(ارشد محمود ناشاد)
زبان انسان کا امتیازی وصف ہے۔اس وصف کے ذریعے وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوتا ہے اور پھر خیال ،احساس اور جذبے کی تشکیل اور مؤثر ترسیل کے قرینے اس کی دسترس میں آجاتے ہیں۔ یوں فرد کی محدود دُنیا اجتماعیت کے بڑے دائرے میں شامل ہو جاتی ہے۔سماج کی تشکیل اور تعمیر زبان کی منت گزار ہے۔ کوئی بھی سماج یا سماجی ادارہ زبان کے فیضان کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا۔ تہذیب اور تمدن کے قالب میں بھی روح کی حیثیت زبان کو ہی حاصل ہے؛کیوں کہ زبان وسیلۂ اظہار بھی ہے اور خیال وفکر کی کارگہ بھی۔انسانوں کے مختلف النوع اور ہمہ رنگ تجربات،احساسات اور خیالات زبان کے وسیلے سے عام ہو کر سماج، تہذیب اور تمدن کی ثروت میں اضافہ کرتے ہیں۔ زبان کی حیثیت ایک دریائے سبک خرام کی سی ہے۔ جس طرح مختلف ندی نالوں کا پانی دریا میں شامل ہو کر اس کی روانی کو برقرار رکھتا ہے اسی طرح زبان کے ذخیرۂ لفظیات اور اظہار وبیان کے قرینوں میں مختلف زمانوں اور ذہنوں کا رنگ رس شامل ہو کر اس کے دائرۂ ابلاغ کو وسعت آشنا کرتا ہے۔زبان عہد بہ عہد کے تغیرات سے دوچار ہوتی ہےْ اس کے پرانے ،ازکار رفتہ اور فرسودہ عناصرمتروک قرار پاتے ہیں اور نئے،تازہ اور توانا عناصر اس کے وجود کا حصّہ بن کر اس کی اظہاری لیاقت کو دو چند کر دیتے ہیں۔
زندہ زبانیں ایک دوسرے سے اخذ واستفادہ کر کے ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث بنتی ہیں۔ زبانوں کے اس اشتراکِ عمل سے لفظ ومعنی کے نئے تناظر،تفہیم وتجزیہ کے تازہ پیکر اور اظہار وبیان کے جدید اسالیب ہاتھ آتے ہیں۔ جامد اور محدود زبانیں زیادہ دیر سماج کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتیں۔ وہ لوگوں کے درمیان رسمی مکالمے کا فریضہ تو کسی حد تک پورا کرتی رہتی ہیں مگر انسانوں کے جذبوں، خیالوں، خوابوں اور تمناؤں کو شعر وادب کے لباس میں ڈھالنے اور انھیں نقشِ بقا بنانے سے قاصر وعاجز رہتی ہیں۔ جمود اور محدودیت کا دیمک انھیں اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کرتا رہتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ سماج کے منظر نامے سے دُور ہٹتی جاتی ہیں۔
اُردو اپنے صوتیاتی ڈھانچے اور ذخیرۂ لفظیات کے اعتبار سے بین الاقوامی مزاج کی حامل ہے۔ اس کی تعمیر وتشکیل میں مختلف زبانوں اور بولیوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔عربی، فارسی، ترکی، سنسکرت ،ہندی اور دوسری بولیوں اور پراکرتوں کے اشتراکِ عمل نے اسے بہت جلد ایک توانا اور مستحکم زبان کی حیثیت عطا کر دی،بعد کے سفر میں انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں سے اخذ و استفادے نے اس کے لسانی اور ادبی سرمائے کو مزید کشادگی بخشی ہے۔اُردو اگرچہ دوسری زبانوں کے اختلاط اور اشتراک سے متشکل ہوئی ہے تاہم اس کے باوصف وہ کسی ایک زبان کی مقلد یا تابعِ مہمل نہیں۔ دوسری زبانوں کے عمل دخل کے باوجود اس کا اپنا ایک منفرد لب و لہجہ اور مزاج ہے۔دوسری زبانوں سے اس نے بے پناہ فائدے حاصل کیے ہیں؛بہ قول ڈاکٹر فرمان فتح پوری :
