قومی وریاستی بیانیہ اور میڈیا کا کردار:آئی کے ایف کا تیسرا اجلاس

(ناصر عباس نیرّ) 
[آئی کے ایف(Indigenizing Knowledge Forum)،پنجاب یونیورسٹی ،لاہور میں قائم کیا گیا فورم ہے، جسے اس یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے اساتذہ نے اس خیال کے تحت قائم کیا ہے کہ ’علم ‘ کو مقامی و دیسی ضرورتوں سے کیوں کر ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے۔اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ اس فورم کا قیام اس لیے ممکن ہوا ہے کہ اس وقت پنجاب یونیورسٹی میں تحقیق و تخلیق علم کے لیے سازگار فضا موجود ہے ،جس کا باعث ڈاکٹر مجاہد کامران، وائس چانسلر ہیں۔وہ خود عالمی سامراج کی عوام دشمن پالیسیوں اور مخفی 15145118_1386279681390677_924411350_o تدبیروں پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں،اور یونیورسٹی میں علمی سرگرمیوں کی دامے درمے سخنے حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ اس فورم کا تاسیسی اجلاس ۲۵؍جولائی ۶ٍ۲۰۱ء کو شعبہ انگریزی میں ہوا۔اس اجلاس میں فورم کے مقاصدپر بحث و گفتگو ہوئی۔اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ فورم کا اہم ترین مقصداس اجنبیت کو دور کرنا ہے ،جو علم (جسے ہم خود پیدا کریں یا مستعار لیں) اور ملک کے مقامی و حقیقی تقاضوں کے درمیان نو آبادیاتی عہد سے چلی آرہی ہے، اور جو ہمارے حقیقی مسائل سے لاعلمی، ان کے سلسلے میں بے حسی و لاتعلقی کا سبب ہے۔ شعبہ ء انگریزی کے شاہ زیب خاں ہی نے اوّل اوّ ل اس فورم کا خیال پیش کیا،اور اس کا نام تجویز کیا۔ اس کے تاسییسی ممبران میں شاہ زیب کے علاوہ ،انسٹی ٹیوٹ آف کمیو نیکیشنز کے اکرم سومر، پاکستان 15146715_1386279931390652_68736061_oسٹدیز سنٹر کے ڈاکٹر امجد مگسی،مائیکرو بیالوجی اینڈ مالیکیولر جینٹکس کے ڈاکٹر ضیغم عباس،انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز کے ڈاکٹر احمد عثمان، انگلش لینگوئج ٹیچنگ اینڈ لنگواسٹکس کے ڈاکٹر محمد اسلام اور شعبہ ء اردو سے راقم شامل ہیں۔اس فورم کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کوئی عہد ہ نہیں،کوئی نظامِ مراتب نہیں۔ اس کا پہلا اجلاس ستمبر میں ہوا، جس میں راقم نے متبادل بیانیے کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی۔دوسرا اجلاس اکتوبر میں شعبہ مائیکرو بیالوجی اینڈ جینٹکس میں ہو ا، جس میں ڈاکٹر ضیغم عباس نے سائنسی بیانیہ اور مابعد نو آبادیاتی یونیورسٹی کے موضوع پر گفتگو کی۔ ]

