قاسم یعقوب
کتاب گھر سے نکل کر کب فٹ پاتھ پرپہنچتی ہے اور انھیں کون اور کیوں خریدتے ہیں؟اور کیا ہر وہ کتاب جو فٹ پاتھ پر پہنچتی ہے گھر سے نکالی گئی ہوتی ہے؟
یہ سوال ہر کتاب بینی کے شوقین کو درپیش ہوتے ہیں۔
میں ایک بُک سٹال کارنر پر کھڑا کچھ ایسی قسم کے سوالوں میں گھرا تھا جو ایک فٹ پاتھ پر سجایا گیا تھا۔ اسی فٹ پاتھ کے دائیں بائیں اور دوسری طرف اس طرح کے درجنوں سٹالز نظر آ رہے تھے۔ لوگ تھے کہ ایسے امڈ آئے تھے کہ جیسے مفت کی کتابیں بِک رہی ہیں۔ سستی کتابیں اور نایاب کتابوں کے وہم میں مبتلا نئے اور پرانے چہروں کی بھرمار تھی۔ اتنی سستی کتابوں پر بھی طولانی بحث معرکہ ہوتا اور بلاخر کتاب بِک جاتی۔
میں بھی اسی طرح کے ایک سٹال پر پرانے نسخوں جن کے دوبارہ ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں، ختم شدہ کتابوں اور ایسی کتابیں جن کے مقامی ایڈیشنز ملنا ناممکن ہوتا ہے ڈھونڈ رہا تھا، لو جی____بہت سی کتابیں ایک دم نظر آ گئیں___
میرا سوال مزید کرید پیدا کر رہا تھا کہ یہ نایاب اور پرانی کتابیں یہاں تک کیسے پہنچ گئیں!!!
یہ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے پہلے سال کی بات ہو گی۔ میرے جی سی فیصل آباد کے استادِ محترم پروفیسر سعید احمد نے کلاس میں لمبی تمہید باندھی کہ فٹ پاتھ پر نایاب کتابیں ملتی ہیں۔ آپ نوجوانوں کو بھی ضرور دیکھنی چاہیے اور اچھی کتابوں کا ذخیرہ اپنے پاس رکھنا چاہیے۔ میں نے کلاس کے بعداس بابت تفصیل جاننا چاہی۔ سعید صاحب نے بتایا کہ صبح صبح جب سٹالز لگائے جا رہے ہوں ، بوریاں کھولی جا رہی ہوں اور اُن کی ترتیب بندی کی جا رہی ہوتب وہاں پہنچنا چاہیے تا کہ جو کتاب بھی نایاب یا اہمیت کی حامل ملے فوراً اٹھا لیں ورنہ ان کتابوں کے رسیا پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر معجونوں کے مجموعوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ مجھے یاد ہے میں پہلی دفعہ سعید صاحب سے بھی پہلے امین پور بازار پہنچ گیا تھا اور بہت سی ایسی کتابیں جن کا نام بھی نہیں سنا تھا اور قدامت سے اندازہ لگا کر خریدنے لگاتھا۔پھر سعید صاحب نے وہاں آ کر مجھے مزید ایسی کتابوں کا بتایا جو میرے علم میں بھی اضافہ تھا۔ یوں میں شہر کے ان فٹ پاتھوں کا مستقل گاہک بن گیاتھا۔
یہ فٹ پاتھ مارکیٹ اب بہت توانا اور ’’ہوشیار‘‘ ہو چکی ہے۔ انھیں پتا چل گیا ہے کہ کون سی کتاب کس فرد کے لیے کتنی اہم ہے۔ یہ مالکان اب اولڈ بک شاپس کا بڑے پیمانے پر کاروبار کرنے لگے ہیں۔فیصل آباد میں امین پور بازار، کراچی میں صدر، لاہور میں پرانی انار کلی اور پنڈی کے صدربازار میں ان فٹ پاتھوں کی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں۔یہاں صرف ادب نہیں بِکتا بلکہ ’’طب، فلسفہ، دست شناسی، ریاضی، طبیعات ، کھانے بنانے کے طریقے ، اور سائنس کی نایاب کتابیں بھی بِکتی ہیں۔ مستقل گاہکوں کے ساتھ منفرد سلوک کیا جاتا ہے۔ انھیں فون کر کے گھر آنے کی دعوت بھی دی جاتی ہے۔ ان کے لیے کتابیں پہلے سے ہی نکال لی جاتی ہیں تا کہ یہ اولڈ بکس والے ان گاہکوں کی ضرورت بنے رہیں۔ فیصل آباد میں ہمارے ایک سینئر پروفیسر غوث علی ہوتے تھے، انھیں کتابیں اور صرف پرانی کتابوں کا اتنا شوق ہوتا تھا کہ دیوانہ وار بھاگے جاتے اور بھاری بھاری شاپر اٹھائے لوٹتے۔ ان کا کمرہ بس کتابوں سے بھرا ہوتا ۔ ان کے سونے اور میز کی جگہ اتنی محدود ہو گئی تھی کہ ذرا سی چوٹ پہ کتابوں کا ملبہ اُن پر آ گرنے کا احتمال لگا رہتا۔ مگر وہ کتاب خریدنا نہیں بند کرتے تھے۔ یہیں امین پور بازار کے فٹ پاتھ میں ایک صاحب ارشد علی بھی آیا کرتے۔ اُن کو کتابوں کے پڑھنے سے زیادہ کتابیں اکٹھی کرنے کا شوق تھا اور وہ مختلف سکالرز کی مدد کیا کرتے۔ میں نے اکثر غوث صاحب اور سعید صاحب سے سنا کہ آج فلاں سکالر نے ارشد صاحب کی لاےئبریری سے خاطر خواہ مدد لی۔ ایک دن میں بھی سعید صاحب کے ساتھ ارشد صاحب کے ہاں چلا گیا جو ملت روڈ پر واقع ایک آبادی میں مقیم تھے، ارشد صاحب نے اپنی لائبریری کے دروازے کھول دئیے اور کتابوں کے حروف کسی سیلابی پانی کی طرح مجھے اپنی طغیانی میں ڈبونے لگے۔ مجھے بے حد اشتیاق پیدا ہوا کہ میرے پاس بھی ایسی لائبریری ہو جو شہر کا نایاب کتب خانہ کہلائے۔
یہ بھی عجیب بات کہ یہ کتب فٹ پاتھوں پر نیچے بے دردی سے پڑی ہوتی ہیں مگر کسی کو بُرا نہیں لگتا اور نہ ان بازاروں میں ان فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر کتابیں خریدنا معیوب لگتا ہے۔ سنا ہے کمیٹی والوں کو مخصوص بھتا ملتا ہے جو اس ’’ناکارہ کاروبار‘‘ کو جاری رکھنے کا لائسنس جاری کرتے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آ گیا کہ مجھے اپنی کتابیں اور رسالے بھی ان فٹ پاتھوں کی زینت بنتے نظر آنے لگے۔ میں حیران تھا کہ یہ یہاں تک کیسے پہنچے؟ میری کُرید اور بڑھنے لگی ____آخر ان فٹ پاتھ سٹالوں کا ذریعہ کیا ہے؟ یہ کہاں سے کتابیں اٹھاتے ہیں اور ایسی ایسی کتابیں جن کو دیکھ کر ہی خریدنے کی اشتہا پیدا ہونے لگے۔ ایک دن میں نے ایک کتاب ’’باقیاتِ میرا جی‘‘ مرتبہ شیما مجید‘‘ امین پور بازار سے خریدی ، اُس پر ایک سرکاری کالج کی سٹمپ لگی ہوئی تھی۔ میں نے سعید صاحب کو دکھائی تو انھوں نے بے ساختہ کہا : ’’اہ ہ ہ ____یہ بُک سٹال والا کم بخت____خرید لایا____‘‘ میں نے کہا کہ کیا ماجرہ ہے تو سعید صاحب بتانے لگے :
’’ ایک کثیر تعداد میں کالج کی لائبریری سے کتابیں چوری ہو گئی تھیں ، یہ سب ’’بُک سٹالز فٹ پاتھیے‘‘ ان کتابوں کو خرید لاتے ہیں۔ مگر سنا تھا کہ ایک شہر کی چوری کتابیں دوسرے شہر میں بکتی ہیں مگر یہ تو یہیں بک رہی ہیں اور یہ شخص تو ایسا نہیں تھا، یہ بھی خرید لایا‘‘___________میں سوچنے لگا کہ لائبریریوں کا مال فٹ پاتھوں پہ جاتا ہے اور پھر گھروں میں منتقل ہو جاتا ہے۔ہم بھی عجیب ہیں لائبریری میں کتاب دیکھنا نہیں چاہتے گھر میں شاید زیادہ مفید ہو جاتی ہے۔