’’ دیگر زبانوں کے اس اختلاط اور دخیل الفاظ کے اس طریقِ کار سے اُردو گھاٹے میں نہیں رہی بلکہ اس میں ایک ایسی وسعت، قوت اور روانی پیدا ہو گئی ہے کہ ادیب وشاعر کو ہر قسم کے خیالات کو نئے نئے ڈھنگ سے ادا کرنے اور صحیح وموزوں لفظ کے انتخاب میں جو سہولت ہے وہ شاید ہندوستان کی کسی دوسری زبان میں نہ ہو۔ مخلوط ہونے سے ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ نئے الفاظ بنانے اور ترکیب دینے کے لیے ایک وسیع میدان ہاتھ آجاتا ہے۔ایک ایسی زبان کے لیے جو علمی وادبی ہونے کی آرزو رکھتی ہے، یہ بہت بڑی چیز ہے۔‘‘(۱ )
اُردو زبان کے ماضی کی تفہیم اور اس کے تشکیلی اور ارتقائی مراحل کی عہد بہ عہد داستان سے کامل آشنائی اُس وقت تک ممکن نہیں ، جب تک اُن زبانوں اور بولیوں سے مکمل آگاہی اور واقفیت نہ ہو ،جن کا رنگ رس اس کے خمیر میں گندھا ہوا ہے۔ اُردو کے اولین لسانی اور ادبی منظر نامے سے لے کر اس کے عہد بہ عہد ارتقائی مراحل تک جن زبانوں کا عمل دخل زیادہ نمایاں دکھائی دیتا ہے ،اُن میں عربی ، فارسی اور ہندی(بہ شمول ہندوستانی بولیاں اور پراکرتیں ) شامل ہیں۔تُرکی زبان کے اثرات بھی دکھائی دیتے ہیں مگر اول الذکر زبانوں کی نسبت کم کم۔عربی مسلمانوں کی مذہبی زبان کی حیثیت رکھتی ہے اس لحاظ سے اس نے براہِ راست بھی اُردو پراپنے اثرات مرتب کیے اور فارسی کے وسیلے سے بھی۔عربی زبان کے مفردات و مرکبات اپنی اصل کے خلاف ،جن مفاہیم میں فارسی میں رواج پا گئے تھے،اُردو میں بھی اسی طرح استعمال ہونے لگے۔عربی کے اُردو پر اثرات مفردات ومرکبات کی حد تک ہیں؛ قواعد پر اس کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں،یہی حال تُرکی کا بھی ہے۔ البتہ فارسی اور ہندی زبانوں نے محض ذخیرۂ لفظیات کو متأثر نہیں کیا بلکہ اس کے قواعد پر بھی اثر انداز ہوئیں۔اس لحاظ سے اُردو پر عربی اورترکی کی نسبت فارسی اور ہندی کے اثرات زیادہ ہیں۔
ہندوستان میں انگریزوں کے غلبے سے پیش تر اسلامی مدارس ومکاتب میں عربی اور فارسی کی تعلیم عام تھی۔فارسی ہندوستان میں آٹھ سو سال تک سرکاری اور درباری زبان کے منصب پر متمکن رہی۔مسلمانوں کے علاوہ ہندوستان کی دوسری اقوام میں بھی فارسی اور عربی کی تحصیل کا عام رجحان پیداہوا۔ اسی طرح سنسکرت، ہندی اور دوسری ہندوستانی بولیوں اور پراکرتوں کے سیکھنے اور فروغ دینے میں مسلمانوں نے دیگر ہندوستانیوں کی طرح جوش وخروش کے ساتھ حصّہ لیا۔اس زمانے میں ان زبانوں پر قدرت ودسترس علم وفضل کا نشان سمجھی جاتی تھی۔ گھروں کا ماحول بھی السنۂ شرقیہ کی تحصیل میں معاون تھا اور سماج بھی۔ ’’پڑھو فارسی بیچو تیل‘‘ جیسی کہاوتیں اُس وقت تک رواج پذیر نہ ہوئی تھیں۔ بڑے بڑے اُردو شعرا بھی اپنے آپ کو منوانے کی خاطر فارسی میں شعر کہتے تھے۔ اس دور کے مکاتب ومدارس میں تدریسِ زبان کے جدید طریقے اور انداز تو نہیں تھے مگر ان کا اپنا طریقۂ تدریس تھا،جو کارگر تھا۔ان مکاتب ومدارس کے فارغ التحصیل عربی، فارسی اور دوسری زبانوں میں اظہار وبیان کی لیاقت رکھتے تھے۔زبان سکھانے کا پہلا مرحلہ اس زبان کی لفظیات سے طلبہ کو آشنا کرانا تھا،اس مقصد کے لیے بیسیوں منظوم نصاب لکھے گئے۔خالق باری،ایزد باری، اللہ باری، نصاب الصبیان اور واحد باری جیسے ناموں کے مختصر منظوم لغات عربی فارسی،ہندی ، ترکی اور دوسری مقامی بولیوں اور زبانوں کے الفاظ پر مشتمل ہوتے تھے جن کا یاد کرنا آسان تھا۔دوسرا مرحلہ اس زبان کے قواعد کی تدریس پر مشتمل تھا۔ عربی زبان کے قواعد کے لیے صرف اور نحو، معانی اور بیان کی مختصر کتابیں پڑھائی جاتی تھیں ۔ فارسی زبان کی مؤثر تحصیل کے لیے آمد نامے، مصدر نامے اور قواعد کی مختصر کتابیں لکھی گئیں۔ ان کتابوں کو عام فہم اور آسان اسلوب میں تحریر کیا گیا تاکہ ناواقفانِ زبان کو ان کے سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔ تیسرا مرحلہ ادب کی تدریس پر مشتمل تھا۔ ان زبانوں کا ادبیاتِ عالیہ نصاب کا حصّہ تھا،سو زبان کے اسرارو رموز سے آشنا طلبہ ادبیات کے نمونوں سے لذت گیر ہوتے تھے۔
انگریزی عہد میں بھی السنۂ شرقیہ کو سکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں پڑھانے کا اہتمام کیا گیا۔ ان زبانوں کو اختیاری مضامین کی حیثیت دی گئی اور طلبہ عربی، فارسی، ہندی، بنگالی، پنجابی یا دوسری مقامی زبانوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر سکتے تھے۔انگریزی عہد میں جدید انداز کی گرامریں اور ریڈریں لکھی گئیں جن سے ان زبانوں کو سیکھنے اور جاننے میں آسانی پیدا ہوئی۔جامعات میں ایم اے کی سطح پر اُردو کی تدریس کے بنیاد گزار اس بات سے بے خبر نہ تھے کہ اُردو میں اعلیٰ سطح کی ڈگری حاصل کرنے والوں کے لیے عربی ،فارسی اور ہندی زبانوں سے کامل آشنائی ضروری ہے اوران سے بے خبری اُردو ادب کے ایک بڑے حصے کی تفہیم میں رکاوٹ ہے۔ اس غرض سے السنۂ شرقیہ کے ایسے نصابات مرتب کیے گئے جن کی خواندگی کے بعدان زبانوں کے ادبیاتِ عالیہ سے واقفیت کے ساتھ ساتھ اُردو کے ساتھ ان زبانوں کے تعلقات کی وضاحت ہو جاتی تھی۔زمانے کی تبدیلی اور تیز روی نے مذاقِ عام میں تبدیلی پیدا کر دی اورنئے علوم وفنون نے السنۂ شرقیہ اور قدیم مضامین سے نئی نسلوں کو دُور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔اس کے نتیجے میں عربی، فارسی، ہندی اور دوسری مشرقی زبانوں کی تحصیل ’’کارِ بے کاراں ‘‘ میں شمار کی جانے لگی۔گھروں کے ماحول میں بھی تبدیلی آئی اور عربی ،فارسی اور ہندی کے بجائے انگریزی پر زور دیا جانے لگا۔ السنۂ شرقیہ کے اساتذہ اور اس کے بہی خواہ پرانے اسالیب اور انداز سے چمٹے رہے ،تدریس کے جدید انداز اپنانے کی کہیں کوشش نہیں کی گئی ،اس وجہ سے بھی ان زبانوں سے دوری بڑھتی گئی۔