گزشتہ پانچ ماہ کے عرصے میں آئی کے ایف نے زیادہ نہیں تو دوتین باتیں ضرور باور کرائی ہیں۔ پہلی یہ کہ یونیورسٹیوں میں علم کی تخلیق کے عمل میں ایک نئی جہت اس وقت پیدا ہوتی ہے ،جب اس کے مختلف شعبوں یا ڈسپلن کے اساتذہ مل کر کچھ بنیادی اور حقیقی قومی، علمی ، دانش ورانہ مسائل کی تشخیص کرتے ہیں،اور ان پر بامعنی تبادلہ ء خیال کرتے ہیں۔عموماً یونیورسٹیوں کے اساتذہ اپنی تحقیق اور اپنے علم کو اپنے شعبے تک محدود 15139709_1386278768057435_1237335469_nرکھتے ہیں،اور انھیں یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ قریب کی عمارت میں بیٹھنے والے کسی دوسرے ڈسپلن کے اساتذہ وطلبا،دنیا و سماج و فطرت کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں۔ آئی کے ایف نے دوسری یہ بات واضح کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے کہ جس علم کی تخلیق یونیورسٹی میں ہوتی ہے، اسے طاقت کے مراکز کا ساتھ دینے کے بجائے، عوام کا ساتھ دینا چاہیے،اور یہ اسی وقت ممکن ہے،جب کیمپس کی محدود دنیا میں رہنے والے،اور اعلیٰ مناصب کی دوڑ میں ہانپنے والے ، کیمپس کے باہر کی حقیقی مقامی دنیا کے ساتھ ہم دلی یعنیEmpathy کا رشتہ استوار کریں۔اسی فورم نے تیسری بات یہ واضح کی ہے کہ علم ،مقامی دیسی ضرورتوں سے اس وقت ہم آہنگ ہوسکتا ہے جب وہ ایک متبادل اور استفہامی بیانیہ بنے؛ یعنی عالمی استعمار سے لے کر ان کے مقامی معاونین ،اور نئے قسم کے مقامی استعمار کے بیانیوں کے متوازی ،ایک ایسا بیانیہ پیش کیا جائے، جسے مقامی ذہن کی مدد سے، مقامی ثقافتی روح سے جڑ کر اور مقامی حقیقی مسائل کی تفہیم کے نتیجے میں وضع کیا گیا ہو۔
اس فورم کے پہلے دو جلسوں میں یہ نکات تفصیل سے زیر بحث آئے۔ آج اس فورم کا 15146900_1386280254723953_1455577507_o 15204120_1386280631390582_351951519_oتیسرااجلا س تھا ،جو مرکز ابلاغیات( انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکشنز )کے فیض احمد فیض ہال میں منعقد ہوا۔(یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ مرکز ابلاغیات نے فیض کے ساتھ ساتھ ، ایڈورڈ سعید کے نام سے ہال معنون کر رکھے ہیں) ۔اس جلاس کا موضوع ’’قومی اور ریاستی بیانیے کی تشکیل میں میڈیا کا کردار‘‘تھا۔عموماً ان دونوں میں فرق نہیں کیا جاتا،مگر عملاً ریاست جس بیانیے کی علم بردار ہے،اور جسے وہ نصابات سے لے کر،اپنی خارجہ پالیسی میں اور جسے میڈیا پر پیش کرتی ہے، وہ اس قوم کی آواز نہیں بن پایا، جو بیس کروڑ عوام سے عبارت ہے۔عوام وقوم ایک طرف ہیں،اور ریاست اور اسے چلانے والی حکومتیں اور اسٹیبلشمنٹ دوسری طرف ہے۔عوام اور ریاستی مقتدر اداروں میں ایک ناقابل عبور خلیج حائل ہے ۔اسی حقیقت کے پیش نظر اس موضوع کا انتخاب کیا گیا۔
اجلاس کے ماڈریٹر مرکز ابلاغیات کے پروفیسر اکرم سومرو تھے،اور انھوں ہی نے گفتگو کا آغاز کیا۔ انھوں نے کہا کہ میڈیا کا بنیادی کام خبر دینا ہے ،اور خبر کی بنیاد سچ ہے۔ یہیں سے ساری گڑ بڑ کا آغاز ہوتاہے۔اس سوال پر تمام بڑے ذہن اپنی بہترین توانائیاں صرف کرتے آئے ہیں سچ ہے کیا؟ میڈیا کو سچ کی تلاش کی شاید ہی لگن ہو،یا سچ ایک الجھے ہوئے فلسفیانہ مسئلے کے طور میڈٖیا کا مسئلہ ہو۔میڈیا کے ابتدائی دور میں سچ کا ایک عملی سا مفہوم ضرور رہا ہوگا کہ وہ خبر سچ ہے ،جس کا شاہد اس کا کوئی رپورٹر ہو،یا جس کی تصدیق دہرے تہرے ذرائع سے ہوسکے، مگر اب میڈیا نے خود اپنی ایک طاقت دریافت کی ہے کہ وہ سچ کی تشکیل کرسکتاہے،اور کچھ ا س انداز سے کہ اس کے سچ میں ذہن وجذبات پر اثرا نداز ہونے کی طاقت ، اس حقیقت سے کہیں زیادہ ہے، جو واقعی موجود ہے۔اکرم سومرو کا خیال تھا کہ میڈیا زیادہ تر اس سچ کو پیش کرتا ہے ،جسے ریاست اختیار کرتی ہے۔ریاست نے جو بیانیہ اختیار کیا ہے ،اس کی بنیاد یہ ہے کہ ایک قوم، ایک مذہب پر ہے۔ لہٰذا میڈیا بھی ایک ہونا چاہیے۔ یہاں سے میڈیا کو ’’ایک بنانے ‘‘ یعنی اسے ایک ریاستی سچ کو پیش کرنے پر مجبور کیا جاتاہے۔ انھوں نے میڈیا کے عمومی کردار پر تنقید بھی کی کہ وہ کسی بات کو اس جوش وخروش سے پیش کرتا ہے ،اور یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ اگر وہ مسئلہ حل ہوجائے تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔جیسے آج کل سی پیک کے سلسلے میں میڈیا یہ باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ اگر یہ منصوبہ مکمل ہوگیا تو ملک کے سب لوگ خوشحال ہو جائیں گے۔ان کی گفتگو کا اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ ہم میڈیا کی خبروں کو تین طرح سے سمجھتے ہیں:اوّل حاوی نقطہ ء نظر سے، دوم بحث و گفتگو کے طریقے سے ،اور سوم اس کی مخالفت سے۔ گویا ہم میڈیا کے ’’سچ‘‘ کو یا تو ریاست اور اس کے طاقت اداروں کے حاوی نقطہء نظر کے تحت من وعن تسلیم کرلیتے ہیں، 15152495_1386279018057410_888101422_o یا اس کے سچ ہونے یا نہ ہونے ،اس کے مضمرات پر بحث کرتے ہیں ،یا پھر اسے سرے سے غلط قرار دے کر ردّ کردیتے ہیں۔
