ہندکو زبان: قدیم گندھارا تہذیب کا سرمایہ
(سید منظرعلی نقوی)
زبان اور بولی میں یقینا فرق ہے کسی بھی زبان کی تکمیل میں شعر وادب کے ساتھ اُس زبا ن کی تاریخــ’ ثقافت ‘ آرٹ کا ورثہ کے وجو د کا ہو نا لازم ہے ۔تاریخ کے اوراق ‘ نشانات ‘ آثار قدیمہ اور آر ٹ کے نمو نو ں کو کھوجنا او رپھر اُنکے گمشدہ حوالو ں کو باہمی ربط دے کر ایک زنجیر کی تخلیقی صور ت میں لانا بہت ہی جان جو کھوں کا کا م ہے ۔ہزاروں برس پر محیط گمشدہ تاریخ کو پتھروں ، پہاڑوں ، دریا ئو ں ، سکّوں ،لہجوں ،اور مختلف لوک ثقافتوں کو ایک لڑی میں رو کر زبان کے وجود کو ثابت کر نا دقت طلب کا م تو ہے ۔قد م قدم پر ٹھو کر کھانے کا احساس بھی ہو تا ہے ۔ہندکو زبا ن کی تاریخ اور شعر و اداب کو انہی خطو ط پر دیکھنے کی ضرور ت ہے۔
بّر صغیر کی قدیم زبانو ں میں ایک قدیم ترین زبان ہندکو ہے جو گندھارا تہذیب سے پہلے بھی کئی صدیوںسے مو جو د تھی اور تو اتر کے ساتھ بولی جارہی تھی۔ گندھارا تہذیب تو ہزاروں بر س سے اپنے ہو نے کی گو اہی دے رہی ہے۔گندھارا سے پہلے اس خطّے کو دردستان کا علاقہ کہا جاتاتھا۔ مو جو دہ شمالی علاقہ جات کا قدیم نام بلورستان ہے قدیم بلورستان کی زبانوں میں بلتی،شینا، چترالی،گلگتی،گوجری ، لداخی،اور دیگر کئی زبانیں او ر بولیا ں شامل ہیں جبکہ دردستان کا علاقہ قندھار سے جہلم تک ،بعض تاریخ دانوں کے مطابق سندھ تک جاتا ہے ۔جہاں زیادہ تر سندکو یا ہندکو ہی بولی جاتی تھی ۔یہ بات تو طے ہے کہ تما م تہذیبیں دریائوں کے کنا روں پر آباد ہوئیں ۔ دریا ئے سندھ جسے انڈس ریور بھی کہا جاتاہے اس کے کنا روں پر بو لی جانیں والی تمام زبانیں ،ہندکو یا سندکو کہلاتی ُہیں ۔ہندکو زبان کے حوالے سے یہ غلط فہمی عا م ہے کہ یہ ہند سے ہندکو ہے ایک اعتبار سے یہ قیا س درست ہو سکتاہے لیکن یہ حقیقت ہر گزنہیں ہے ہند کا اصل سندھ ہے اور اسی حو الے سے ملک کانا م بنا،بعد میں یہ خطّہ ہند کے نا م سے رواج پا گیا اس مملکت کا وجو د کو ہ ہمالیہ کے جنوب اور بحر ہند ، بحر عر ب کے شمال اور خلیج بنگال کے شمال مغر ب میں ایک تکو نی خشکی کا ٹکڑا دنیا کے نقشے پر نظر آتاہے ۔جس کی سنہر ی اور تاریخی تہذیبیں ہڑپہ اور موہنجو دڑویعنی مردوںکا ٹیلہ کے مقامات پر نمو پذیر ہوئیں ۔ہند کوکا مرکز بعض سبک رو اور سیر ابی بخشنے و الے دریائو ں کے آس پاس رہا ۔اسی لیے اس کو سبت سندھو بھی کہا جاتا رہا یعنی سات دریا ئو ں کی سر زمین،جو بعد میں ہخامنشی بادشاہو ں نے سین ہٹا کر ہند کر دیا ۔
