(زمرد مغل)
ہندی سنیما اور اردو تھیٹر کی اہم شخصیت ٹام آلٹر ،ٹام جسے دیکھ کر آپ یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ انگریزوں جیسی شکل و صورت والا یہ شخص اتنی اچھی اردو بول سکتا ہے نہ صرف بول سکتا ہے بلکہ دنیا بھر میں کھیلے جانے والے اردو ڈراموں کا اس وقت کا سب سے مقبول اور اہم نام ہے ۔ہندی کی کئی فلموں کے ساتھ ساتھ تمل اور بنگالی فلموں میں بھی کام کیا ۔ ان کی اداکاری کو پسند کرنے والے دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں ۔اب ان کا زیادہ وقت تھیٹر میں گزرتا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اب اس طرح کے فلمیں بننا بند ہو گئی ہیں ہماری فلم انڈسٹری نے جتنی بھی ترقی کر لی ہو مگر اچھی اور معیاری فلموں کی تعداد پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہوگئی ہے اب انڈسٹری میں بڑی فلم وہ ہے جس پر زیادہ پیسا خرچ کیا جائے اور اچھی اور کامیاب فلم وہ ہے جو زیادہ منافع کمائے۔پیش خدمت ہے ٹام آلٹر سے کی گئی یہ خاص گفتگو۔
زمرد مغل۔ٹام صاحب آپ کی پہلی فلم ۱۹۷۴ میں ’’چرس‘‘کے نام سے ریلیز ہوئی اور دوسری فلم شطرنج کے کھلاڑی ریلیز ہوئی۔
ٹام آلٹر۔میری پہلی فلم ’چرس‘شروع تو ۱۹۷۴ میں ہوئی تھی لیکن یہ فلم ریلیز ۱۹۷۶ میں ہوئی ،شطرنج کے کھلاڑی میری دسویں فلم تھی لیکن ریلیز چرس کے بعد ہوئی اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ جو میری دوسری فلم ریلیز ہوئی وہ ’شطرنج‘کے کھلاڑی تھی۔
زمرد مغل۔چرس ،شطرنج کے کھلاڑی اور اس کے بعد فلموں کا ایک طویل سلسلہ ہے ایک کے بعد ایک فلم ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے پھر آپ طویل عرصے کے لیے فلموں سے غائب ہوجاتے ہیں اور اب تو آپ فلم کے پردے پر بہت کم نظر آتے ہیں اس کیا وجہ ہے کیا آپ کو لگتا ہے کہ جس طرح کی فلموں میں آپ نے کام کیا ہے اس طرح کی فلموں کو اب ناظرین ملنا مشکل ہے اور جس طرح کی فلمیں بن رہی ہیں اس میں آپ کردار نبھانا پسند نہیں کریں گے۔
ٹام آلٹر۔دیکھئے میں نے کوئی سنیاس تو لیا نہیں ہے فلموں سے آج بھی میں فلمیں کررہا ہوں ایک بہت اچھی فلم آج ہی میں شوٹ کر کے آیا ہوں لکھنو میں،تو میں نے سنیاس نہیں لیا میں منوج کمار صاحب جنہوں نے کرانتی فلم بنائی تھی جن کو میں بڑا بھائی بھی مانتا ہوں گرو بھی مانتا ہوں انہوں نے ایک بار ایک بہت اچھی بات کہی تھی کہ ٹام جو خواب یا سپنا تمہیں ممبئی کھینچ لایا ہے اس سپنے کو کبھی مت بھولناکیونکہ وہ سپنا تمہیں ہمیشہ صیح راستا دکھائے گا تو میں ممبئی آیا تھا فلموں میں کام کرنے کے لیے ہیرو بننے کے لیے اور آج بھی میرا وہی سپنا ہے ،لیکن تھیٹر بھی ہم لوگوں نے ۸۰ کے قریب کھیلنا شروع کیا ہم تین آدمی تھے ،بنجامن گیلانی،نصیرالدین شاہ اور میں ایک ٹولی قائم کی تھی جس کا نام ہے ’موٹلی‘ ہم لوگ ۷۹،۸۰ سے لے کر اب تک میں تھیٹر کررہا ہوں اور پچھلے دس ،گیارہ سال سے سعید عالم کے گروپ کے ساتھ جڑا ہوں اور میں اپنے آپ کا بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں جو مجھے سعید عالم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ان کے ساتھ میں نے دس یا گیارہ الگ الگ ڈراموں میں کام کیا ہے ۔