شاہ زیب خاں نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہماراسماج بھی طاقت کے رشتوں کے تحت کام کرتا ہے۔ طاقت کی ایک صورت استبدادی (coercive) ہے ،جس کے ذریعے لوگوں کواور ان کے ذہنوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔طاقت کی دوسری صورت اتفاق ورضامندی (consensual)سے عبارت ہے۔ میڈیا (اور ریاست کا تعلیمی نظام، مذہبی ادارے) طاقت کی دوسری صورت کو کام میں لاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا میڈیا اپنی اس طاقت کا صحیح استعمال کررہاہے؟ کیا وہ طاقت ور ریاستی اداروں 15153100_1386279191390726_1679349186_oکے بیانیوں کے لیے اتفاق ورضامندی کے جذبات لوگوں میں پیدا کررہا ہے ،یا عوام کے لیے؟ میڈیا کس کے ساتھ کھڑا ہے؟یہ سوال ہر اس شخص کو کرنا چاہیے جو ٹی وی دیکھتا اور اخبار پڑھتا ہے۔گویا میڈیا کی کسی بات کو حاوی نقطہ ء نظر کے تحت نہیں سمجھنا چاہیے،بلکہ اس پر سوال قائم کرنے چاہییں۔انھوں نے ایک اہم بات یہ کہی کہ طلبا ،اساتذہ اور باقی سب کو سوچنے اور فیصلہ کرنے کی آزادی کو برقرار رکھنا چاہیے۔ میڈیا ہو یا کوئی دوسرا ادارہ ، اسے ایک ایسا مقام (پوزیشن) نہیں دینا چاہیے ،جس سے وہ اپنی اتفاق و رضامندی کی طاقت کو ہم پر حاوی کرسکے۔ سوال ،استفہام کی طاقت ہم سب کے پاس ہے، جسے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
راقم نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ(طباعتی و برقی) میڈیا ،کارپوریٹ کاروباری ادارہ ہے،اور وہ اپنے کاروباری ،سرمایہ دارانہ مقاصد کے ساتھ کھڑا ہے،اور یہ مقاصد اس وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب وہ ریاستی بیانیوں کے فروغ کا ذریعہ بنے۔جب کہ وہ ناظرین کو اپنا صارف سمجھتا ہے، یعنی جو سوچتا نہیں، وہ سب صَرف کرتا ہے، جو اسے پیش کیا جائے۔میڈیا کس چیز کو پیش کرتا ہے، اس پر سوال ضرور قائم کیا جانا چاہیے ،اور خود کوصارف نہیں بننے دینا چاہیے۔پیش نظر رہے کہ میڈیا بیانیوں کو تشکیل دینے کی اہلیت نہیں رکھتا، وہ بیانیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ میڈیا کے پاس نمائندگی کی طاقت ہے۔ میڈیا جس شے کی نمائندگی کرتا ہے ،وہ تشکیلی حقیقت (یعنی ہائپر رئیلٹی ) ہے،جو اگرچہ گھڑی گئی حقیقت ہے ، مگر ا س کا اثراصل حقیقت سے کئی درجے بڑھ کر ہے ۔ راقم نے یہ بھی کہا ہماراریاستی بیانیہ سرد جنگ کے زمانے کی پیداوار ہے ۔ سرد جنگ میں ملک کے حکمرانوں نے سرمایہ داریت کا ساتھ دیا،جس کی سربراہی نئی نو آبادیات کا علم بردار یعنی امریکا تھا ۔ایک دل چسپ مماثلت نو آبادیات اور نئی نو آبادیات میں یہ ہے کہ دونوں زمانوں میں مقامی قدامت پسند طبقوں کو اپنا معاون بنایا گیا ۔لہٰذا ملک اس وقت جس ریاستی بیانیے کا حامل ہے ، وہ عالمی سرمایہ دار طاقت اور اس کے معاون و حلیف اداروں اور طبقوں کا تشکیل دیا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب عالمی سامراجی پالیسی تبدیل ہوتی ہے تو ہماری ریاست بھی اپنے کل کے حلیفوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگتی ہے ۔بلاشبہ کچھ متبادل قومی بیانیے یہاں کے دانش وروں نے تشکیل دیے ہیں،مگر انھیں نہ تو ریاست قبول کرتی ہے ،نہ میڈیا انھیں جگہ دیتا ہے۔ یوں بھی میڈیا کو ماہرین چاہییں، دانش ور نہیں۔شاہ زیب کا مؤقف بھی تھا کہ بیانیے کی تشکیل عموماًدانش وروں کی ایک محدود جماعت کرتی آئی ہے،جس کی مثال خود مارکسیت میں نظر آتی ہے ۔ مارکسی عوامی بیانیہ ،عوام کے لیے تھا مگر اس کی تشکیل بالائی اور نچلے درمیانے طبقے کے دانشوروں نے کی،تاہم بیانیے کا عوام کی سطح پر فروغ میڈیا کی مدد سے ہوتا ہے۔اگرچہ اب سوشل میڈیا ایک متبادل میڈیا کے طور پر سامنے آیا ہے، مگر برقی میڈیا کا دائرہ اثر اب بھی زیادہ ہے۔شعبہ فلسفہ کے رشید ارشدنے کہا کہ ریاستی بیانیے میں مذہب کا ذکر ثقافتی مفہوم میں آیا ہے،اورزیادہ تر سرسید کے مکتبہ ء فکرکے تحت آیا ہے۔ان کا مؤقف تھا کہ ریاستی بیانیے میں مذہب کی حیثیت ایک ذریعے سے زیادہ نہیں۔
اجلاس میں اساتذہ میں سے ڈاکٹر احمد عثمان، ڈاکٹر ضیغم عباس، ڈاکٹر امجد مگسی، عاصم لودھی شریک ہوئے،جب کہ،علی شہزاد، سیدہ حرا،ماہم احمد،اذکا ضیا،قرۃ العین فاطمہ،اسامہ علی،رائے حیدر اور دوسرے طلبا و طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی ۔ مرکز ابلاغیات کی ڈائریکٹر سویرا شامی بھی شریک ہوئیں۔انھوں نے کہا کہ میڈیاکو واقعی کاروباری نقطہء نظر سے چلایا جاتاہے۔ جب قومی وعوامی بیانیہ وجود میں آئے گا تو اسے میڈیا پیش بھی کرے گا۔اصل سوال بیانیے کی تشکیل ہے ۔

