۲۰۱۵ ء تک دنیا میں غربت کا نصف حد تک خاتمہ
از، یونس خاں
2006ء کے نوبیل انعام یافتہ ماہر معیشت محمد یونس کی خدمات اور تعارف
ٹیگور نے کہا تھا کہ میں تمہارا شکر گزار ہوں کہ میں اقتدار کے پہیوں میں سے نہیں ہوں بلکہ میں اس زندہ مخلوق میں سے ہوں جسے انہوں نے کچل دیا ہے۔ بنگلادیش کے محمد یونس کہتے ہیں کہ غربت ہمارے اس معاشی اور سماجی نظام نے پیدا کی ہے جس کا خاکہ ہم نے دنیا کے لئے بنایا ہے، یہ وہ ادارے ہیں جنہیں ہم نے تعمیر کیا ہے اور اُن پر ہم بہت زیادہ فخر بھی کرتے ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جنہوں نے غربت پیدا کی ہے۔
ان کا کہنا ھے کہ غریب خود ، غربت کے بغیر ،اپنی دنیا تخلیق کر سکتا ہیں۔ ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ ہم انھیں ان زنجیروں سے آزاد کر دیں جو ہم نے انھیں پہنائی ہوئی ہیں۔
۱۹۴۷ء میں اُنکے والد حَزی الدولہ مِیا سوداگر، چٹاگانگ منتقل ہو گئے تھے جہاں اُنکا سونے کے زیورات کا کاروبار تھا۔ سونار ہونے کے ناطے اس قیمتی دھات کی قدرو قیمت سے ان سے زیادہ کون واقف ہو گا۔ محمد یونس جانتا تھا کہ یہ دھات انسان کی جبلی صلاحیتوں سے زیادہ قیمتی نہیں ہے ۔
پروفیسر محمد یونس کو ’مائیکرو کریڈٹ‘ کے تصور کا خالق اور ترقی دینے والا مانا جاتا ہے ۔ مائیکرو کریڈٹ: بیروزگاروں، غریب کاروباری لوگوں اور غربت میں رہنے والے سادہ لوح دیہاتی لوگوں کو ،چھوٹے قرضے دینے کا ایک ایسا نظام ہے جس میں ایسے لوگوں کو قرضے دئیے جاتے ہیں جن کے پاس مہارت تو موجود ہو لیکن کاروبار شروع کرنے کے لئے سرمایہ موجود نہ ہو۔
۱۹۷۴ء میں بنگلا دیش میں آنے والے شدید قحط کے دوران محمد یونس نے غریب لوگوں کے مسائل کا مشاہدہ خود اپنی آنکھوں سے کیا اور اسی وقت سے غربت کے خاتمے کے لئے کی جانے والی عملی کوششوں میں بھرپورحصہ لینا شروع کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ کتابوں میں لکھی اکنامکس کی تھیوریاں غربت کے خاتمے کے لئے عملی طور پر کارآمد نہیں ہیں۔ مختلف گاؤوں میں غریب عورتوں سے ملاقاتوں کے بعد محمد یونس اس نتیجہ پر پہنچے کہ بہت معمولی سی قرض کی رقم ایک غریب شخص کی زندگی میں نمایاں تبدیلی لا سکتی ہے ۔ انہوں نے پہلا قرض جو ۲۷ ڈالر پر مشتمل تھا ، اپنی جیب سے ،چٹاگانگ یونیورسٹی کے قریب موجود ایک گاؤں ’جوبرا ‘ کی بیالیس خواتین کو دیا جو بانس کی چھال سے فرنیچر تیار کرتی تھیں۔
انھیں بانس کی چھال خریدنے کے لئے بھاری سود پر قرض لینا پڑتا۔ پھر ان قرض دار خواتین کو انھی سود خور قرض خواہوں کو قرض ادا کرنے کے لئے یہ فرنیچر انتہائی کم داموں سود کی قسط کے بدلے میں دینا پڑتا۔ سارے دن کی محنت کے بعد حاصل ہونے والے پانچ بنگلا دیشی ٹکوں کے منافع سے یہ خواتین اپنے خاندان کی کفالت کرنے کی کسی بھی صورت قابل نہ تھیں ۔