بّر صغیر کے حو الے سے سکائی لیکس Sky lax)) نے پہلی کتاب تحریر کی اس کتاب میں اُس نے ہندوستان کے با رے میں عجیب معلومات دی ہیں سکائی لیکس کو ایر انی بادشاہ داریو ش نے ۵۲۳قبل مسیح سے ۲۵۶قبل مسیح کے دور ان دریائے سند ھ کی گزرگاہ دریا فت کرنے کے لئے بھیجاتھا ۔اُس کے ۲۰۰سال بعد ارسطو نے یہ کتاب دیکھ کر کہا کہ ہندوستان میں بادشاہو ں کو دیگر باشندوں کے مقابلے میں اعلی نسل کے لو گ قرار دیا جاتارہا ہے ۔سکا ئی لیکس نے ہندوستان کے حوالے سے بہت سی باتیں ازخود گھڑ کر یو نا نیو ں کو حیر ت زدہ بھی کیا۔ مثلاًیہ کہ یہاں کے لو گو ں کے دونو ں پائو ں بہت بڑے ہو تے ہیں جو وہ دھو پ سے سایہ کے لئے استعمال کر تے ہیں یایہ کہ یہاں کے لو گوں کے کان لمبے ہوتے ہیں اور وہ اپنے کانو ںسے اپنے جسم کو لپیٹ لیتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ ایک آنکھ رکھنے والے انسان ہیں دردستان یا دُرد ستان دڑاوڑی کی ایک شکل ہے۔لیچ (Leach) اورآرل ( Aural)کی تحقیق بھی یہی ہے البتہ سر جارج گریرسن (Grierson)دُردستان کے حوالے سے سنسکر ت کا حوالہ دیتے ہیں جس میں رزمیہ شاعر ی بھی مو جو د ہے۔عظیم مو رّخ او رسیّاح ہیر و ڈوٹس نا م لے کر حو الہ نہیں دیتا البتہ سونا نکالنے والی چونٹیو ں کے ضمن میں اشارہ کر تا ہے۔پانینی اور ٹولمی نے بھی انھیںدراورائی ہی لکھا ہے۔ہندوستانی تاریخ دانو ں نے ان لو گو ں کو ‘بربر’ لکھا ہے اور ” نشٹ” کہہ کر غیر آریائی ثابت کیا ہے ۔مسٹر تھرسٹن نے یہاں کے لو گو ں کو دراواڑوں سے پیشتر کے قدیم باشندے تسلیم کیا ہے چیٹر جی نے اپنی کتاب اینڈو آریان اینڈ ہندی (Indo Arayan and Hindi)میں خیال ظاہر کیا ہے کہ ہندوستان کے قدیم ترین باشندے یعنی حبشی النسل لو گ ، زمانہ قدیم کے پتھر کے دور سے تعلق رکھتے ہیں جو دراصل غذا کی تلاش میں بھٹکتے پھر تے تھے۔سب سے پہلے آسٹرک اور دڑاوڑی ہی تھے جنہوں نے اس خطے کو تمدنی بنیاد فراہم کی ۔ بعد میں آریا تہذیب نے مو جو د تہذیب کے خدّو خال کو سنو ارا ا و ر اضافہ بھی کیا ۔
ہندوستان میں آریا تہذیب کے اثر ات بہت گہرے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے اس دو ر میں انگریزی زبان و ثقافت برتر صور ت میں نظر آتی ہے یا جیسے انگریزوں سے قبل فارسی زبان وادب کا غلبہ تھا ۔ادب کے حو الے سے تو یہ بات آج بھی حقیقت پر مبنی ہے ۔فارغ بخاری لکھتے ہیں ”تاریخی شواہد ایک اور وجہ کے مظہر ہیں جو زیا دہ قرینِ قیا س ہے۔ایرانی ہخامنشی بادشاہو ں نے دریائے سند ھ کے قریب کے علاقوں کا نا م ”ہندو کا ”رکھا تھا جو دراصل سندھو سے ماخوذ ہے اس کے معانی دریا کے ہے اس لئے سندھو دریائے سندھ کے نا م کے طو ر پر مستعمل تھا ۔