About ناصر عباس نیرّ 36 Articles
ڈاکٹر ناصرعباس نیر اردو زبان کے تنقیدی ادب کا ایک با اعتبار حوالہ ہیں۔ اس سلسلے میں کئی مستند کتابوں کے مصنف ہیں: ان میں ● جدید اور مابعد جدید تنقید ● لسانیات اور تنقید ● متن ،سیاق اور تناظر ● مجید امجد: حیات، شعریات اور جمالیات ● ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری ● مابعد نو آبادیات اردو کے تناظر میں ● اردو ادب کی تشکیل جدید شامل ہیں۔ ان کی زرخیز ذہنی صلاحیتوں کے با وصف ہم یقین رکھ سکتے ہیں ک کتابوں کی یہ فہرست بڑھتی ہی جائے گی۔ حال ہی میں فکشن میں بھی اپنا ایک توانا حوالہ اپنی افسانوں کی کتاب ●خاک کی مہک کی صورت مہا کر چکے ہیں۔ جبکہ ● چراغ آفریدم انشائیہ کی طرف ان کی دین ہے۔ ● اردو تنقید پر مغربی اثرات کے عنوان سے ڈاکٹریٹ کا مقالہ تحریر کیا۔ اس کے علاوہ ہائیڈل برگ سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کے حامل ہیں۔ ite here abotu Nasir abbas

2 Comments

  1. بہت اچھی بحث۔۔۔۔
    ادب کا بیانیہ کس کو تقویت پہنچا رہا ہے اس پر بھی بحث ہونی چاہیے۔۔۔۔۔

  2. بہت اچھی بات ھے ۔ اس سے واقعی لوگوں کو اپنی بات کہنے کا موقعہ ملے گا۔ اللہ اپ کو جزائےخیررے

Comments are closed.