۲۸ جون ۱۹۴۰ء کو چٹاگانگ کے ایک گاؤ ں ’بتھوا‘ میں پیدا ہونے والے محمد یونس نے بالاخر ۱۹۷۶ ء میں غریب لوگوں کو چھوٹے قرضے دینے کے لئے گرامین بنک قائم کر دیا تاکہ وہ لوگوں کو غربت کے اندھے کنویں سے باہر نکال سکیں۔ اس بنک نے غریبوں کو قرض دینے کا طریقہ کار روایتی بنکوں کے طریقہ کار سے بالکل الٹ بنایا۔ روایتی بنک اس اصول پر کام کرتے ہیں کہ جتنا زیادہ مال تمہارے پاس ہے تم اتنا ہی زیادہ بنک سے حاصل کر سکتے ہو ۔ دوسرے الفاظ میں اگر آپ کے پاس سرمایہ تھوڑا ہے یا بالکل نہیں ہے تو تمہیں بنک سے کچھ نہیں ملے گا۔ اسکا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کی تقریبا آدھی آبادی آج بھی روایتی بنکوں سے معاشی سہولتیں حاصل کرنے سے محروم ہے ۔
اس بنک کی میتھوڈالوجی کی بنیاد اس چیز پر نہیں ہے کہ کسی شخص کو قرضہ لینے کے لئے اہل سمجھنے کے لئے یہ جانچا جائے کہ اُس کے پاس کتنی مال و دولت ہے بلکہ اسکی بنیاد اُس شخص کی صلاحیتوں پر ہے ۔ یہ بنک یقین رکھتا ہے کہ تمام انسانوں، جس میں سب سے غریب کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے ،کے پاس نا ختم ہونے والی پیداواری جبلی صلاحتیں موجود ہیں جس کی بنیاد پر وہ قرض لینے کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔
یہ بنک اس فلسفے پر کام کرتا ہے کہ اگر ایک برگد کے درخت کا صحت مند بیج کسی گملے میں لگا دیا جائے تو اُگنے والا پودا برگد کا ’منِی ایچر ورژن‘ تو ہو سکتا ہے لیکن ایک تناور درخت کبھی نہیں بن سکتا ۔ اسکی وجہ بیج میں کسی قسم کا نقص ہونا نہیں ہے بلکہ اس بیج کو میسر آنے والا نامناسب ماحول ہے ۔ لوگ اس لئے غریب ہوتے ہیں کہ معاشرہ اُنکے پنپنے کے لئے حقیقی سماجی اور معاشی ماحول انہیں مہیا نہیں کرتا بلکہ انکو پنپنے کے لئے حقیقی زمین کی بجائے ’گملوں ‘ کے حوالے کر دیتا ہے ۔ غربت ختم کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ان غریب لوگوں کو ’ گملے ‘ سے نکال کر معاشرے کی حقیقی زمین میں لگایا جائے ۔
اس حقیقت کی مِتھ کو بے نقاب کرنے کی لئے کہ ’مائیکرو کریڈٹ ‘ انتہائی غریب شخص کو فائدہ پہنچانے کے قابل نہیں ہوتا ۔گرامین بنک نے فقیروں کو قرض دینے کا ایک نیا نظام وضع کیا ۔ اس نظام کے تحت بنک نے فقیروں کو کنزیومر آیٹمز بیچنے کے لئے بلا سود قرض دینے شروع کئے تا کہ وہ خیرات مانگنے کے ساتھ ساتھ اپنی چیزیں بھی بیچ سکیں ۔ انکے لئے قرضہ واپس کرنے کی مدت بے باکی کی حد تک لمبی ہے ۔ مثلاً اگر ایک فقیرسوٹکے کا قرض لے تو وہ صرف دوٹکے فی ہفتہ کے حساب سے قرض واپس کر سکتا ہے ۔ ان فقیر قرض داروں کی زندگی کی انشورنس بھی بغیر کسی فیس کے کی جاتی ہے ۔ بنک فقیروں کو خیرات مانگنے سے نہیں روکتا جبکہ وہ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی اس حوالے سے ضرور کرتا ہے کہ وہ کم قیمت اشیاء بیچ کر پیسے کمائیں ۔ اگر کوئی فقیر گھوم پھر کر خیرات نہیں مانگ سکتا تو وہ اپنے ’اڈے‘ کے سامنے کشکول کے ساتھ کچھ نہ کچھ بیچنے کے لئے رکھ لے مثلاً فروٹ جوسز ،پھل او ر بسکٹ وغیرہ۔ فقیروں کو موبائل فون بھی دئیے جا رہے ہیں تا کہ وہ اسے موبائل پی سی او کے طور پر استعمال کر سکیں ۔
ٹیگور نے کیا خوب کہا تھا کہ اے خوبصورتی ،تم اسے محبت میں تلاش کرو ، نہ کہ آئینے میں جو کہ ہمیشہ جھانسا دیتا ہے اور محمد یونس نے اس خوبصورتی کو غریب لوگوں کی محبت میں تلاش کیا ۔
محمد یونس نے اپنی ابتدائی تعلیم تو اپنے گاؤں ’بتھوا‘ میں حاصل کی تھی جبکہ اپنی باقی تعلیم ، ’راما بازار‘ پرائمری سکول ،چٹاگانگ سے حاصل کی ۔ میٹرک چٹاگانگ کالجیٹ سکول سے کیا۔ میٹرک میں مشرقی پاکستان کے پاس ہونے والے انتالیس ہزار طا لب علموں میں محمد یونس کی سولہویں پوزیشن تھی ۔ ۱۹۵۲ء میں ،محمدیونس نے بوائے سکاؤٹ کی حثیت سے مغربی پاکستان اور انڈیا کا سفر کیا۔ ۱۹۵۵ء میں کینیڈا میں منعقد ہونے والی ورلڈ سکااؤٹ جمبوری میں وہ پاکستانی دستے کے رکن تھے ۔ یونس نے یورپ سے واپسی کا سفر بزریعہ سڑک کیا تھا۔ میٹرک کے بعد ،محمدیونس نے چٹاگانگ کالج میں داخلہ لیا جہاں نوجوان یونس نے کالج کی ثقافتی سر گرمیوں میں بڑہ چڑہ کر حصہ لیا اور اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے بہت سے ایوارڈ حاصل کئے۔۱۹۵۹ء میں بی۔اے اور ۱۹۶۱ء میں اکنامکس میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ بی۔ اے کرنے کے بعد یونس نے بیورو اُف اکنامکس کی لئے ریسرچ کا کام شروع کر دیا تھا۔ ایم۔ اے کرنے کے بعد محمد یونس کی چٹاگانگ کالج میں لیکچرار کی حثیت سے تقرری ہوئی۔ امریکہ سے فُل برائٹؔ سکالرشپ ملنے پر محمد یونس نے وینڈربلٹ ؔ یونیورسٹی سے ۱۹۶۹ء میں پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
۱۹۷۲ء تک محمد یونس مڈل ٹینسی سٹیٹ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر رہے ۔ ۱۹۷۲ء میں وہ بنگلا دیش واپس آئے اورانکی تقرری چٹاگانگ یونیورسٹی میں اکنامکس کے پروفیسر کی حثیت سے ہوئی ۔ ۱۹۷۴ء میں بنگلا دیش بد ترین قحط کا شکار ہو گیا۔
۱۹۷۵ء اور ۱۹۷۶ء میں محمد یونس کا زیادہ تر وقت اپنے طالب علموں کے ساتھ قریبی گاؤں جوبرا ؔ میں دورے کرتے ہوئے گزرہ۔ مسئلے کو دیکھنا تو بڑا آسان تھا لیکن اسکا حل کیا تھا! انہوں نے چاول کی کاشت کے ترقی یافتہ طریقے متعارف کرائے اور کسانوں کی امداد باہمی کا طریقہ وضع کیا کہ خشک موسم میں کس طرح کھیتوں کو سیراب کیا جائے ۔ لیکن بہت جلد انہوں نے یہ جانا کہ کسانوں کی ہدف بنا کر وہ اصل مفلس لوگوں یعنی بے زمین ،قلاش اور غریب دیہاتیوں کی مدد نہیں کر پا رہے ۔