انڈیا او رہند کے الفاظ ہی ‘ہند و کا’سے ما خو ذ ہے معلو م ہو تا ہے کہ ہخامنشی علاقے کے ہندو کا نا م کی مناسبت سے اس کی زبان کا نا م بھی ہندو کو یا ہندکی رکھ دیا ہو گا”۔ قدیم ہندوستا ن کے حوالے سے ویدوں کا ذکر بھی آتا ہے چاروید تو بہت مقبول ہیں :
رِگ وید، یجر وید ، سام وید،اور اتھروید ، رِگ وید مذہبی حوالوںسے زیادہ مقبول تھے جس کے اشلو کو ں میں مِدحت بنیادی جُز ہے ۔یجر وید میںدیو تائو ں کے حضو ر جب قربانی پیش کی جاتی تھیں تو وہ دُعائیں یا منتر پڑھتے تھے ۔
سام وید میں دیگر مذہبی عبادت کے ساتھ ساتھ اُس زمانے میں ادب تخلیق کیا جاتا تھا اس کے علاوہ مو سیقی یا گائیکی کے لئے بھی سام وید استعمال ہو تے تھے ۔
اتھر وید میں زیادہ تر منتر ،جادو، او رٹو نے تھے جن کے ماہر دیو ی اور دیو تائو ں کا رُوپ بھی ڈھال لیتے تھے جو عو ام کو بے سکونی میں مُبتلا کر دیتے تھے چنانچہ بعد میں بُدھ مت اور جین مت اسی بے سکو نی کو ختم کر نے کے لئے وجو د میں آئے ۔اور لو گو ں کی مذہبی پریشانیوں کو بہت حد تک ختم کر نےکا باعث بنے ۔وید وں کو تحریر کی صور ت ۱۵۰۰قبل مسیح میں ملی۔ ان تما م وید وں کی زبان ہند کو یا ہندوی ہے البتہ رسم الخط کے حو الے سے خروشتی رسم الخط زیا دہ مقبول ہو ا وید وں میں غالب اکثر یت ہند کو لفظیات کی ہے ۔خروشتی رسم الخط کا ایک کتبہ ٹیکسلا میو زیم میں مو جود ہے ۔ ہند و کو زبا ن کے علا وہ یہا ں کئی پراکرتیں بھی بو لی اور لکھی جاتی تھیں ۔مہا بھا ر ت کی لڑائی ۸۰۰قبل مسیح میں ہو ئی مہا بھا ر ت میں جن مقاما ت کا ذکر آیا ہے و ہ آج بھی گندھارا کے علاقے میں نا موں کی ذراسی تبدیلی سے مو جو د ہیں۔ہندکو زبان کی قدیم ہونے کی گواہی تو ہخامنشی، مقد و نی ، موریہ، یونانی، باختری، ساکا ،ہندی ،پارتھی، کشان، ساسانی, ایرانی, کیداری ، ترکی اور ہندو شاہیہ اقوام کی تاریخ میں مل جاتی ہیں۔
ہند کو ادب کی تاریخ۱۵۰۰ قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے’ ‘ پانینی ” نے سب سے پہلے ویدوں کو سنسکر ت میں جگہ دی۔ کوئی زبان یہ دعوی نہیں کرسکتی کہ ویدوں میں صرف ان کی زبان شامل ہے۔ البتہ آہنگ کے اعتبار سے گندھا را پرا کر توں کے اثرات زیادہ نمایا ں ہیں البتہ الفاظ کی غالب اکثریت ہندکو زبان کی ہے۔ سنسکر ت میں بے شمار قدیم قصے کہانیاں درا صل ہند کو زبان کا ہی قدیم سر مایہ ہیں لیکن بد قسمتی سے ہند کو زبان یہ قدیم اور عظیم لوک سر مایہ الگ سے تر تیب میں نہیں لاسکی ۔ شائد آنے والے وقتوں میں ہند کو زبان کا کوئی دیوانہ محقق اسے سنسکر ت سے علیحدہ کرسکے۔