آپ نے فلموں کے حوالے سے سوال کیا تو تھا میں یہ کہنا چاہو ں گا کہ میں اتناخوش نصیب ہوں کہ ہندی سنیما یا کمرشل سنیما چار جو کااہم ستون ہیں ان چاروں کے ساتھ میں نے کام کیا ہے سب سے پہلے وی شانتارام جی کے ساتھ میں نے کام کیا ہے اس کے بعد راج کپور جی کے ساتھ مجھے کام کرنے کاموقع ملاپھر منوج کمار کے ساتھ کام کیا اور آخر میں ،میں نے سبھاش گھئی کے ساتھ میں نے کام کیا ۔اگر آپ ہندی سنیما کی تاریخ دیکھیں گے تو جو سلسلہ شروع ہواکہ ہندی سنیما میں کمرشل فلمیں بھی بنا لیجئے لیکن ایسی فلمیں جن میں کوئی بات ہو کوئی میسج بھی ہو تو وی شانتا رام،راج کپور،منوج کمار اور سبھاش گھئی ان چاروں کے ساتھ میں نے کام کیا اور میرے خیال سے کم ہی ایسے کلاکار ہوں گے جنھیں ان چاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہو ۔
زمرد مغل۔ستیا جیت رے کے ساتھ بھی آپ نے کام کیا۔
ٹام آلٹر۔جی ،وہ فلم بنی بھی تو اردو میں بنی اور ،رے صاحب تو اردو کے الف ،بے تک سے واقف نہیں تھے لیکن انہوں نے جاوید صدیقی صاحب اور شمع زیدی صاحبہ کو اپنے ساتھ رکھا ۔بہت عمدہ فلم بنی تھی اور میں ہمیشہ لوگوں سے کہتا ہوں کہ جو آدمی اردونہیں جانتا لیکن اس شخص کو اردو زبان سے محبت تھی تو ان کا کہنا تھا کہ ہم فلم بنائیں گے تو اردو میں بنائیں گے۔اس میں واجد علی شاہ کے جو اشعار ہیں جو میرا کردار ہے اس فلم میں ،میں آپ کو سناتا ہوں
صدمہ نہ پہنچے کوئی میرے جسم زار پر
آہستہ پھول ڈالنا میرے مزار پر
ہر چند کہ خاک میں تھا مگر تا فلک گیا
دوکھا ہے آسمان کامیرے غبار پر
یہ جو اس کا آخری مصرعہ ہے اس پر بحث ہوئی جاوید صدیقی اور شمع زیدی صاحبہ کے بیچ کہ کا میرے غبار پر ہونا چایئے یا میرے غبار کو ہونا چایئے تو اس پر دودن تک بحث رہی ستیہ جیت رے نے کہاکہ پہلے تم دونوں اس کا کوئی حل نکلالو پھر بات آگے بڑھے گی۔اتنی باریکیوں کا خیال رکھا ستیہ جیت رے نے جب یہ فلم بنائی ۔میں نے تین ساڑھے تین سو فلموں میں کام کیا مگر جتنی باریکیوں میں ستیہ جیت رے جاتے تھے میں نے اپنی زندگی میں ایسے لوگ کم دیکھے ہیں ۔ہر چیز میں ان کا دخل رہتا تھا لائٹ ،کاسٹیوم کیمرہ خود چلاتے تھے ۔ہم لوگ جب شوٹنگ پر آتے تو ہر آدمی پوری تیاری کے ساتھ آتا تھا تو شوٹنگ تو بہت آسان ہوجاتی تھی۔کمال کا دور تھا وہ اسی وقت جنون فلم بھی بن رہی تھی شام بینیگل کی میں نے اس میں بھی کام کیا تو ایک دن میں ستیہ جیت رے جی کے ساتھ کام کررہا ہوں اور دوسرے دن شام بینیگل کے ساتھ کام کر رہا ہوں اور اسی زمانے میں ایک اور فلم بن رہی تھی چمیلی میم صاحب جس میں ،میں ہیرو تھا اس کی بھی شوٹنگ چل رہی تھی ۔وہ کیا دن تھے کیا دور تھا کیا زمانہ تھا اسے میں بھول نہیں سکتا ۔
