہ پاکستان جیسے ملک کا جو اپنی کسی بھی کَل کی درستی کا دعویٰ نہیں کر سکتا، میں مسئلہ کیوں مسئلہ نہیں سمجھا جاتا اور اگراپنے اردر گرد مسئلوں کو ڈھونڈ بھی لیا جائے تو سب سے اہم یہ سوال آن پڑتا ہے کہ ان بہت سے مسئلوں میں وہ کون سا مسئلہ ہے جس کے ہاتھ میں ان تمام مسئلوں کی باگ ہے۔ کیا کسی ایک مسئلے میں سب مسئلوں کا حل موجود ہے؟ یا ایک مسئلے کے حل کے بعد دوسرے مسئلے کا حل آسان ہوسکتا؟یوں بتدریج ہم اپنے مسائل کو حل طلب شکل دے سکتے ہیں۔یہ سب باتیں تب معنی خیز ہو سکتی ہیں جب ہم کسی مسئلے کو مسئلہ سمجھیں یا کسی مسئلے کو اپنا بڑا مسئلہ سمجھ رہے ہوں۔
میرے خیال میں تو ہم کسی بھی مسئلے کو اپنا مسئلہ ہی نہیں سمجھتے۔اپنا مسئلہ سے مراد اپنا قومی مسئلہ____ہم تو اپنے انفرادی مفادات سے آگے کا سوچ ہی نہیں سکتے۔
ہم مسئلے کو مسئلہ کیوں نہیں سمجھتے !
ہم اپنے اردگرد لاتعداد سوالوں کے حصار میں رہتے ہیں جو ہماری چھوٹی چھوٹی ناکامیوں اور لاحاصل مصروفیات سے جنم لیتے ہیں۔ یہ سوالات بعض اوقات ہماری رواں زندگی میں کسی شدید رکاوٹ کا باعث بھی بنتے ہیں مگر ہم ایک لمحے کے لیے اپنے گردوپیش کا جائزہ لیتے ہیں اور اسے وہیں چھوڑکے آگے بڑھ جانے میں ہی آفیت محسوس کرتے ہیں۔ کبھی کبھار ہم کسی مسئلے کو اپنے لیے رکاوٹ محسوس کرتے ہیں، اسی پریشانی میں کچھ دیر کے لیے مسئلے کو مسئلہ بھی سمجھ لیتے ہیں مگر زیادہ دیر کے لیے نہیں ۔جیسے بس میں بیٹھے تمام مسافروں کے لیے جو زندگی کے کسی بھی شعبے میں کتنی ہی اہم ذمہ داری کیوں نہ نبھا رہے ہو، لمحہ موجودمیں بس ڈرائیور کی اہمیت کو تسلیم کر چکے ہوتے ہیں۔ ڈرائیور اس دوران اپنی مجبوری کا احساس ایک ناگزیر حقیقت کے طور پر دے رہا ہوتا ہے۔اگر یوں کہا جائے کہ ڈرائیور دوران سفر سب مسافروں کی مجبوری بنا ہوتا ہے مگر ہمیشہ کے لیے نہیں۔ بس کی منزل آتے ہی سب مسافر ڈرائیور کو اپنی مجبوری تصور کرنا ترک کر چکے ہوتے ہیں۔ مسئلے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ہم کسی مسئلے کا کچھ دیر کے لیے شکار ہوتے ہیں۔ یونہی اُس مسئلے سے باہر نکلتے ہیں، اُسے اِس طرح بھول جاتے ہیں جیسے وہ کبھی پیش ہی نہیں آیا تھا۔
ہم مسئلہ کو مسئلہ کیوں نہیں سمجھتے؟ میرے خیال میں مسئلے اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ مسئلے اب مسئلہ نہیں رہے بلکہ ہماری عادت بن گئے ہیں۔ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وقت گزر رہا ہے، ہمیں خبر ہی نہیں ہوتی زندگی ریزہ ریزہ ہوکر مٹھی سے نکلتی ریت کی طرح سرک رہی ہے۔ہم گھٹ گھٹ کے آگے بڑھ رہے ہیں اور مر مر کے جی رہے ہیں۔ مسئلوں کی بہتات نے ہمیں بے حس اورلاچارکردیا۔ پھولوں بھری کیاری کے پاس تعفن زدہ خون کے چھینٹے ہوں تو کون سے سرخ رنگ کی کشش آپ کو اپنے پاس بلائے گی۔ظاہری بات ہے پھول کی طرف کون دیکھ سکتا ہے۔ مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ خون کی طرف بھی کوئی مستقل نہیں دیکھ پاتا۔ ہمیں نفاست، پاکیزگی اور مٹھاس جیسے لفظوں کی شیرینی متاثر نہیں کر تی۔ ہمیں بے حس قوتوں نے نچوڑ کے رکھ دیا ہے۔ ہم مسئلہ کو کس طرح مسئلہ سمجھیں گے؟ ہمیں تواس کو سمجھنے کاآغاز کرنے کے لیے بھی ایک مسئلہ آن پڑتاہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہم خود کسی نہ کسی مسئلے کا موجب ہیں، مسئلہ خود ہمیں مسئلہ قرار دے رہا ہوتا ہے اس لیے ہم کسی بھی مسئلے کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔
ہمیں سب سے پہلے مسئلے کو مسئلہ سمجھنے کی طرف جست بھرنا ہو گی خواہ ہم خود ہی کسی مسئلے کا کردار کیوں نہ ہوں۔ ہمیں خود سے مسئلوں کو سمجھنے کی طرف آغاز کرنا ہوگاپھرمرکزی مسئلوں کے کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ یہ عمل احساس کی بالیدگی اور شعور کی آنکھ کا کھلا پن ہے۔ ہمیں مسئلوں کو سمجھنے سے پہلے اپنے شعور اور احساس کو جگانا ہوگا۔
مشہور مسلم فلسفی الکندی نے فلسفہ کی دو اقسام بتائی تھیں۔ایک علمی اور دوسرا عملی___علمی فلسفہ، فلسفۂ اولیٰ ہے جو مابعد الطبیعیات کو زیرِ بحث لاتا ہے۔ مگر عملی فلسفہ انسانی معاملات اور اخلاقیات کا مطالعہ کرتا ہے۔اس کے نزدیک فلسفی صحیح معنوں میں فلسفی اس وقت بنتا ہے جب وہ نہ صرف یہ کہ عملی اعتبار سے برگزیدہ ہو بلکہ اپنے اعمال کے لحاظ سے بھی اونچے درجے پر فائز ہو۔صاحبِ فہم و شعور کو اطمینانِ قلب کی دولت اسی لیے حاصل رہتی ہے کہ وہ چیزوں کو ان کے اصل تناظر میں رکھ کر دیکھنے کا عادی ہوتا ہے۔یعنی وہ مسئلے کو اُس کی جڑ سے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ کندی نے فکر اور عملی فکر کا نظریہ دیتے ہوئے صاحبِ شعور کو مسئلوں کی کھوج میں سرگرداں دیکھا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہم نے اپنی فکری مساعی کو انسانی معاملات اور اخلاقیات سے دورکر رکھا۔’ہمارابڑا مسئلہ کیا ہے‘ جیسا سوال ہمارے جیسے معاشروں میں خود ایک بہت بڑا مسئلہ بن کے سامنے آتا ہے۔ میرے خیال میں ہم اگر پہلے اپنے چھوٹے چھوٹے سے مسئلوں کو تلاش کر لیں اور اُن کو اپنے مسائل کے تناظر میں دیکھ کر اپنا کردار درست کر لیں تو پھر بڑے مسئلے کی طرف جہت آسان ہو جائے گی۔یا شاید اس طرح بڑا مسئلہ خود ہی تحلیل ہو جائے اور انھیں چھوٹے مسئلوں کے حل کرنے سے خود چھوٹا مسئلہ رہ جائے۔