ہند کو ادب کا آغاز ویدوں کے اشلو کوں اور منتروں کی صورت شعری اوزان میں ملتا ہے۔ سنسکرت زبان کا بانی ”پانینی ” ضلع صوابی کی تحصیل چھوٹا لاہور میں پیدا ہواتھا۔ ”پانینی ” کا پورانام سلا تورا اور بعد میں ”لاور ”تھا۔ یہ علاقہ ہند کو بولنے والوں کا ہی ہے۔ ہند کو اضاف ادب میں شاعری سر فہر ست رہی ہے۔ قدیم شاعری میں ٹپہ ، چاربیتہ، رڑک، ٹہولا ، ابیتی (آپ بیتی) مستہ، سٹنی ، جوگا یا یوگا، دوہڑا، للو (لوری) اور حرفی قابل ذکر ہیں۔ جبکہ جدید ہند کو شاعری میں غزل ، نظم اور ہائیکو کے اضافے ہوئے ہیں۔ ہند کو زبان کے کلاسیکل دور میں حمد، نعت، منقبت، سلام، مر ثیہ ، رباعی اور مسدس لکھی گئیں جو آج بھی تو ا تر سے لکھی جارہی ہیں ۔نثر میں ہند کو ادب کا فی زرخیز نظر آتا ہے ناول، افسانہ ، سفر نامہ، تحقیقی اور تنقیدی کتابوں کے علاوہ مختلف علوم کی ہند کو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ کلامِ مجید کے منظوم اور نثری ہند کو تراجم بھی ہوچکے ہیں۔ ہند کو ادب کے حوالے سے ہزارہ ہند کو، پشاوری ہند کو، کوہاٹی ہند کو، بنوسی ہندکو، اور ڈیرہ جاتی ہندکو کی کتابیں تسلسل سے شائع ہورہی ہیں جن کے اپنے اپنے رسم الحظ بھی ہیں۔ہند کو کے قدیم شعراٗ میں استاد رحمت خان رحمت ، استاد محمد دین مائیو، استاد شادا، بابا وجیدا، استاد فر دوس ، استاد کنہیا سنگھ ، استاد نا مور، استاد حاجی گل، استادمچھّی، استاد امام دین ہزاروی، استاد سخی نما ڑا ، استاد مہیّن ، استاد بر دا، استاد گاموں ، استاد رمضو اور استاد احمد علی سائیںپشاوری نمایاں ہیں۔یہ تمام شعراٗ حرفی اور چاربیتہ کے حوالے سے مقبول ہوئے۔
حرفی کی صنف کو استاد سائیں احمد علی پشاوری نے بامِ عروج پر پہنچادیا ۔ سائیں پشاوری کا زیادہ عرصہ مکھا سنگھ اسٹیٹ راولپنڈی میں گزرا۔ ان کی حر فیوں کو سن کر علامہ اقبال نے انہیں ہند کو /پنجابی کا غاؔلب قرار دیا۔ سائیں احمد علی پشاوری ہند کو زبان کے صوفی شاعرکی حیثیت سے ابھرے ۔صوفیانہ شاعری میں وہ شاہ لطیف بھٹائی ،سچل سر مست ، رحمان بابا، میاں محمد بخش، وارث شاہ، بلھے شاہ اور مست تو کلی کی صف میں نظر آتے ہیں۔ سائیں پشاوری نے اپنی شاعری میں تصوف اور عشق کی حقیقی منازل کے حوالے سے حر فیاں تخلیق کیں۔ ان کی شاعری میں بے شمار ہند کو محا وروں کا استعمال ہند کو شاعری کو خوش کن بنا تاہے۔
اتھے مار دے ٹکراں خیال سائیاں