زمرد مغل۔فلموں سے پہلے آپ اسکول ٹیچر بھی رہے اور کرکٹ کوچ بھی۔
ٹام آلٹر ۔میں کرکٹ کوچ تو رہا لیکن آفیشلی میں کرکٹ کوچ کبھی بھی نہیں رہا مجھے کرکٹ کا شوق تھا تو میں سکھانے کی کوشش کرتا رہا دراصل ایک اسکول تھا سین ٹامس اسکول ہریانہ میں جس میں ٹیچر رہا اور کلاس ۴ کے جتنے بھی ٹاپکس تھے میں پڑھاتا رہا اور ساتھ میں ضرور میں گیم ٹیچر بھی تھا جہاں میں کرکٹ بھی سکھاتا تھا تو یہ میری زندگی کی پہلی نوکری تھی جہاں میں نے ایک استاد کے فرائض انجام دیئے۔
زمرد مغل۔تو ایک اسکول کا استاد اور پھر فلمی دنیا یہ سفر کس طرح شروع ہوا
ٹام آلٹر ۔ایکٹنگ میں تو اسکول کے زمانے سے ہی دلچسپی تھی ہمارے اسکوم میں جو ٹیچر تھے مسٹر اینڈ مسز براؤن جو پادری بھی تھے انہیں تھیٹر میں بہت دلچسپی تھی دو سال تک میں ان کے ساتھ تھیٹر کیا خدا ان کی روح کو شانتی دے اس کے بعد میں کالج کے لیے امریکہ گیا تو وہاں بھی میں نے تھیٹر کیا ۔تھیٹر میں دلچسپی تو تھی۔
زمر د مغل۔ہم نے تو سنا ہے کہ آپ نے فلموں کا رخ راجیش کھنہ کی وجہ سے کیا۔
ٹام آلٹر۔میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ ایکٹنگ کو ہی میں اپنا کیرئیر بناؤں گا ،جگادری میں ہی میرے ایک عزیز دوست ہیں ڈیوڈ یمنا نگر میں فلم لگی تھی آرادھنا یہ بات ہوگی سن ۷۰ کی ہم دونوں سائیکل پر بیٹھیں کوئی دس میل کا سفر تھا کھیتوں کے بیچ و بیچ سے ہم نکل رہے تھے تو میں نے پوچھا ڈیوڈ سے کہ ڈیوڈ یہ بتا اس فلم میں ہیرو کون ہے اس نے کہا کہ راجیش کھنہ کر کے کوئی نیا ہیرو ہے تو میں نے کہا کہ چلو دیکھتے ہیں ۔میں نے جب جمنا ٹاکیز میں یہ فلم دیکھی تو میں ہکا بکا رہ گیا اور ،میں نے سوچا یہ ہے زندگی کا اصل لطف اس طرح کی فلم دیکھنا اور جس طرح یہ دونوں رومانس کر رہے ہیں اور گانے گا رہے ہیں اور کتنے اچھے سے گا رہے ہیں اس زندگی سے میں بھی جڑنا چاہتا ہوں ۔پھر میں نے اور دوسال تک کام کیا پھر میں امریکہ گیا پھر ہندوستان واپس آیا ۷۲ میں ،میں نے فلم اور ایکٹنگ انسٹی ٹیوٹ پونا میں داخلہ لیااس وقت وہاں ایڈمیشن ملنا بے حد مشکل تھا لیکن مجھے ملا ۔دوسال تک میں نے وہاں کوچنگ لی پھر استاد شری روشن تنیجا صاحب ان سے میں نے اتنا کچھ سیکھا سن ۷۴ میں کچھ حد تک تیار ہوکر ممبئی آیا تھا پچھلے چالیس سال سے میں ممبئی میں ہوں ایک جدوجہد چل رہی ہے بہت مزے دار لائن ہے اور مزے دار زندگی ہے ۔
زمرد مغل ۔آپ کے والد کی پیدائش سیالکوٹ پاکستان کی ہے۔