محمد یونس پر سب سے بڑا انکشاف اُس وقت ہوا جب ایک دن وہ ایک عورت جو بانس سے سٹول بناتی تھی سے انٹرویو کر رہے تھے انہوں نے یہ جانا کیونکہ اس کے پاس اپنا کوئی ذاتی سرمایہ نہیں تھا اس لئے اسے پانچ ٹکے یا پندرہ پنس ؔ کے برابر رقم قرض لینا پڑی تا کہ وہ خام بانس خرید سکے ۔ لیکن سارے دن کی محنت کے بعد حاصل ہونے والی آمدنی سے مڈل مین کو اسکا قرض واپس کرنے کے بعد اسے صرف پچاس پیسے یاایک پنسؔ کی بچت ہوئی۔
اُن کی غربت ان کا ذاتی مسئلہ نہیں تھی ،نہ تو وہ ان کی سستی کی وجہ سے تھی اور نہ ہی ان کی زہانت میں کمی کی وجہ سے ۔ لیکن یہ سرمائے کی کمی کی وجہ سے تھی۔ اس طرح بے زمین کو کریڈٹ دینے کا آئیڈیا پیدا ہوا۔
جو شخص کسی ایک شخص سے محبت کر سکتا ہے وہ سب سے محبت کر سکتا ہے۔جو صرف اپنے آپ سے محبت کرتا ہے وہ کسی سے بھی محبت نہیں کرتا۔جوبراؔ کی آبادی تین حصوں میں بٹی ہوئی تھی، مسلمان، ہندو اور بُدھ متی۔ یہاں غریب مفلوک الحال خواتین بنیوں کے رحم و کرم پر تھیں۔ معلومات اکٹھی کی گئیں تو پتا چلا کے بیالیس خواتین کو ۸۵۶ ٹکے یعنی تقریباً ۲۷ ڈالر کی ضرورت تھی۔ محمد یونس ان محنتی اور باصلاحیت خواتین کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ وہ خواتین غریب تھیں کیونکہ معاشی ادارے اُن کی مدد نہیں کر رہے تھے کوئی ایسا روایتی ادارا موجود نہ تھا جو غریب کو کریڈٹ دے کر اُن کی مدد کرتا ہو۔ روایتی اداروں کی غفلت کی وجہ سے مقامی ساہوکار فائدہ اٹھا رہا تھا۔ یہ ایک بہت تیزگاڑی تھی جو غربت کی طرف لے جانے والی یک طرفہ ٹریفک کے بہاؤ میں اضافہ کر رہی تھی۔محمد یونس ناراض تھے، اپنے آپ سے، اپنے معاشیات کے شعبے سے اور اُن ہزاروں زہین پروفیسروں سے جنہوں نے نہ تو اَن غریب لوگوں کی مجبوریوں کو سمجھنے کی کوشش کی اور نہ ہی ان کو حل کرنے کی۔یہ سب تکلیف دہ تھا۔ محمد یونس نے ان بیالیس خواتین کو اپنی جیب سے ستائیس ڈالر کی رقم ادا کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ یہ خواتین ساہوکاروں کے شکنجے سے آزاد ہو سکیں اور اپنے بنائی ہوئی چیزیں اچھی قیمت پر بیچ سکیں۔ جب محمد یونس سے پوچھا گیا کہ اس قرض کی واپسی کب ہو گی تو انہوں نے کہ جب تک وہ اپنی ماحصل بیچنے کے قابل ہو جائیں۔ اس قرض پر نہ تو کوئی سود تھا اور نہ ہی واپسی کی کوئی تاریخ طے ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ میں ساہوکار نہیں ہوں۔