کچھ سال پہلے میں کراچی میں ایک ادبی کانفرنس میں گیا تو میں نے وہاں جاتے ہی مقامی لوگوں سے وہاں کے کتاب بازاروں کا پوچھا جو فٹ پاتھوں کی زینت بنتے ہیں اور میں اتوار والے دن وہاں پہنچ گیا۔ میں نے اپنی سینئر ڈاکٹر نجیبہ عارف صاحبہ سے بھی کہا کہ اگر آپ کو دلچسپی ہو تو میرے ساتھ چلیں انھوں نے کہیں اور جانا تھا جس کی وجہ سے مجھے اکیلے ہی اس دشت کی سیاہی کرنا پڑی۔ مگر جب ہم شام کو کھانے کی میز پہ اکٹھے ہوئے تو انھوں نے نہ صرف یہ پوچھا کہ آپ گئے تھے بلکہ ایک ایک خریدی گئی کتاب کی تفصیل پوچھنا شروع کر دی۔ مگرمیں زیادہ بہتر خریداری نہیں کر سکا تھا۔ شاید کراچی میں یہ کلچر دم توڑ چکا ہے۔
ٍ بہت سا وقت گزر گیا تھا میں نے اب فٹ پاتھوں کے چکر لگانے بھی کم کر دئیے اور صلاح الدین درویش کے بقول کہ ’’ان فٹ پاتھوں پہ اب کچھ نہیں ملتا۔ اب اپنی ہی کوئی ختم شدہ کتاب مل جائے تو اٹھا لو اور کچھ نہیں ملنے والا۔‘‘
میں گذشتہ دنوں فیصل آباد گیا تو سعید صاحب کی ضخیم لائبریری کو دیکھا اور ساتھ ہی اس فٹ پاتھ کلچر پر نئی معلومات چاہی۔میں نے یہی سوال اُن کے سامنے رکھ دیا کہ کیا اب ان فٹ پاتھ سٹالوں پہ کام کا مال نہیں آتا۔؟ انھوں نے جواب دیا کہ اب یہ سٹال والے چالاک ہو گئے ہیں بہت مہنگے داموں کتاب بیچتے ہیں اور انھوں نے شورومز بنا لیے ہیں یا جنھوں نے شورومز بنائے ہوئے ہیں ان کو کتابیں بیچ دیتے ہیں باقی سب کچرا فٹ پاتھ پہ آ جاتا ہے۔ میں نے مایوسی کا اظہار کیا اور کچھ توقف کے بعد پوچھا:
’’سر______وہ ارشد صاحب اور غوث صاحب ٹھیک ہیں؟ کیا اب بھی وہ کتابیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں؟‘‘ سعید صاحب نے غوث صاحب کے نام پر مسکرا دیا اور ان کی ایک بڑے آفیسر بننے کی خبر سنائی ،البتہ ارشد صاحب کا بتایا کہ وہ تو وفات پا گئے ہیں۔ میں نے افسوس کا اظہار کرتے کہا کہ ’’سر____ان کی اتنی شاندار لائبریری کا کیا بنا‘‘ سعید صاحب نے کہا’’ وہ تو ان کے بچوں نے آگے بیچ دی‘‘
میں نے بے ساختہ کہا: ’’کس کو ‘‘
انھوں نے کہا: ’’ ردی والوں کو___کوئی دو لاکھ روپے بنے___بیٹے خوش ہو گئے کہ اتنے پیسے ان بے کار کتابوں کے‘‘
میں سعید صاحب کی باتیں سن کے یک دم سکتے میں آ گیا اور کچھ دیر گم ہو گیا ۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ میری کتابیں تھیں جو دریا برد ہو گئیں ہیں مگر مجھے خوشی بھی تھی کہ مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا تھا ۔
’’کتاب گھر سے نکل کر کب فٹ پاتھ پرپہنچتی ہے اور انھیں کون اور کیوں خریدتے ہیں؟ ‘‘____________