ٹام آلٹر۔ان کی پیدائش سیالکوٹ پنجاب کی ہے اس وقت پاکستان بنا ہی نہیں تھا میرے والد کی پیدائش ۱۹۱۹ میں ہوئی اس وقت پاکستا ن کو وجود نہیں تھا پاکستانی بھی جب یہ کہتے ہیں تو میں ان سے بھی یہی کہتا ہوں ۔پاکستانی لوگ ان کو اپنانا چاہتے ہیں لیکن میں ان سے کہتا ہوں ٹھیک ہے اپنائیں لیکن ان کی پیدائش پاکستان میں نہیں ہوئی تھی۔
زمرد مغل ۔بہت سے لوگ آپ کو دیکھتے ہوں گے انہیں لگتا ہوگا کہ آپ انگریز ہیں اور آپ سے انگریزی میں ہی بات کی جائے ،کچھ اپنے خاندان کے باے میں بتائیں کہ کیسے ہندوستان آئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے ۔
ٹام آلٹر۔میرا تعلق انگلینڈ سے بالکل بھی نہیں ہے میرے دادا جی اور دادی امریکہ سے آئے تھے ۱۹۱۶ میں پہلی جنگ عظیم چل رہی تھی مشینری کی طرف سے یہ آئے سب سے پہلے پنجاب سیالکوٹ میں رہے ۔لاہور میں رہے زیادہ تر سیالکوٹ اور پشاور میں ہی رہے ۔پھر مسوری میں ہی میرے والد صاحب اور ان کے تین بھائی اور تھے سب نے مسوری میں ہی تعلیم پائی ۔میرے دادا جی وہاں کے پرنسپل بنے پھر میرے چاچا جی وہاں کے پرنسپل بنے تو مسوری سے بہت ہی دلچسپ اور گہرا تعلق رہا ہے۔اور میری پیدائش بھی مسوری میں ہوئی لیکن ایک بات جو میںآپ کو بتا نا چاہتا ہوں ۔میری والدہ نے اپنی وفات سے پہلے مجھے ایک بہت ہی اچھی ایک بات بتائی جس کا علم مجھے اس سے پہلے نہیں تھاکہ میرے ماں نے جہاں مجھے کنسیو کیا وہ جگہ ہے مری پاکستان اور پیدائش مسوری ہندوستان۔دونوں پہاڈی علاقے ہیں دونوں کے نام میم سے شروع ہوتے ہیں۔ایک آدمی کو اور کیا چایئے زندگی میں میں بہت خوش قسمت ہوں ۔
زمرد مغل۔ٹام صاحب آپ نے ہندی،انگریزی،تیلگو پنجابی،ملیالم اور بنگلہ فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ایک ایسے اداکار کے لیے جس کی مادری زبان انگریزی رہی ہو کتنا مشکل تھا ان زبانوں کی فلموں میں کام کرنا ۔
ٹام آلٹر۔میں نے ملیالم فلم میں کام کیا تیلگو اور بنگلہ میں کام کیا لیکن یہ جو کنڑ میں میں نے کام کیا مشکل تو آئی لیکن میں نے ان فلموں میں جو کردار نبھائے وہ تیلگو یا کنڑ بولنے والے کردار نہیں تھے ان کرداروں کے لیے بھی یہ زبان ان کی مادری زبان نہیں تھی ۔میں نے بنگلہ میں دو فلمیں کی ایک میں ایسا کردار تھا جو بنگا لی کردار تھا کہیں کہیں بنگالی بولنے میں دشورای پیش آئی ،جہاں تک انگریزی اور اردو زبان کا تعلق ہے تو ہم انگریزی کو اپنی پدری زبان مانتے ہیں ہماری مادری زبان اردو ہی ہے ۔میرے والدین نہ صرف اردو بولتے تھے بلکہ لکھتے بھی تھے بائبل پڑھتے تھے اردو میں،میں اس بات کو بالکل بھی ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے مجھے انجیل کی بے شمار آیتیں اردو میں آج بھی مجھے یاد ہیں کہ ہماری مذہبی تعلیم بھی اردو میں ہی ہوئی ہے ۔اردو میری مادری زبان ہے ۔