محمد یونس کہتے ہیں ’’ میں ایک بینکر کے طور پر نہیں بلکہ ایک نجات دہندہ کے طور پر سوچ رہا تھا۔۔۔ میرا سَر جب تکیے کو چھوتا ہے تو میں چند سیکنڈ میں سو جاتا ہوں لیکن اُس رات مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ میں بستر پر لیٹا شرمندہ ہو رہا تھا کہ میں اُس معاشرے کا حصہ ہوں جو بیالیس ماہر لوگوں کو صرف ستائیس ڈالر کی رقم نہیں دے سکا تا کہ وہ اپنی زندگی بہتر طور پر گزار سکیں۔ میرے اندر بار بار چوٹ لگ رہی تھی کہ جو کچھ میں نے کیا ہے وہ خوفناک حد تک ناکافی ہے۔ اگر اور دوسرے لوگوں کو قرض کی ضرورت ہو تو اُن کے لئے توبہت مشکل ہو گا کہ وہ شعبہ شماریات کے صدر نشین تک پہنچ پائیں۔ میرا رد عمل عارضی اور جذباتی ہے۔ اب مجھے اسکا ادارہ جاتی حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے کہ جس پر یہ لوگ بھروسہ کر سکیں۔ کیا چاہئے تھا ، صرف ایک ادارہ جو ان لوگوں کو رقم ادھار دے سکے جن کے پاس کچھ نہیں ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں مقامی بنک کے مینجر سے رابطہ کرؤں گا اور اس سے درخواست کروں گا کہ وہ غریب لوگوں کو رقم ادھار دے۔ یہ بہت آسان لگ رہا تھا۔ یہ بہت سیدھا سادا تھا۔ میں سو گیا ۔‘‘
جب محمد یونس نے بینکاروں سے بغیر کولیٹرل کے قرض کی بات کی تو وہ اس پر ہنسے، ان کا اصرار تھا کہ غریب قرض کے اہل نہیں ہوتے۔ محمد یونس نے کہا کہ اگر اَپ نے انہیں کبھی آزمایا ہی نہیں ہے تو اَپ نے یہ کیسے جانا کہ وہ قرض کے اہل نہیں ہوتے؟یہ دراصل بنک ہیں جو غریب کو قرض کا حقدار نہیں سمجھتے ۔
بہت تگ و دَو کے بعد دسمبر ۱۹۷۶ء میں دس ہزارٹکے کا قرض محمد یونس کے لئے منظور کیا گیا یہ قرض ان لوگوں کو دیا جانا تھا جن کی ضمانت محمد یونس نے دینا تھی۔ اب قرض کی ہر درخواست کی منظوری ان کے دستخطوں سے مشروط تھی چاہے وہ بنگلا دیش میں موجود ہوں یا بنگلا دیش سے باہر۔ بنگلا دیش سے باہر ہونے کی صورت میں درخواستیں ان کے دستخطوں کے لئے ان کے پیچھے اسی ملک میں ارسال کر دی جاتیں جہاں کہ وہ موجود ہوتے۔
’’ میرا کام ایک جدوجہد بن گیا تھا میں یہ ثابت کرنا چاہتا تھاکہ وہ لوگ جنہیں معاشی اچھوت سمجھا جاتا ہے دراصل یہی لوگ چھوئے جانے کا قابل ہیں بلکہ گلے لگانے کے بھی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ان لوگوں نے قرض کی تمام رقم ادا کر دی تھی جنہیں کولیٹرل کے بغیر قرض دیا گیا تھا اور انہوں نے اپنے آپ کو بہت بہتر ثابت کیا تھا ان لوگوں سے جنکے قرض ان کے اثاثوں سے محفوظ کئے گئے تھے۔‘‘
محمد یونس کہتے ہیں کہ اگر آپ مجھے ایک مچھلی دیں گے تو میں اس سے ایک دن اپنا پیٹ بھر سکوں گا۔ لیکن اگر آپ مجھے ایک کانٹا دیں اور مچھلی پکڑنے کا طریقہ بھی سکھا دیں تو میں کبھی بھوکا نہیں رہوں گا۔
یہی پروفیسر محمد یونس کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک پیدائشی مہارت رکھتا ہے۔۔۔ اپنی بقا کی مہارت۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر غریب ابھی تک زندہ ہیں تو یہ ثبوت ہے انکی اس بقا کی مہارت کا۔ ہمیں اسکی ضرورت نہیں ہے کہ ہم انھیں بتائیں کہ وہ کس طرح زندہ رہیں ۔۔۔ وہ یہ پہلے ہی سے جانتے ہیں۔