السنۂ شرقیہ کی تدریس کے حوالے سے جامعات کا موجودہ منظر نامہ کسی طرح بھی خوش کن اور خوش آیندقرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایم اے کی سطح پر السنۂ شرقیہ کو ایک اختیاری مضمون کی حیثیت حاصل ہے اور بس۔ عام طور پر طلبہ کو فارسی زبان وادب، عربی زبان و ادب یا ہندی زبان وادب میں سے کسی ایک مضمون کے چناؤ کا اختیار دیا جاتا ہے۔بعض جامعات میں ہندی زبان وادب کی تدریس کا کُچھ انتظام نہیں ،وہاں طلبہ عربی یا فارسی میں سے کسی ایک مضمون کا انتخاب کر سکتے ہیں؛ اسی طرح ہندوستان کی اکثر جامعات میں ایم اے اُردو کے طلبہ فارسی یا ہندی میں سے کسی ایک زبان کا انتخاب کر سکتے ہیں وہاں عربی زبان وادب کی تدریس کا کوئی انتظام نہیں۔ بعض جامعات میں اختیاری مضامین کے گروپ میں عربی، فارسی یا ہندی الگ الگ مضامین کی صورت میں ہیں یوں ایک طالب علم بہ یک وقت السنۂ شرقیہ میں سے دو مضامین کا انتخاب کر سکتا ہے۔ بعض جامعات میں بیرونی (پرائیویٹ) طلبہ کے لیے عربی وفارسی کا ایک ہی اختیاری پرچہ ہے۔جامعات نے السنۂ شرقیہ کے لیے اپنے اپنے نصاب مرتب کیے ہیں مگر اکثر وبیشتر ایک دوسرے کا چربہ ہیں۔ان نصابات میں عام طور پرمشاہیر شعرا وادبا کے نظم ونثرکے نمونے جمع کر دیے گئے ہیں اور زبان کے قواعد اور امتیازات کو یک سر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ادب کے ذریعے زبان سکھانے کا طریقہ اہلِ مشرق کی ایجاد ہے یا اہلِ مغرب کی، انتہائی فضول، پیچیدہ اور غیر مؤثر ہے۔ زبان کی مبادیات سے آشنائی کے بغیر ایک ادب پارے کی تفہیم کیوں کر ممکن ہے؟ کُچھ جامعات کے نصابات میں زبان کے قواعد اور گرامر کے اصول بھی شامل ہیں،یوں بہ ظاہر وہ ’’زبان وادب‘‘ دونوں کی لاج رکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر قواعد اور گرامر کے اصول ایسے اسلوب اور انداز میں پیش کیے جاتے ہیں کہ طالب علم ان سے کُچھ کسبِ فیض نہیں کر سکتا۔ زبان کے بنیادی قواعدغیر ضروری تفصیلات، مباحث اور مثالوں سے اتنے گراں بار ہوتے ہیں کہ انھیں دیکھتے ہی طلبہ کا شعلۂ شوق بُجھنے لگتا ہے۔نصابات کی خرابی کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ السنۂ شرقیہ کے اساتذہ کی عدم دستیابی ہے۔عام طور پر کسی جامعہ کی اُردو فیکلٹی میں ہندی، فارسی یا عربی کے اساتذہ کا تقرر نہیں کیا جاتا۔ جن اُردو اساتذہ کا ان زبانوں میں سے کسی کے ساتھ تھوڑا بہت تعلق ہوتا ہے،انھیں یہ خدمت انجام دینی پڑتی ہے۔