جھتے پونچ نہ بادِ صبادی اے
ہر بڑے شاعرکی طرح سائیں پشاوری کو بھی اپنے بڑے شاعر ہونے کا احساس تھا۔
میں تاکھو جیاں دابی استاد ہیواں تو اے سمجھے، سمجھدار ٹور نیئں میں سائیں زندہ دل زنگی رکھنا واں، دنیاجان دی اے زندہ در گور نیئں میں۔ سائیں نے اپنی شاعری میں حسن وعشق ، تصو ف ومعر فت ، جمالیاتی لطافتوں اور عالمگیر حقیقتوں کا اظہار خوبصورتی سے کیاہے۔ سائیں کی صوفیانہ شاعری کے حوالے سے راقم کا ایک مقالہ بعنوان ”عشق داراہی” لہراںلاہور۱۹۹۴ء میں شائع ہوچکا ہے۔ سائیں احمد علی پشاوری ہفت زبان شاعر تھے ۔ انہوں نے ہندکو، پشتو، اردو، فارسی، پنجابی، پوٹھوہاری اور کشمیر ی زبانوں میں شاعری کی ہے۔ وہ ان زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ غزل، حرفی، چاربیتہ ، نظم ، رباعی، قطعہ، حمدو نعت ، منقبت و سلام، مر ثیہ و نوحہ کے ساتھ ساتھ انہو ں نے آٹھ کلیوں اور بارہ کلیوں والے بیت زنجیر ے بھی لکھے وہ موضوعات کے حوالے سے قادر الکلام تھے۔ تصوف، اخلاقیات، فلسفہ ، رموز عشق ، حسن و خیال، ہجرو فراق اورمعاملہ بندی ان کی شاعری کا احاطہ کرتے ہیں۔
اولاً عالم ہست سیوں ہاتف آپ کا پکار یا بسم اللہ
پھر قلم نوں حکم نوشت ہویا، سن کے قلم سر ماریا بسم اللہ
نقشہ لوح محفوظ دا وچ سینے ، قلم صاف اتاریا بسم اللہ
اس تحریرنوں سائیاں فر شتیاں نے پڑھ شکر گذار یا بسم اللہ
سائیں احمد علی کی۴۰۰حر فیوں کو سب سے پہلے افضل پرویزنے ”کہندا سائیں” کے عنوان سے کتابی صورت دی بعد میں رضا ہمدانی نے سائیں احمد علی پشاروی کے عنوان سے ان کی تمام شاعری کو یکجا کر دیا۔ سائیں کے شاگردوں میں چڑ نگی، مسکین استاد گھائل سے لیکر جوگی جہلمی تک ایک سے بڑھ کر ایک معروف ہوئے ۔
جدید ہندکو غزل و نظم کی ابتدا رضا ہمدانی اور فارغ بخاری نے کی انہوں نے پہلی مرتبہ فارسی بحر وں ہندکو میں رائج کیا اس سے پہلے تمام ہندکوشاعری سیلابوں یعنی Syllabuls میںتھی ان کے اس کام کو خاطر غزنوی جلیل حشمی، سلطان سکون، آصف ثاقب ، غلام محمد قاصر ، عبدا للہ یزدانی اور الطاف صفدر نے آگے بڑھایا اور اب ہندکو زبان کا ہر شاعر غزل و نظم لکھ رہاہے۔
نثری تحقیق و تنقیدی کام کے حوالے سے مختار علی نّیر اور خاطر غزنوی قابل ذکر ہیں مختار علی نیئر نے صنف حرفی میں طزو مزاح کے حوالے سے کافی شہرت پائی ۔انہو ں نے پشاوری ہند کو رسم الحظ کے حوالے سے قابل قدر کام کیا نثری ادب کے حوالے سے ان کے رسم الحظ کو فروغ ملا۔ جبکہ رضا ہمدانی نے شعری رسم الحظ کو آسان تر بنایا جو آج ہند کو شعراٗ میں بہت مقبول ہواہے۔