محمد یونس نے اپنی زندگی کا سب اچھا کام ڈھاکہ میں موجود بنک کے مرکزی دفتر میں موجود دو کمروں کے ایک اپارٹمنٹ میں کیا۔ جہاں وہ اپنی بیوی اور ایک بیٹی کے ساتھ رہتے ہیں ۔ اُن کے پاس کوئی کار نہیں ہے۔ جبکہ بنک کی برانچوں میں نہ تو کوئی ٹیلی فون ہے اور نہ ہی کوئی ٹا ئپ رائیٹر۔ ان بنکوں میں نہ تو مہنگا فرنیچر ہے اور نہ ہی کوئی کارپٹ۔ قرض داروں کو گرامین کا سٹاف خود جا کر ملتا ہے۔ بنک قرض داروں کی سکرینیگ اور مانیٹرنگ نہ کر کے بہت بڑی رقم بچاتا ہے ۔
محمد یونس کہتے ہیں کہ میرا پکا یقین ہے اور میں کہتا ہوں کہ انسان ہمیشہ غریب رہنے کے لئے پیدا نہیں ہوا۔ جب اُن سے پوچھا گیا کیا غربت کو ختم کیا جا سکتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ محض ایک نظریہ نہیں ہے ، یہ ماڈل عمل پذیر ہے یہ اپنے قابل عمل ہونے کی شہادت دے رہا ہے یہ کتاب لکھنے جیسا نہیں ہے یہ وہ ہے جسے میں روز کر رہا ہوں۔انہیں کوششوں کی وجہ سے اُنہیں امن کا نوبیل انعام دیا گیا ہے۔
محمد یونس کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ صاحبِ اقتدار ہتھیاروں کو خدا بنا کر سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ جئیں گے جونہی انکے خدا شکست کھاتے ہیں انکا نام و نشان نہیں رہتا ۔ جب کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے خدا کوہتھیار بنا لیتے ہیں جب وہ اپنے آپ کو شکست دے لیتے ہیں تو انکا خدا جیتتا ہے ۔اس طر ح یہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے رہتے ہیں، یہ لوگ کبھی نہیں مرتے بس اَمر ہو جاتے ہیں۔۲۰۰۶ء میں اپ کو امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔
۲۰۰۳ء میں دولتِ مشترکہ نے محمد یونس کو خطاب کی دعوت دی ۔دولتِ اقوامِ مشترکہ ۵۳ ممالک پر مشتمل ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ اس میں شامل تمام ممالک ماسواء موزنبیق ؔ کے حکومتِ برطانیہ کہ محکوم رہے ہیں۔ دولتِ مشترکہ کی علامتی سربراہ برطانیہ کہ ملکہ الزبتھ ثانی ہے۔ دولتِ مشترکہ میں برطانیہ ، اسٹریلیا، کیناڈا اور نیوزی لینڈ بھی شامل ہیں جسکی کہ وہ براہ راست سربراہ ہیں۔ دولتِ مشترکہ کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ اسکے رکن ممالک آپس میں معاشی تعاون کا ماحول بنائیں ۔ ۲۰۰۳ء کے دولتِ مشترکہ کے سالانہ اجلاس میں ۵۱ ممالک کے ۵۴ نمایندوں نے شرکت کی ۔ ان میں سے ۳۸ ممالک کے سربراہ مملکت یا حکومت بھی شامل تھے۔ پاکستان کو مارشل لاء کی وجہ سے اس اجلاس میں شمولیت کی دعوت نہیں دی گئی۔یہاں خطاب کرتے ہوئے ماہر معیشت محمد یونس نے دنیا بھر سے غربت کے خاتمے کے لئے اکنامکس کے نئے پہلوؤں کو اپنانے کی مقصدیت کواجاگر کیا ۔