یہ کام وہ جذب وشوق یا اخلاص کے ساتھ پورا نہیں کرتے بلکہ بیگار سمجھ کر کرتے ہیں۔ اس روشِ تدریس سے جو فائدہ ہونا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ بعض جامعات میں عربی، فارسی یا ہندی کی فیکلٹیوں سے اساتذہ کی خدمات مستعار لی جاتی ہیں۔ یہ مانگے کا اجالا بھی ذہن ونگاہ کی تاریکی کو دُور کرنے میں اکثر وبیشتر ناکام رہتا ہے۔ اس طرح کے اضافی اور بے اجر کاموں کو خوش دلی اور دیانت داری کے ساتھ انجام دینا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔السنۂ شرقیہ کے لیے عام طور پر ہفتے میں ایک دو کلاسیں مختص کی جاتی ہیں۔اس سے یہ نقصان ہوتا ہے کہ اگلا سبق پڑھتے پڑھتے پچھلا فراموش ہو جاتا ہے۔یوں سارا سال سیاق اور سباق ایک دوسرے سے الگ الگ رہتے ہیں۔ تدریس کا طریقہ بھی وہی قدیم ،خوش آواز اور بلند آہنگ طلبہ سے سبق پڑھوایا جاتا ہے یا استاد خود سبق کی بلند خوانی کرتا ہے۔ اس خواندگی کے دوران میں مشکل الفاظ وتراکیب اور محاورات وغیرہ کے مفہوم ومعانی بیان کیے جاتے ہیں یا اشعار کی سیدھی سادی تشریح کرا دی جاتی ہے۔ایک ایسی زبان جس سے طلبہ کی معمولی سی وابستگی ہے،اس کے ادبیاتِ عالیہ کو یوں سرسری انداز میں پڑھنے سے کیا حاصل کر سکتے ہیں؟ اہم اسباق کے اُردو تراجم کو زبانی یاد کر کے وہ امتحان کے مرحلۂ سخت سے بآسانی گزر جاتے ہیں :
گر ہمیں مکتب وہمیں مُلا
کارِ طفلاں تمام خواہد شد
السنۂ شرقیہ کی تدریس کو مؤثر بنانے کے لیے جامعات میں بہت کُچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ان تبدیلیوں کے بغیران زبانوں سے نئی نسلوں کا استفادہ ممکن نہیں۔
۱۔ جامعات میں السنۂ شرقیہ کو ایک مستقل اور لازمی مضمون کی حیثیت دی جائے۔ طالب علم کو اختیار دیا جائے کہ وہ کسی ایک مشرقی زبان کا انتخاب کر لے۔
۲۔ السنۂ شرقیہ کے نصابات میں جدید عہد کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں کی جائیں۔نصاب کے زاید المیعاد اور پارینہ اجزا ختم کیے جائیں۔ زبان اور ادب میں تفریق کی جائے۔ زبان سکھانے پر زیادہ توجہ ہونی چاہیے کیوں کہ اگر طالب علم کسی زبان سے آشنا ہو جائے تو اس کے ادبیات سے وہ بقدرِ شوق وضرورت اکتساب کر سکتا ہے۔
۳۔ جامعات کی اُردو فیکلٹی میں کم از کم دو ایسے اساتذہ کا تقرر کیا جائے جو السنۂ شرقیہ میں اعلیٰ ڈگری رکھتے ہوں۔
۴۔ ہر جامعہ میں السنۂ شرقیہ کے لیے لینگویج لیبارٹری قائم کی جائے ؛ تاکہ طالب علم لیبارٹری میں موجود سمعی وبصری آلات کی مدد سے زبان کے رسم الخط،مزاج، الفاظ کی ادائیگی اور زبان کی نزاکتوں سے واقفیت حاصل کر سکے۔
۵۔ ثانوی اور وسطانی درجوں میں السنۂ شرقیہ کی تدریس کے لیے فضا ہموار کی جائے تاکہ طلبہ ان چھوٹے درجوں میں زبان کا وقوف حاصل کر سکیں اور اعلیٰ درجے میں انھیں اکتسابِ فیض میں آسانی ہو۔